اگرچہ یہ ایک چھوٹا، معمولی سا واقعہ ہے، لیکن اس کے نتیجے میں مجھ سمیت میرے بھائی، محسن اور کزن، عابد نے کئی دن تک جو اذیت جھیلی، وہ ہم کبھی نہیں بھلا سکتے۔ ہماری خالہ کم زور دل کی خاتون ہیں، عموماً چھپکلی اور چوہوں سے تو ساری خواتین ہی ڈرا کرتی ہیں، مگر وہ بلّیوں حتیٰ کہ کبوتروں کی غٹرغوں کی آوازوں سے بھی ڈرتی تھیں اور جب کسی کی کوئی کم زوری ہاتھ آجائے، تو دوسرے بھی مزہ لینے کے لیے انہیں تنگ کرتے ہیں۔ ہم بھی انہیں ڈرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا کرتے تھے۔ اس وقت ہم فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے۔ پڑھائی سے جو وقت فارغ بچ رہتا، اسے ایسی شرارتوں میں گزارا کرتے تھے۔
جس دن کا یہ واقعہ ہے۔ ہمارے محلّے میں دو بہنوں کی شادی ہورہی تھی۔ اگلے روز ان کی بارات آنی تھی۔ وہ دونوں بہنیں مایوں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم تینوں کزنز اپنے امتحانات کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ جب پڑھتے پڑھتے تھک گئے اور کچھ بوریت محسوس ہونے لگی، تو ہم نے خالہ کو ڈرانے کا پروگرام بنایا۔ محسن نے دادا ابّو کی الماری سے سفید براق شلوارقمیص نکال کر پہن لیا اور ان ہی کی سفید ٹوپی بھی سر پر چڑھالی۔ وہ اپنے دوست سے سفید بالوں والی لمبی داڑھی مانگ کر پہلے ہی لے آیا تھا، اس کے ساتھ سفید مونچھیں بھی جڑی ہوئی تھیں۔ انہیں چہرے پر لگانے سے اس کا سارا چہرہ چھپ گیا تھا۔ اس حلیے میں وہ اپنی دراز قامتی اور دبلے پن کی وجہ سے آسمانی مخلوق لگ رہا تھا۔ پروگرام یہ طے ہوا کہ عابد اور محسن آگے پیچھے نکلیں گے اور خالہ کو ڈرانے کے بعد بھاگ جائیں گے، اور اگر حالات کچھ بگڑ گئے، تو کچھ وقفے کے بعد میں حالات سنبھالنے کے لیے چلا جائوں گا۔ ہم پروگرام تشکیل دے چکے تھے، اسی اثناء میں عابد کو اس کے گھر کھانے کے لیے بلوالیا گیا، تو اس نے محسن سے کہا کہ آدھے گھنٹے بعد مجھے گھر سے لے لینا۔ آدھ گھنٹہ گزرنے کے بعد محسن گھر سے نکلا، عابد کا گھر چند گھر چھوڑ کر تھا، وہ جیسے ہی تیسرے گھر تک پہنچا، تو عابد کے گھر کا دروازہ کھلا اور اس کے ابّو نکلتے دکھائی دیئے، انہیں دیکھ کر محسن ڈر گیا اور جہاں رکا ہوا تھا، اسی دروازے کے ساتھ چپک کر کھڑا ہوگیا۔ جوں ہی وہ گلی سے نکل کر نظروں سے اوجھل ہوئے، اس نے جنبش کی اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا، ابھی اس نے ایک قدم ہی بڑھایا تھا کہ یک دم دروازے کے دونوں پٹ دھڑ سے کھلے اور ہنستی ہوئی دو نوجوان لڑکیاں باہر نکلیں۔ دونوں ابٹن سے مہک رہی تھیں۔ دروازے سے کھسکتے ہوئے محسن نے مڑ کر دیکھا، تو وہ دونوں لڑکیاں عین اس کے سامنے آکھڑی ہوئیں، انہوں نے جوں ہی محسن کو دیکھا، خوف زدہ ہوکر ایک زوردار چیخ ماری اور بدحواسی میں اس قدر تیزی سے واپس پلٹیں کہ آپس ہی میں ٹکرا کر دھڑام سے زمین پر گرگئیں۔ گلی میں چند منٹوں بعد بھگدڑ سی مچ گئی۔ ادھر محسن نے بھی اس اچانک افتاد سے گھبرا کر اپنے گھر کی طرف دوڑ لگادی۔ پروگرام کے مطابق، میں جہاں کھڑا تھا، وہاں مجھے محسن نے دیکھا، تو رک کر ساری بات بتادی۔ میں نے اسے فوراً حلیہ تبدیل کرنے کوکہا اور خود ان غیر متوقع حالات کا جائزہ لینے کے لیے برق رفتاری سے وہاں پہنچا، تو لڑکیوں کو ہوش میں لانے کے جتن کیے جارہے تھے۔ وہ گھر دراصل ان دونوں لڑکیوں کی بہن کا تھا، جن کی شادی اگلے روز ہونی تھی، وہ مایوں کی وجہ سے گھر میں ایک کونے میں بیٹھے بیٹھے اکتا گئیں،تو اپنی ماں سے اجازت لے کر بہن کے گھر ٹی وی دیکھنے چلی گئیں۔ اس زمانے میں بہت کم لوگوں کے گھروں میں ٹی وی ہوا کرتا تھا، اگرچہ ماں نے انہیں بہت سمجھایا بھی کہ ’’ابٹن سے مہکتی لڑکیوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے،جنّات ایسے وقت میں باہر نکلتے ہیں، کسی کے راستے میں آجائیں، تو انہیں تنگ کرتے ہیں۔‘‘ لیکن چوں کہ اس روز ان کے پسندیدہ ڈرامے کی قسط آرہی تھی، لہٰذامنّت سماجت کے بعد ماں کو راضی کر ہی لیا، پھر ڈراما ختم ہونے کے بعد جیسے ہی باہر نکلنے کے لیے دروازہ کھولا، تو محسن کو دیکھ کر اسے جِن سمجھ بیٹھیں اور آپس میں ٹکرا کر زمین پر گرپڑیں۔ اس وقت تک ایک لڑکی قدرے ہوش میں آچکی تھی، جب کہ دوسری پہ مکمل طورپر بے ہوشی طاری تھی۔ دروازے کی کنڈی سے ٹکرانے کے باعث اس کے سر سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ خوشیوں سے بھرا گھر، ماتم کدے میں بدل چکا تھا، کیوں کہ سر پر چوٹ لگنے سے لڑکی کو ہوش نہیں آ رہا تھا۔ دوسری لڑکی، بازو میں چوٹ آنے کے باعث شدید تکلیف میں تھی۔ مذکورہ صورتِ حال دیکھ کر میں نے واپس آکر محسن کو بتایا کہ وہاں کچھ زیادہ گڑبڑ ہوگئی ہے، تو محسن کا خوف کے مارے برا حال ہوگیا۔ میں نے اسے تسلّی دی کہ ’’میرے اور تمہارے سوا یہ بات کوئی نہیں جانتا اور عابد کو بھی اس واقعے کا کوئی علم نہیں، اس لیے خاموش رہو، گھر میں کسی کو پتا نہ چلے، یوں بھی تمہاری نیّت ان لڑکیوں کو ڈرانے کی نہیں تھی۔ اسے محض ایک اتفاقی حادثہ سمجھ کر بھول جائو۔‘‘
صبح ہونے پر مزید صورتِ حال واضح ہوگئی۔ لڑکیوں کو قریبی اسپتال لے جانا پڑا تھا، جہاں مرہم پٹّی کے بعد ڈاکٹرنے انہیں چند ہفتے مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ یوں ان بے چاریوں کی شادی کی تاریخ آگے بڑھادی گئی۔ کھانے کی ساری کچّی اشیاء، گوشت وغیرہ خراب ہوجانے کے احتمال سے دیگ پکا کر محلّے اور رشتے داروں میں بانٹ دیا گیا۔ لڑکیوں نے حواس بحال ہونے کے بعدیہ بیان دیا کہ ’’دروازہ کھولتے ہی اچانک ہمارے سامنے ایک سفید لمبی داڑھی والا بوڑھا جِن آکھڑا ہوا، جس نے سفیدبرّاق کپڑے پہنے ہوئے تھے۔‘‘ لڑکیوں نے مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں بھی کہہ دیں، جو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھیں۔ یعنی وہ جِن انہیں پکڑنے کے لیے بڑھا تھا، اس کی آنکھوں سے شعلے سے نکل رہے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ اس واقعے کے بعد سارے محلّے میں خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہوگئی تھی اور جب تک ان لڑکیوں کی شادی کچھ ہفتوں بعد بہ خیر و خوبی سرانجام نہیں پائی، وہ محلّے والوں کا موضوعِ بحث بنی رہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی رہیں۔
(حیدرشاہ، رینالہ خورد)