تارکین وطن پاکستانیوں کا دِل ہر حال میں پاکستان کے ساتھ ہی دھڑکتا ہے ، اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کا حل آج تک تلاش نہیں کیا جا سکا ، اِنہیں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا ، اِن کے دُکھوں کا مداوا نہ ہو سکا ، 60کی دہائی سے آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے یہ لوگ دُنیا بھر کے ممالک میں آن مقیم ہوئے ، انہیں ملکی معیشت کے بڑھاوے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت مانا گیا لیکن وطن میں آج تک قائم ہونے والی کسی حکومت نے تارکین وطن پاکستانیوں کو اُن کے مسائل کے حل کی نوید نہ سُنائی لیکن اِس کے باوجود تارکین وطن پاکستانی اپنے وطن عزیز کے حالات و واقعات سے ہر وقت باخبر اورجڑے نظر آتے ہیں ۔یہ معاملہ یہیں پر اختتام پذیر نہیں ہوتا بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین ، ایم پی اے ، ایم این ایز اور وزراء نے جو’’ کھلواڑ‘‘ اِس تارکین وطن نامی ’’ مخلوق ‘‘کے ساتھ کیا وہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے ، ان سیاسی اکابرین میں سے جب بھی کوئی دوسرے ممالک کے سرکاری یا نجی دورہ پر آیا تووہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے آنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا ، اُن پر رہائش ، خوراک ، سیر سپاٹا اور تحائف کی مد میں ڈالرز ، پونڈز اور یورو نچھاور کئے ، اپنی محنت کی کمائی اس لالچ میں سیاستدانوں پر لگائی کہ شاید وہ ہمارے مسائل کا کوئی حل نکالیں گے یا یہ کہ جب ہم پاکستان جائیں گے تو یہ سیاستدان ہمیں پروٹوکول دیں گے ہماری بھی’’ ٹہل سیوہ‘‘ ہوگی ، لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔تارکین وطن پاکستانیوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اور مہمانوں کو اُن کے اصل میزبانوں سے چھین کر انہیں چھپا کر خدمت کے ریکارڈ قائم کئے ، خدمت کرتے ہوئے کئی بار یہ بھی نہ سوچا گیا کہ مہمان موصوف اس قابل بھی ہیں کہ وہ پاکستان میں تارکین وطن کے مسائل کو کسی پلیٹ فارم پر اجاگر کر سکیں ، بس اتناپتا چلنا تھا کہ یہ سیاسی مہمان پاکستان سے آیا ہے تو شروع ہوگئے اُس کے اعزاز میں ظہرانے اور عشائیے ، پاکستان سے یونین کونسل کا کونسلراگر مہمان ہو تو بھی اُسے دیارِ غیر میں ایم پی اے اور ایم این ایز جتنے اختیارات کا مالک سمجھا جاتا ہے مہمان کے کونسلر ہونے کے باوجود اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جاتا اور سوچ لیا جاتا ہے کہ یہ مہمان قومی یا صوبائی اسمبلی میں ہماری بات ضرور کرے گا ،چلیں کونسلر تو پھر بھی کچھ ووٹ لے کر عوامی نمائندہ بنتا ہے،ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ ایک ایم این اے کے کزن کے دوست کا ہمسایہ یورپی ممالک کی سیر کو نکلا ، مختلف ممالک میں مقیم تارکین وطن نے اُس مہمان کو ’’ اُچک ‘‘ لیا اور روزانہ کی بنیادوں پر اُس کے اعزاز میںدعوتوں کا سلسلہ چل نکلا ، یہی نہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بارسلونا میں ایک پاکستانی وزیر کا محلے دار مہمان بنا تو یقین جانیں کہ اُس محلے دار کو وزیر ہی سمجھا، لکھا اور پکارا گیا ، مجال ہے اُس مہمان نے بُرا منایا ہو یا یہ بتانے کی کوشش کی ہو کہ وہ وزیر نہیں ہے ، بلکہ جوں جوں اُس کو وزیر پکارا جاتا توں توں اُس کی چال میں رعب اور لہجے میں دبدبہ آتا جاتا تھا ، حسب ِروایت فائیو اسٹار ہوٹل ، تحائف اور دعوتیں اُس کا مقدر بنیں ، تب دل تو بہت کڑھا بس یہ سوچ کر خاموش رہے کہ مہمان اپنا مقدر ساتھ لے کر آتا ہے ۔ لیکن دیارِ غیر میں اس ضرب المثل کے بالکل بر عکس ہے کیونکہ یہاں آنے والا مہمان اپنا مقدر لے کر جاتا ہے کبھی تحائف اور کبھی نقدی کی صورت میں۔پاکستان سے آنے والے سیاسی مہمان اب تارکین وطن پاکستانیوں کی عادات و خصائل سے اِس طرح واقف ہو چکے ہیں جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کو جانتے ہوں ، یہ سیاسی ’’ مسخرے ‘‘ پاکستان سے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ہی ٹیلی فونک خطاب کرکے اپنے مقدر چمکا لیتے ہیں ، آنے والے مہمان جس میزبان کے ہاں ٹھہرتے ہیں اُس کو اپنی سیاسی جماعت کا صدر بنانے کا لالچ دے کر خوب خدمت کراتے ہیں اورواپس وطن جاتے ہوئے میزبان کی صدارت کا باقاعدہ اعلان کرجاتے ہیں ، حالانکہ جو مہمان یہ اعلان کرتا ہے اُس کے پاس نہ تو نوٹیفکیشن دینے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ اُس کے پاس کوئی ایسا نوٹیفکیشن ہوتا ہے جس سے وہ ثابت کر سکے کہ وہ خود کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار ہے ۔چند دنوں بعدپھر اُسی سیاسی جماعت کا دوسرا مہمان اپنے کسی اور میزبان کے پاس آتا ہے اور خدمت کے عوض اپنے میزبان کی صدارت کاا علان کر کے واپس چلا جاتا ہے ، مہمان واپس جانے سے میزبان کے ہونے والے اخراجات کا سلسلہ تھم نہیں جاتا بلکہ مزید تیز ہو جاتا ہے کیونکہ اب ایک ہی جگہ ایک ہی سیاسی پارٹی کے دو صدور بن چکے ہوتے ہیں ، دونوں صدور اپنا اپنا نوٹیفکیشن لے کر ثابت کرتے ہیں کہ وہ اصل ہیں اور دوسرا جعلی ہے ، اپنی بات کو سچ بنانے کے لئے دونوں صدور اپنی سیاسی پارٹی کے قائد کی سالگرہ ،بیماروں کے لئے محفل دعائے صحت ، جماعت کا یوم تاسیس ، یوم تشکر ، مبارک بادیں وغیرہ کے عنوان سے’’ اکٹھ‘‘ کرتے ہیںجس کے لئے بہت سے افرادجمع کئے جاتے ہیں تاکہ بتایا جا سکے کہ ہمارے نوٹیفکیشن اور موقف کے ساتھ زیادہ لوگ ہیں ،اکھٹے کئے گئے سب افراد کو کھانا کھلایا جاتا ہے ، میڈیا نمائندگان کو بلا کر اُن کی علیحدہ سے ’’ خدمت ‘‘کی جاتی ہے، اس طرح سیاسی مہمانوں کی’’ نوٹیفائڈ شرارت ‘‘سے تارکین وطن کے مابین نہ رکنے والی لڑائی اور اخراجات کا نہ تھمنے والاسلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، دونوں صدور کی لڑائی ختم کرانے کے لئے جب معززین پاکستان میں اُن نوٹیفکیشن دینے والے سیاسی مہمانوں سے رابطہ کرتے ہیں تو کسی سے رابطہ نہیںہو پاتا ،فون نمبرز تک غلط ہوتے ہیں ، خیروقت گزرتا رہتا ہے اور پاکستان میں قائم حکومت اپنا پانچ سالہ دور ختم کر لیتی ہے لیکن اُن دونوں متنازع صدور کانوٹیفکیشن ختم ہوتا ہے اور نہ ہی اُن کی لڑائی۔ یہ تارکین وطن کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے ۔سیاسی جماعتوں کے قائدین تارکین وطن کے مسائل کو حل کریں یا نہ کریں لیکن اپنے سیاسی ’’ شعبدہ بازوں ‘‘ کو مہمان بن کر آنے ، دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو جھوٹے عہدے بانٹنے اورتحائف اکھٹے کرنے جیسے مظالم سے ضرور روکیں ۔ میری ان باتوں کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کے پاس مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کی صدارت کا نوٹیفکیشن ہے ، دوسری طرف اسی عہدے کا دعویٰ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے غلام حسین شاہد کرتے ہیں ، یہ دونوں صدور یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو اُن ممالک کی یوتھ ونگ کی صدارت کا نوٹیفکیشن جاری کر رہے ہیں ، جس سے وہاں پاکستانیوں کے دو دھڑے قائم ہو جاتے ہیں ، اب جب تک مسلم لیگ ن کے قائدین کیپٹن صفدر اور غلام حسین شاہد کی اس مقابلہ بازی کا سد باب نہیں کریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ تارکین وطن کو جاری کئے جانے والے نوٹیفکیشن لڑائی ، جھگڑے اور پیسوں کے ضیاع کا باعث نہ بنیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)