وہ کئی لحاظ سے بڑے منفرد انسان اور سفارتکار تھے۔ ان کی عوامی شہرت کا آغاز کرکٹ کے میدان سے ہوا لیکن وجہ شہرت کھیل نہیں بلکہ ان کی آوازتھی، کرکٹ میچوں کی کمنٹری کرتے ہوئے وہ ڈپلومیسی کے میدان میں داخل ہوئے تو پہلا منصب ہی گھانا میںہائی کمشنر تھا، پھر اگلے 30 سال سے زائد عرصہ تک روس، جاپان، جرمنی، رومانیہ، جنیوا،کینیڈا، امریکہ، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہےاور پھر مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ کے طور پر بھی ذمہ داریاں پوری کیں۔ وہ پارسی مذہب کے پیروکار تھے لیکن اسلامی مملکت پاکستان کی سفارتی نمائندگی کرتے رہے۔ جس ملک میں بھی سفیر رہے وہاں اپنے ہم وطنوں اور مسلمانوں کے اجتماعات سے ہمیشہ بسم اللہ سے آغاز کرکے خطاب کرتے۔ امریکہ میں تقرری کے دوران ایک بار میں نے پوچھ لیاکہ وہ غیرمسلم ہیں مگر بسم اللہ سے آغازکرتے ہیں توان کا جواب تھا کہ میں اسلامی مملکت پاکستان کا سفیر ہوں لہٰذا یہ میری منصبی ذمہ داری ہے۔ مجھے ان کی سفارتی مہارت اور مقبولیت دیکھنے کا پہلا موقع اس وقت ملا جب وہ کینیڈا میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوکر اوٹاوا 1972 میں آئے۔پھر امریکہ اور اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز نیویارک میں پاکستانی سفیر کے طور پر انکی تقرری اور مشرقی تیمورمیں سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ کے طور پر بھی جمشید مارکر کی مقبولیت اور کارکردگی دیکھنےکا موقع ملا۔ ا نہوں نے پاکستان کو قائم ہوتے دیکھا تھا۔ بہت سے تلخ حقائق سے بھی واقف تھے اور حقائق بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے لیکن اختلاف رائے میںبھی شائستگی کا مکمل خیال رکھتے۔وہ بزنس فیملی سے تعلق کے باعث خود تو ان مشکلات سے نہیں گزرے جو قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کو درپیش آئیں لیکن انہیں ان حالات کا مشاہدہ اور اثرات سے بخوبی واقفیت تھی۔ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش میں تبدیلی سے قبل ہی 1965 میں پاکستان کی فارن سروس سے وابستہ ہوچکے تھے۔ 1965کی پاک۔بھارت جنگ کے اثرات، فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی کے آخری سال، معاہدہ تاشقند اور ذوالفقار علی بھٹو کی ایوب حکومت سے علیحدگی اور عوامی سیاست، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ کے دوران بھی وہ پاکستان کی سفارتی نمائندگی کررہے تھےاور بہت سے درون خانہ تلخ حقائق اور سرکاری رازوں سے بھی واقف تھے۔ گوکہ انکی فارن سروس میں تقرری براہ راست بطور سفیر برائے گھانا ہوئی اور انہیں مختلف عہدوں اور کیریئر کے درجات اور مراحل سے گزرنانہیںپڑا، ایسی تقرری کو آجکل کی اصطلاح میں سیاسی تقرری کا نام دیا جاتا ہے اور تقرری کرنے والی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی تقرری بھی ختم سمجھی جاتی ہے لیکن جمشید مارکر اپنی تقرری سے لیکر اگلے 30 سال تک پاکستان میںآنے والی تمام سویلین اور فوجی حکومتوں کیلئے قابل قبول سفیر پاکستان رہے۔ جمشید مارکر نےاپنےمشاہدات، خیالات اور متعدد تجربات کو اپنی کتاب میں قلمبند بھی کیا ہے اور اس پر اٹھائے جانے والے سوالات کو بھی عوامی فورم اور دانشوروں کے اجتماعات میں سامنا کیا ہے اور داد و تحسین بھی حاصل کی ہے۔ آج جب 95سال کی عمر میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، جمشید مارکر کی ذات کے ان پہلوئوں کو اپنے قارئین کی نذر کرتا ہوں جو گاہے بگاہے ان سے ملاقاتوں، گفتگو اور صحافتی ذمہ داریوں کے دوران میرے ذاتی مشاہدے میں آئے۔
مارکر صاحب پاکستان کی ایک مختصرسی اقلیت مگر کامیاب کاروباری پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہ اس بارے میں بڑے حساس تھے کہ وہ آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 1972 میں کینیڈا میں سفیر تھے، پاکستانی کمیونٹی خاصی مختصر تھی مگر وہ جہاںبھی کمیونٹی اجتماعات میں نظر آئے تلاوت کے احترام کے ساتھ ساتھ خود بھی اپنی گفتگو کا آغاز پوری بسم اللہ پڑھ کر کرتے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کینیڈامیں سفیر مقرر ہوئے تو کینیڈین حکومت کے حکام سے گفتگو میں یہ احساس دلاتے کہ بھارت نے بنگلہ دیش میں جارحیت کی ہے اور کینیڈا نے بھارت کے ری ایکٹرکیلئے ہیوی واٹر سپلائی کرکے اس کے جارحانہ عزائم کی ہمت افزائی کی ہے۔ وہ یہ بات بڑی خوش اسلوبی سے کینیڈین حکام کو کہتے اور پھر ساتھ ہی پاک۔کینیڈا تعاون کا ایجنڈا آگے بڑھادیتے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں ملاقات ہوئی انتہائی سلجھےہوئے مشفقانہ انداز میں ملے۔
جب جمشید مارکر اقوام متحدہ میں سفیر پاکستان مقرر ہوئے تو نیویارک میں ان سے اقوام متحدہ میں آمنا سامنا، ملاقات اور سوالات معمول بن گئے لیکن ان کی شرافت، سنجیدگی، ذہانت اور سفارتی تجربہ کے باعث ان کی ’’لیجنڈری‘‘ شخصیت کا رعب اور احترام موجود رہا۔ اوران کے اسی دور سفارت کے ایام میںان سے سیکھنے،سمجھنے اور رپورٹنگ کے زیاہ مواقع ملے۔ مارکر صاحب جہاں ڈپلومیسی کی دنیا میں عزت اور وقارکے حامل تھے، وہاں پاکستانی کمیونٹی میں بھی وہ بڑےمقبول تھے۔ امریکہ آنے والے ہمارےاکثر حکمراں اور سفیر صرف پروفیشنلز اور خوشحال پاکستانیوںکے اجتماعات اور ڈنرز تک کمیونٹی سے رابطہ کو کافی سمجھتے ہیں اور نسبتاً کم خوشحال، محنت کش پاکستانیوں کے علاقوں اور گروپوں سے رابطے سے گریز کرتے ہیں۔ مثلاً کئی ہزار کی پاکستانی آبادی والے علاقے بروکلین نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی اپنے کاروبار اور دفاتر کے ساتھ موجود تھی اور اب بھی ہے۔ جمشید مارکر صاحب سفیر بننے سے قبل ہی کرکٹ کے میدان میں ریڈیو کمنٹری کے ذریعے قومی شہرت حاصل کئے ہوئے تھے۔جب کبھی بروکلین کی اس پاکستانی کمیونٹی نے انہیں مدعو کیا جمشید مارکر اپنی کئی مصروفیات کو بھی ملتوی یا تبدیل کرکے پاکستانی محنت کشوں کے اجتماعات میں شرکت کرتے۔
سفارتکاری سے سبکدوشی کےبعد وہ اپنی اہلیہ ارناز مینوالا مارکر، بیٹی فیروزہ کے ہمراہ اپ اسٹیٹ نیویارک کے ایک علاقے میں سفرکررہے تھے کہ ان کے مقامی ٹیکسی ڈرائیور کی غفلت سے ایکسیڈنٹ کے باعث ان کی بیٹی فیروزہ کی موت واقع ہوگئی۔ مارکر صاحب کو بھی پسلیوںاور جسم کےدیگر حصوں پر شدید چوٹیں آئیں اور اہلیہ ارناز بھی کافی زخمی ہوئیں، چار گھنٹے کی کار کی ڈرائیو کےبعد جب نیویارک شہر سے ریاست نیویارک کے اس علاقے میں اسپتال پہنچا تو مارکر صاحب نڈھال ہوکر سورہے تھے، اہلیہ ارناز زخمی ہونے کے باجوود انکی تیمارداری کررہی تھیں۔ کچھ دیر بعد مارکر صاحب کی آنکھ کھلی مجھے دیکھ کر قدرے ناراضی سے اتنی دور آنے پر اعتراض کیا اور پھر حادثے کی کچھ تفصیل بتائی لیکن زخموں اور غم سے نڈھال جمشید مارکر صاحب کے چہرے پر ایک اطمینان اور صبر کا ایسا تاثر تھاکہ جیسے وہ بیٹی کی موت اور اس حادثہ کو اپنے خالق کی رضا قرار دے بیٹھے ہیں۔پھر میرے آنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے کہ مخلص دوست ہی عہدوں سے سبکدوشی کے بعد غمی خوشی کے مواقع پر رابطے رکھتے ہیں۔ دوسرے روز انہی تاثرات کے ساتھ اس بارے میں خبر ’’جنگ‘‘ میں شائع ہوگئی۔ مارکر صاحب سادہ اور بااخلاق انسان تھے، عاجزی حددرجہ تھی۔ صدر مشرف اقوام متحدہ آئے تو میں ان دنوں اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل صحافیوں کی تنظیم کا صدر تھا۔ صدرمشرف کی پریس کانفرنس کے کمرے میں مارکر صاحب پچھلی نشستوں پر خاموشی سےبیٹھے تھے۔ احتراماً بہت زور دیاکہ آگے بیٹھ جائیں مگر عاجزی اور موقع کی مناسبت کےباعث نہیں مانے۔ جمشید مارکر قومی اثاثہ تھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)