نوین علی
برصغیر کا بڑانام اور معروف گلوکار تاج ملتانی جو تحریک آزادی میں پاکستان کے حصے میں آئے تو اس روشن زمین پر ایک چمکتا ستارا بن کر چمکنے لگے۔ تاج ملتانی پنجاب کے شہر ملتان میں 1944ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد گلوکاری کا شوق اور جنوں لبوں تک آپہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے تاج ملتانی اک شخصیت کے نام میں تبدیل ہو گیا۔ تاج ملتانی نے گلوکاری کی دنیا میں قدم رکھا تو رہنے کا ٹھکانہ تبدیل ہو کر کراچی ہوگیا۔ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد اپنے گائیکی کے کیریئر کا آغاز ریڈیو سےکیا۔ ریڈیو پر لگنے والے ڈراموں میں مختلف آوازوں کے ذریعے ایک خصوصی کیفیت کا اظہار شروع کیا۔ خوشی اور دکھ کے جذبات کا اظہار پلےبیک گلوکاری سے کرنا شروع کیا۔ قدم اور بڑھا تو ریڈیو میں ہی گلوکاری کا کام شروع کردیا۔
تاج ملتانی نے1965 کی جنگ میں پاک فوج کے حوصلوں، عزم، جرات اور قوم کا خون گرمانے کے لئے ایک معروف ملی نغمہ ’’اپنی قوت اپنی جان، جاگ رہا ہے پاکستان‘‘ گایا۔ اس ملی نغمے نے لوگوں میں بہت مقبولیت حاصل کی اور یہ وہ گیت تھا کہ جس نے تاج ملتانی کا نام بنا ڈالا، اس کے بعد انہوں نے شہرت کی بلندیوں پر قدم رکھ دیا۔
لوگوں میں پہچان، نام اور رتبہ پہلے سے بڑھ گیا اور یہ ملی نغمہ آج تک پاکستان کے لئے بہادری کی علامت بن گیا۔
مزید اک قدم بڑھا تو پاکستان میں ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا اور تاج ملتانی نے بڑی اسکرین کا رخ کر لیا۔ انہوں نے ٹیلی ویژ ن پر کراچی کی فلموں میں پلے بیک گائیکی کا کام شروع کر دیا۔ درجنوں گانوں میں پلے بیک گائیکی کا کام سر انجام دیا۔تاج ملتانی نے چند ہی برس کے بعد پلے بیک گلوکاری چھوڑی اور مین گلوکار کے طور پر گیت گنگنانے شروع کئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک نامور گلوکار میں بدل گئے۔تاج ملتانی نے فیض احمد فیض کی معروف غزل ’’ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے‘‘ کو اپنی آواز میں گایا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک فلم میں مشہور گانا ’’جنگ کھیڈ نئی ہوندی جنانیاں دی‘‘ گایا۔ انہوں نے درجنوں گانے اور ملی نغمے گائے اورقدم بڑھاتے بڑھاتے پاکستان میں اپنا اک مقام اور اپنی بہترین آواز اور انفرادیت کے وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔
گائیکی سے ایسی دیوانگی تھی کہ انہوں نے جیون ساتھی کی تلاش کی تو ان کی قسمت اور جیون کی ساتھی اک گائیکہ ہی تھی۔ تاج ملتانی کی اہلیہ نگہت سیما کا تعلق بھی گائیکی سےہی ہے اور شعبہ گلوکاری میں شہرت حاصل کر چکی ہیں اور مزید کررہی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے شوہر کے قدم سے قدم ملا کر گائیکی کی دنیا میں کام کیا اور زندگی میں ہی نہیں بلکہ کاروبار اور ان کے شوق میں بھی ہر قدم ساتھ رہیں۔ یہ گلوکاری سے شوق ،لگن اور محبت ہی تھی کہ رب نے تاج ملتانی کو ایک بیٹی دی تو وہ بھی سریلی اور خوب صورت آواز کا ایک خزانہ لئے ہوئے اس دنیا میں آئی۔ تاج ملتانی کی بیٹی ثناء علی خوبصورت آواز کا ہنر رکھتی ہیں لیکن فرق صرف اتنا کہ انہوں نے گانے نہیں بلکہ نعتیہ کلام پیش کیے۔ ایک نہیں دو نہیں بلکہ اب تک درجنوں نعتیہ کلام وہ اپنی خوبصورت آواز سے بیان کرتے ہوئے اپنی ماں اور اپنے باپ کا نام روشن کر رہی ہیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے تاج ملتانی کا گلوکاری سے عشق ان کے خون میں رچ بس گیا اور پیدا ہونے والی نسل کو وراثت میں یہ ہنر منتقل ہوا۔
تاج ملتانی کی خدمات پر برصغیر پاک و ہند اور خصوصی طور پر پاکستان انہیں اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہے۔ تاج ملتانی نے اپنی زندگی کے40سال گائیکی میں گزارے لیکن جب بڑھاپے نے دستک دی، ہاتھ پائوں کانپنے لگے تو آواز کا جادو اس طرح نہ چلا جو جوانی میں اپنا آپ دکھا گیا تھا اور تاج ملتانی بڑھاپے کی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے لیکن سفر ابھی یہیں مکمل نہ ہواتھا اور گائیکی کی یادیں ،شوق اور آواز کے جادو کو سراہنے والوں کا جذبہ تھما نہ تھا۔ حکومت پاکستان نے تاج ملتانی کو صدارتی ایوارڈ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ جو ایک سال فیصلے کی صورت میں رہا اور بالآخر2018 کو تاج ملتانی یہ اعزاز اپنے نام کرگئے اور حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ نے تاج ملتانی کی خدمات کو تاریخ کا سنہری حصہ بنا دیا۔
تاج ملتانی و فیملی کی رہائش کراچی میں ہے۔ وفات سے دو سال قبل تاج ملتانی علیل رہنے لگے اور علالت نے انہیں اندر سے کمزور کرنا شروع کردیا۔ تاج ملتانی کو ہڈیوں کے کینسر کی خطرنا ک جان لیوا بیماری نے آگھیرا۔ یہ کینسر تاج ملتانی کی جان لے گیا۔ تاج ملتانی23 جون 2018کو اپنی بیماری کو برداشت نہ کرسکے اور اس دنیا فانی سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔ تاج ملتانی تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنی آواز اور ملی نغموں کی ایک خوبصورت یاد اور تحفہ اپنی قوم کو انعام میں دے گئے یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کو ان کی قوم کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ تاج ملتانی کو کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ان کی صاحبزادی ثنا علی کے مطابق تاج ملتانی اپنے سوئم پر نیاز کی وصیت کر کے گئے۔ یوں تاج ملتانی کی خوبصورت آواز کے جادو سے بھری زندگی کا سفر ختم ہوگیا۔