خواتین کے نزدیک یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور اس معاشرے میں ان کا گزارہ خاصا مشکل ہوتا ہے۔ مردانہ برتری کے اس معاشرے کو جب فلموں میں عکسبند کیاگیا تو مرد فنکاروں نے عورت کا روپ دھار کر خوب داد سمیٹی۔ مردوں کے لئے عورت کا روپ دھارنا اور اداکاری کرناآسان کام نہیںہوتا ہے۔ انڈسٹری چاہے لالی وڈ کی ہو یا بالی وڈ، کچھ فنکاروں نے یہ کردار کمال مہارت سے ادا کئے اور داد سمیٹی۔ پاکستانی فلموں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو منور ظریف سے بہتر اور کسی مرد فنکار نے عورت کے روپ میں اداکاری نہیں کی۔ ’’شریف بدمعاش‘‘، ’’جانو کپتی‘‘، ’’بنارسی ٹھگ‘‘ اور ’’شرارت‘‘ منور کی وہ یادگار فلمیں ہیں جن میں انہوں نے عورت کے روپ میں اعلیٰ درجے کی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔’’جانو کپتی‘‘ اور’’شرارت‘‘ کی اگر بات کی جائے تو منور ظریف عورت کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے نسوانی آواز میں مکالمے ادا کئے اور ان کا انداز بالکل جدا گانہ تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اور فلموں میں بھی وہ عورت کے روپ میں نمودار ہوئے اور ہر بار شائقین فلم نے ان کی پذیرائی کی۔
فلمسٹار رنگیلا جن کوان کی اداکاری میں ملکہ حاصل تھا۔1977 میں رنگیلا نے ایک فلم ’’عورت راج ‘‘ کے نام سے بنائی‘‘۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے تمام مرد اداکاروں نے عورتوں کے روپ میں اداکاری کی۔ وحید مراد بھی پہلی مرتبہ عورت کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ یہ فلم شائقین پر کوئی خاص تاثر نہ چھوڑ سکی۔ اس فلم کے ہدایتکار رنگیلا تھے، اس کی کاسٹ میں رانی، وحید مراد، سلطان راہی، چکوری، نغمہ، شہلا گل، رنگیلا، یاسمین خان، بدر منیر، آصف خان اور دیگر تھے۔ یہ کہا گیا کہ یہ فلم ایک انوکھے موضوع پر بنائی گئی ہے اور اس امید کا اظہار کیا گیا کہ اس فلم کو شائقین کی طرف سے بھر پور پذیرائی ملے گی۔ لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی۔ بہر کیف اس فلم میںرنگیلا نے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ مردوںکے معاشرے میں خواتین کوکن مسائل کاسامنا رہتا ہے۔
ٹی وی کے طویل دورانیہ کے کھیل’’روزی‘‘ میں مس روزی کے نسوانی کردار سے معین اختر کی مقبولیت دوچند ہوگئی تھی۔لانگ پلے ’’روزی‘‘کی کہانی ہالی وڈ کی فلم’’Tootsie‘‘سے اخذ کی گئی تھی جس میںہالی وڈ کے اداکار ڈسٹن ہوف مین نے اداکا ری کے جوہر دکھائے تھے۔ ہالی وڈ اداکار ڈسٹن ہوف مین جیسے نابغہ روزگار اداکارکے کردارمیں جان ڈالنا یہ معین اختر کا ہی خاصا تھا۔
معین اختر نے ڈرامے روزی میں ہارون نامی لڑکے کاکردارکیا، یہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے لڑکی کاروپ دھارلیتا ہے۔ ہارون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ اچھا اداکار ہے لیکن اسے سٹوڈیو کے اندر بھی نہیںجانے دیاجاتا۔ اس کواچھوتا آئیڈیا آتا ہے وہ لڑکی کاروپ دھار کرسٹوڈیو میں آتا ہے اوراسے ڈرامے میںکام مل جاتا ہے۔ اس ڈرامے کی ہدایات وپیشکش سائرہ کاظمی نے کی تھی۔ معین اختر نے اس ڈرامے میںجان ڈال دی اوریہ کرداران کی پہچان بن گیا۔ اس میں ان کے ساتھ فضیلہ قاضی بھی تھیں۔ اداکاری کا مطلب ہی روپ بدلنا ہے، یعنی آپ وہ نظر آئیں جو آپ حقیقت میں نہیں ہیں، چنانچہ ایک خوش و خرم زندگی گزارنے والا معقول اداکار کیمرے کے سامنے آکر کبھی تو ایک غمگین، پریشان اور مفلوک الحال مزدور بن جاتا ہے اور کبھی ایک ایسے کروڑ پتی سمگلر کا روپ دھار لیتا ہے جو دنیا کا امیر ترین آدمی بننے کے خواب دیکھ رہا ہو۔ اداکاری یقیناً اسی دھوپ چھائوں کا نام ہے لیکن بعض اوقات اداکار اپنی ذات سے بہت مختلف کردار اپنانے کا چیلنج قبول کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی جوان اداکار ایک اسّی سالہ بوڑھے کا کردار قبول کر لیتا ہے تو اُس میں فنِ اداکاری کے ساتھ ساتھ میک اپ آرٹسٹ کا فن بھی آزمائش کے کٹہرے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال اُس وقت پیش آتی ہے جب کوئی عورت رُوپ بدل کر آدمی بننا چاہے یا کوئی لڑکا کسی لڑکی کا بھیس بدل لے۔ عورت کا آدمی بننا نسبتاً آسان ہے صرف داڑھی، مونچھ اور ٹوپی یا پگڑی سے اصلیت چھپا لی جاتی ہے البتہ جب کوئی لڑکا نِسوانی روپ اختیار کرتا ہے تو معاملہ خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔
بالی وڈ بھارتی فلمی صنعت کے ابتدائی سالوں میں مرد اداکار اکثر عورتوں کے کردار میں بھی جلوہ گر ہوتے تھے۔ایک زمانہ تھا جب ایکٹنگ کے میدان میں خواتین نہ کے برابر تھیں اور اس وجہ سے مردوں کو ہی عورت بن کر ایکٹنگ کرنی پڑتی تھی۔ انّا سالونکے وہ پہلے اداکار تھے جنہوں نے ہندی سینما میں پہلی بار ہیروئین کا کردار ادا کیا اور دادا صاحب پھالکے کی فلم ’’لنکا دھن‘‘ میں انہوں نے ہیرو اور ہیروئین دونوں کا کردار ادا کیا یعنی انہوں نے فلم میں رام کا کردار بھی ادا کیا اور سیتا بھی بنے۔ گویا انہوں نے ہندی فلموں میں ڈبل رول کی پہلی روایت قائم کی تھی۔ اس فلم کو ہندوستانی سنیما کی پہلی سپر ہٹ فلم بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ ممبئی کے ایک سینما ہال میں یہ فلم23 ہفتوں تک مسلسل نمائش پذیر رہی تھی۔
1962 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ہاف ٹکٹ‘‘ میں کشور کمار نے عورت کے روپ میں اداکاری کی اور ایک گانا’’آکے سیدھی لگی‘‘ بھی ان پر پکچرائز ہوا۔ اس کی موسیقی سلیل چودھری نے ترتیب دی اور گیت نگار تھے شیلندر۔ اس کے بعد کشور کمار نے کسی بھی فلم میں عورت کا کردار ادا نہیں کیا۔1963 میں ’’شمی کپور کی فلم ’’بلف ماسٹر‘‘ سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس میں شمی کپور نے عورت کا روپ دھارا اور ایک گانا ان پر پکچرائز ہوا۔ 1968 میں ششی کپور نے بھی اپنی ہٹ فلم ’’حسینہ مان جائے گی‘‘ میں عورت کا کردار ادا کیا اور ایک خوبصورت گانا ان پر پکچرائز ہوا، جس کے بول تھے ’’سنو سنو‘‘، یہ گانا چار مشہور بھارتی گانوں کی پیروڈی تھا۔1969 میں بسوا جیت نے فلم ’’قسمت‘‘ میں عورت کا کردار ادا کیا اور بہت کامیاب رہے۔ اس فلم میں ان پر جو گیت پکچرائز ہوا، اسے آشا بھوسلے اور شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ یہ گانا آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بول’’کجرا محبت والا‘‘ تھے۔ ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کے کپڑوں میں ان سے اچھا کوئی دوسرا مرد فنکار نغمہ پکچرائز نہیں کروا سکتا۔ اسی طرح ایک اور فلم ’’بیوی اور مکھن‘‘ میں بھی انہوں نے عورت کا کردار ادا کیا۔
1971میں ریلیز ہونے والی فلم ’’پردے کے پیچھے‘‘ میں ونود مہرہ نے عورتوں والا لباس پہن کر بندو اور یوگیتا بالی کے ساتھ رقص کیا اور تینوں پر جو گانا پکچرائز ہوا اس کے بول تھے ’’تین کنواریاں‘‘۔ اس نغمے کو آشا بھوسلے، اوشا منگیشکر اور شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ 1981 میں امیتابھ بچن کی’’لاوارث‘‘سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے ایک گانے میں انہوں نے یادگار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ یہ گانا آج تک اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے جس کے بول’’میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے‘‘تھے۔ فلم ’’لاوارث‘‘ کے مشہور گانے میں لڑکی کے بھیس میں پرفارم کرکے سب کو حیران کردیا۔ اسے امیتابھ بچن نے خود گایا تھا اور کیا خوبصورت گایا تھا۔ گانے پکچرائز کرانے کے علاوہ جہاں تک عورتوں جیسی اداکاری کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھارتی فلمی صنعت میں محمود کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا۔ بالی وڈ کے تین خان بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہے۔شاہ رخ خان بالی وڈ کے بادشاہ کے نام سے جانے جاتے ہیں انہوں نے بھارتی انڈسٹری میں ایک سے بڑھ کے ایک فلم پیش کی وہ اپنی فلم تری مورتی اور ڈپلیکیٹ میں لڑکی کا کردار بھی اداکرچکے ہیں۔عامر خان بالی وڈ انڈسٹری میں مسٹر پرفیکٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں اس کی وجہ ہے ان کی متاثر کن اور نتیجہ خیز کہانی پر مبنی فلمیں۔ عامر خان نے فلم بازی میں ایک لڑکی کا روپ دھاراجس میں وہ کسی بھی طرح خوبصورت لڑکی سے کم نہیں لگ رہے تھے اور یہ کردار نبھانے پر انہوں نے اپنے مداحوں سے بے شمار داد سمیٹی۔سلمان خان نے فلم جانے من میں لڑکی کا روپ دھارا اور خوب داد سمیٹی۔ اس فہرست میں گووندا بھی شامل ہیں۔کمل ہاسن نے بھی ’’چاچی 420‘‘ میں عورت کا کردار بڑی خوبصورتی سے نبھایا۔ کمل ہاسن کے نام سے زیادہ تر لوگ واقف نہیں لیکن اگر کسی سے چاچی چار سو بیس کے بارے میں پوچھا جائے تو یقیناً ہر شخص ہی اس کے بارے میں جانتا ہوگا۔ کمل ہاسن اس فلم میں چاچی کے کریکٹر میں نہایت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔