• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیٹے کی منگنی کرنے کے لئے ایک کار اور دو ویگنوں کا قافلہ گھر کے سربراہ کی قیادت میں دوسرے شہر روانہ ہوا،منزل مقصود پر پہنچے تو متعلقہ گھر والی گلی کے ’’نکڑ‘‘ پر اُس قافلے کا استقبال کرنے کے لئے کچھ لوگ ہاتھوں میں پھولوں کے ہارلئے موجود تھے ۔پہنچنے والے مہمانوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں انہیں والہانہ انداز سے خوش آمدید کہا گیا، استقبال کرنے والی خواتین نے مہمان خواتین کو بڑی عزت و احترام سے کرسیوں پر بٹھایا، آنے والے مہمان بیٹھ چکے تو انہوں نے ارد گرد کا جائزہ لیا، لڑکی والوں کی جانب سے مہمان نوازی کا بہترین نمونہ پیش کرنے پر سب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس عمل کو سراہا۔ کولڈ ڈرنکس اور بریانی سے مہمانوں کی تواضع کی گئی، کھانے کے بعد سگریٹ پینے کا دور شروع ہوا مہمانوں کو سگریٹ پیش کئے گئے۔ آنے والوں کی نظریں اب لڑکی، والدین اور اُس کے دوسرے رشتہ داروں کی تلاش میں سرکرداں تھیں، کیونکہ ابھی تک لڑکی کا کوئی رشتہ دار مہمانوں کو نظر نہیں آ یا تھا، مہمانوں نے غور سے دیکھا تو وہ جس جگہ بیٹھے تھے وہ کوئی انتخابی دفتر تھا۔ دفتر کے ایک کونے میں ایم پی اے کے اُمیدوار سے ایک شخص دفتر میں رونق لگانے کی فیس وصول کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ مخالف پارٹی کو دکھانے کے لئے میں نے لڑکے والوں کو یہیں بٹھا لیا ہے اور ابھی تک لڑکی والوں کو اطلاع نہیں دی کہ اُن کے مہمان ہمارے ہاں تشریف فرما ہیں، ایم پی اے کے امیدوار نے کچھ پیسے مزید دیتے ہوئے اُس شخص سے کہا کہ ایسا کرو تم لڑکی اور اُس کے گھر والوں کو بھی یہیں لے آؤ تاکہ منگنی کی رسم ادا ہو اور ہمارے دفتر میں زیادہ گہما گہمی نظر آئے، وہ شخص اُٹھا اور لڑکی والوں کو بلانے چلا گیا، لڑکی والے جو مہمانوں کی آمد میں تاخیر سے پریشان تھے اُن کو طرح طرح کے خیالات نے گھیرا ہوا تھا کہ کہیں کوئی حادثہ تو پیش نہیں آگیا، آنے والے شخص نے جب یہ نوید سنائی کہ تمام مہمان ہمارے انتخابی دفتر میں موجود ہیں تو گھر والے دفتر کی طرف چل پڑے، انتخابی دفتر میں منگنی کی رسم ادا کی گئی اور تحائف کی تقسیم کے بعد یہ مجمع ختم ہوگیا۔ دوسرے سیاسی اُمیدوار نے اپنے کارکنوں کو حلقے میں بھیجا اور کہا کہ ہمارے دفتر میں خواتین و حضرات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آنا چاہئے، مدمقابل امیدوار ایم پی اے کے کارکن حلقے میں گئے اور وہاں دو دن پہلے ہونے والی ایک وفات کے بعد مرحوم کی دعائے خیر کے لئے بچھائی گئی ’’پھُوڑی‘‘ اُٹھا کر اپنے دفتر میں لے آئے تاکہ افسوس کرنے والے وہیں آکر دعائے مغفرت پڑھیں، ایک جیالے کارکن نے اپنے اُمیدوار کے دفتر میں لوگوں کی ’’چہل پہل‘‘ دکھانے کے لئے قبرستان میں تدفین کے لئے جانے والی میت کی چارپائی کا رُخ اپنے دفتر کی طرف موڑ لیا، میت کو کندھوں سے اُتار کر دفتر کے سامنے رکھا گیا اور وہاںمرنے والے کا منہ دکھانے کا بہانہ بنا کر جنازہ کافی دیر تک روک لیا گیا ۔ہر دو گھنٹے بعد انہی انتخابی دفاتر میں بریانی کی دیگیں، آنے والوں کے لئے چائے اور کولڈ ڈرنکس کا اہتمام، سگریٹ، حقہ، بڑی ٹی وی اسکرین پر دکھائی جانے والی فلمیں، فٹ بال اور کرکٹ کے میچ، بجلی، پانی اور سوئی گیس کا بل ادا کرنے کے لئے مالی امداد، گھروں میں ووٹروں کی تعداد کے حساب سے گھر کے ذمہ دار کی فیس، اسکول میں داخلے، سڑکوں اور محلے کی گلیوں کی روزانہ صفائی ،بوڑھے افراد کی مدد اور اُن کی ’’دوائی دارُو‘‘ کا انتظام بھی سیاسی اُمیدواروں کے فرائض میں شامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ جو ووٹر گھر میں اے سی نہ ہونے کی وجہ سے گرمی کا شکوہ کرے اُمیدوار اپنی کار کی ٹھنڈی مشین چلا کر کئی کئی گھنٹے اُس ووٹر کو مختلف مقامات کی سیر کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ انتخابی دفاتر کے اندر اے سی اور باہر کھلے میدان میں بڑے بڑے پنکھے لگا دیئے گئے ہیں تاکہ ووٹر وہاں آکر بیٹھے اور رش نظر آئے۔ اِس وقت سیاسی پارٹیوں کے اُمیدوار کسی کی شادی، جنازے، تیمارداری سمیت ایسی کوئی تقریب ’’مس‘‘ نہیں کرتے جہاں کچھ افراد اکھٹے ہوئے ہوں تاکہ وہاں اپنا منشور بیان کرکے ووٹ مانگا جا سکے، شادی والے گھر خوش باش چہرہ، میت والے گھر رونے والا چہرہ، تیمارداری کرتے وقت پریشان چہرہ اور ووٹ مانگتے وقت مسکین چہرہ بنانا اُمیدوار کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کیونکہ اُس نے مختلف اداکاروں کی خدمات حاصل کرکے الیکشن سے پہلے اس کی باقاعدہ ’’ریہرسل‘‘ کی ہے۔ آج کل ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتا، بغل گیر ہوتا اور پاؤں پکڑتا کوئی شخص نظر آئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کوئی امیدوار قومی یا صوبائی اسمبلی ہے۔ پاکستان کے عوام بھی کیا سادہ عوام ہیں؟ جوانتخابات کے اسٹیج پر دکھائے جانے والے 70سال سے جاری سیاسی ایکٹروں کے اس وقتی ڈرامے کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور دھوکہ کھا جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہی نہیں کہ مختلف طریقوں سے ووٹر پر خرچ کرنے والا اُمیدوار کس لالچ کی وجہ سے یہ اخراجات کرتا ہے؟ وہ پانچ سال تک اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ رہتا ہے لیکن کسی کی کوئی مالی مدد نہیں کرتا پھر انتخابات کا اعلان ہوتے ہی وہ میدان میں نکل آتا ہے اور ووٹرز کو اُن کا خیرخواہ، مددگار اور خود کو صادق و امین ثابت کرنے کوشش میں لگ جاتاہے۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ اُمیدوار اپنے حلقے کے رہائشیوں کی مدد نہیں کر رہا بلکہ اُن پر بے تحاشا خرچ کرکے وہ اپنی نظریں قومی خزانے، ٹینڈرز اور ملنے والے ترقیاتی فنڈز پر مرکوز کر لیتا ہے جو حلقے کی ترقی اور ووٹر کے بہتر مستقبل کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو چاہئے کہ وہ ایسے سیاسی اداکاروں کو ووٹ نہ دیں جو حلقے کے ترقیاتی کاموں کی بجائے کرپشن کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات میں کئے گئے اپنے اخراجات کے بدلے میں حکومتی خزانوں کو خالی کرکے اپنے بینک اکاؤنٹ بھر سکیں۔ ووٹر کو ذات برادری، تعلقات، تھانہ کلچر، چوہدراہٹ، طاقتور، دولت مند اور اپنی پسند کو پس پشت رکھتے ہوئے اُن لوگوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہے جو حق سچ کی بات کرتے ہوں، جھوٹ اور کرپشن سے پاک ہوں، کسی قسم کے جرم میں ملوث نہ ہوں، پڑھے لکھے ہوں اور عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس بار اُن لوگوں کو منتخب کریں گے جو پاکستان کو ترقی کے راستوں پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہمیں رشتہ داری اور ذاتی تعلقات کے برعکس اُن نمائندوں کو چننا ہوگا جو اپنی جیب بھرنے کی بجائے فنڈز کو عوام پر خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سیاسی نمائندے آسمان سے نہیں اُتریں گے بلکہ وہ ہمیں خود منتخب کرنے ہیں اگر ہم نے اس بار ایسا نہ کیا تو پھر ہمیں حالات کی ستم ظریفی کا شکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ اس بار ہمیں ذہنی شعور، سوچ اور اپنے انتخاب کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم زندہ و پائندہ اور اچھے بُرے کی خوب پہچان رکھنے والی قوم ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین