ہم عوام کیلئے واپس آرہے ہیں ، عوام کی خاطر ہمیں سزائیں قبول ہیں ، جیل ہو یا کوئی اور سزا ہم عوام کی خاطر’’ سہہ ‘‘ لیں گے ، عوام کے حقوق سے بڑھ کر ہمارا کوئی دوسرا منشور نہیں ،ہمارا سرمایہ ہمارے عوام ہیں ،عوام کا سمندر غلط فیصلے بہا لے جائیگا ،عوام اب باشعور ہو چکے ہیں ، پاکستانی عوام اچھے برے کی پہچان کر چکے ہیں ،اب کوئی سیاستدان عوام کو’’ لالی پاپ‘‘ نہیں دے سکتا،عوام جانتے ہیں کس نے ملک کو ترقی کے راستوں پر گامزن کیا ،عوام سابقہ حکومتوں کے ترقیاتی کام کو دیکھ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے ، چلو چلو لاہور ایئر پورٹ چلو ، لاہور ایئر پورٹ پر عوام اکھٹے ہو کر 25جولائی سے پہلے انتخابات کا فیصلہ سنا دیں گے ، ایک عدالت عوام کی بھی لگے گی اور وہ ہی اصل عدالت ہے ، لاہور ایئر پورٹ پر عوام اکھٹے نہ ہوئے تو سابق وزیر اعظم پاکستان کا بیانیہ ختم ہو جائے گا ، لاہور سے اڈیالہ جیل کا سفر کتنے گھنٹوں میں طے ہو گا ،پاکستانی عوام میاں نواز شریف اور مریم نواز کو جیل جانے سے روک پائیں گے یا نہیں ؟یہ وہ نعرے اور بیانات ہیں جو آج کل سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں ۔ان نعروں اور بیانات میں لفظ ’’ عوام ‘‘ ثواب سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے ۔میرا خیال ہے یہ اسی عوام کی بات ہو رہی ہے جو کہیں پینے کے صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہےہیں ، بچوں کی تعلیم ، طبی سہولتوں ، امن عامہ کی مخدوش صورت حال ، دہشت گردوں کے ٹارگٹ پر کھڑے عوام ، سال ہا سال سے مقدمات کے فیصلوں کےمنتظر عوام ، یہ وہی عوام تو نہیں جن کو قرضوں کے اژدھے نے جکڑا ہوا ہے ، جس عوام کا پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض پیدا ہوتا ہے ،ٹریفک کے رش میں پھنسے یہ عوام ، مہنگائی کے ڈسے یہ عوام ، وعدوں کے جال اور اُمید کے شکنجے میں پھنس جانیوالےعوام ، سیاسی جماعت کا جھنڈا لگانے اور دیوار پر اپنے محبوب سیاستدان کا نام لکھنے لکھانے کے تنازع پر قتل و غارت کی نوبت تک پہنچنے والے یہ عوام ، روٹی کپڑا اور مکان کے جھانسے میں اور کبھی ملکی ترقی کے جھوٹے خواب دکھا نے والوںکو ووٹ دے کر پچھتانے والےعوام ، کئی دہائیاں سیاسی جماعتوں کے ساتھ چل کر انتخابی ٹکٹ سے محروم کر دئیے جانے والےعوام ، تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو مسیحا سمجھنا اور اسے شریف خاندان کو سزائیں دلانے کا موجب تصور کرتے ہوئے درازی عمر کی دعائیں دینے والے عوام ،آصف زرداری سب کچھ خود ہی کھا جاتا ہے لیکن میاں برادران کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں جیسے خود ساختہ ضرب المثال کے سحر میں مبتلا رہ کر زندہ رہنے والے عوام ، اب ایسی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والے عوام سے کوئی یہ اُمید رکھے کہ وہ اُن لوگوں کو جیل نہیں جانے دیںگےجنہوں نے اُن کاایسا حال کیا ہے ، اُن کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے محل کھڑے کئے ہیں ، اُن کے بچوں کو قرضوں میں ڈبو کر ورلڈ بینک کے آگے گروی رکھ دیا ہے تو یہ ایک خواب ہے کہ جس کی تعبیر ممکن نہیں ۔یہ اُمید تب رکھی جا سکتی تھی جب عوام کو اُس وقت یاد کیاجاتا جب اقتدار ہاتھ میں تھا، تو سوچا جا سکتا تھا کہ شاید عوام سڑکوں پر نکلیںاور اپنے سیاسی قائدین کے سامنے اتنی اُونچی دیوار کھڑی کر دیں جسے پھلانگ کر کوئی بھی اُن قائدین کو جیل میں نہ ڈال سکے ۔غربت، لاچاری اور مہنگائی کی دلدل میں پھنسےیہ عوام اپنے مسائل حل کریںیا کسی کے سامنے دیوار بنیں ؟عوام کو مسائل میں اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکےہیں ، روٹی کپڑا اور مکان جیسے نعروں کے ’’ گورکھ دھندے ‘‘ میں لپٹے عوام سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے نہیں بچا پائےاور موجودہ سیاسی قائدین ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ عوامی لیڈر نہیں ہیں ۔حکومت ہاتھ میں آتے ہی اگر عوام الناس کواپنا سمجھا جائے اُن کے حقوق کو پامال نہ کیا جائے، عوام کی سہولت کیلئے اصلاحات ترتیب دی جائیں ، اُن کے مسائل کو حل کیا جائے یا حل کرنے کی کوشش ہی کی جائے تو وہ بھی ترکی کے عوام کی طرح اپنے جمہوری صدرکے اقتدار کو بچانے یا اُسے جیل جانے سے روکنے کیلئے سڑکوں پر نکل سکتے ہیں ۔چاہئے تو یہ کہ حکمران عوام کے حالات بہتر بنانے کی سعی کریں لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے وطن عزیز میں سہولتیں دینے کی بجائے عوام کے ذہنوں میں نفرت اور عدم برداشت کی زہریلی سیاست کا ایسا بیج بویا ہے جس کی فصل تیار ہے اور کافی جگہوں پر ان سیاسی پارٹیوں کے کارکنان اُسے کاٹ بھی رہے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ ساتھ برطانیہ ، امریکا ، کینیڈا ، ساؤتھ ایشین ممالک اور یورپی ممالک میں مقیم سیاسی کارکنان آپس میں دست و گریباں ہو کر فصل پکنے کا ثبوت دے رہے ہیں ۔تحریک انصاف کے کارکن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے لندن والے گھر کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں یہ کہہ کر کہ اس گھر کا قبضہ ہمیں دیا جائے یہ ہمارے خون پسینے کی کمائی سے بنایا گیا ہے ، لندن کی پولیس اور وہاں کے مقامی لوگ یہ تماشا دیکھ رہے ہیں ،لندن والے گھر سے مظاہرہ کرنے والوں پر انڈے پھینکے جا رہے ہیں ،مظاہرین سے موبائل چھین کر انہیں زبردستی بھگایا جا رہا ہے اور اس پاداش میں مسلم لیگ ن برطانیہ کے نائب صدر ناصر بٹ کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔تحریک انصاف کے مظاہرے کے جواب میں لیگی کارکنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمائما کے گھر کے سامنے مظاہرہ کریں گے ، بس یہی وہ ثبوت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدم برداشت اور نفرت کی سیاسی فصل پک چکی ہے ۔پاکستانی سیاستدان اقتدار بچانے یا حاصل کرنے کیلئے عوام کو کھلونا بنا کر کھیل رہے ہیں ، اس سیاسی چال کو سمجھنا اشد ضروری ہے ورنہ یہ سیاسی کھیل پاکستان کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو بھی مات دے دے گا ، اس کھیل کی چالوں کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے فوری طور پر روک کر’’فاؤل‘‘ کھیلنے والے سیاسی کھلاڑیوں کو ووٹ نہ دینے کا ’’ سرخ کارڈ ‘‘ دکھا کر انتخابی میدان سے باہر نکال دیا جائے اور ایسے سرخ کارڈز تب تک دکھائے جاتے رہیں جب تک سیاستدانوں کی ٹیم صحیح کھیل کھیلنا شروع نہ کردے۔اگر سیاستدانوں کی ٹیم فاؤل کھیلنے سے باز نہ آئے تو کوشش کریں کہ ساری ٹیم کو سرخ کارڈ دکھا کر انتخابی میدان خالی کرا لیں اور پھر باقی رہ جانے والی عوامی ٹیم اکیلی میدان میں کھیلے ، اپنی مرضی سے جس جانب چاہے ’’ گول ‘‘ کرے اور جتنی دیر چاہے میدان میں رہے اور باہر بیٹھے سیاسی کھلاڑی پچھتاتے رہیں کہ اگر ہم نے عوامی ٹیم کے ساتھ فاؤل نہ کھیلے ہوتے تو آج ہم بھی عوامی ٹیم کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ۔ویسے سیاسی اور عوامی کلبوں کے مابین ہونیوالے میچ جمعہ کے مبارک دِن ہی منعقد ہورہے ہیں۔