• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب پارے: شوکت تھانوی

ایک بار کسی تھانے میں مشارے کا اہتمام کیا گیا۔ کسی وجہ سے صدر مشاعرہ تشریف نہ لاسکے تو منتظم مشاعرہ نے شوکت تھانوی سے کرسی صدارت پر تشریف لانے کی درخواست کی۔ شوکت تھانوی نے مائک پر آکر کہا: ’’مجھے معلوم تھا کہ تھانے میں آپ کسی تھانوی ہی کو صدر بنائیں گے۔‘‘

یہ سننا تھا کہ ساری محفل زعفران زار بن گئی۔

..............

ایک مرتبہ ایک مشاعرے کی نظامت شوکت تھانوی کے ذمے تھی۔ جگر مراد آبادی صدر شاعر تھے۔ ایک صاحب، جو شاعر نہ تھے، جگر کے بالکل ہی نزدیک ، چہرہ بہ چہرہ بالمقابل اس طرح بیٹھ گئے کہ حاضرین محفل کو اور خود جگر صاحب کو ان کا اس طرح بیٹھنا ناگوار گزر رہا تھا۔شوکت تھانوی نے اُن صاحب سے گزارش کی وہ اسٹیج پر عین جگر صاحب کے بالمقابل چہرہ بہ چہرہ ہوکر نہ بیٹھیں۔

ان صاحب نے ترش رو ہوکر جواب دیا:

’’نہیں! میں تو یہیں بیٹھوں گا۔ مجھے کوئی نہیں اٹھا سکتا۔‘‘

شوکت تھانوی نے کہا:

’’جی بسم اللہ! آپ یہیں تشریف رکھیے۔ میں نے تو صرف اس لیے منع کیا تھا کہ آپ کو دیکھ کر ’’ہز ماسٹرز وائس‘‘ کا ٹریڈ مارک یاد آجاتا ہے، جس میں گراموفون کے بھونپو کے عین سامنے کوئی بیٹھا ہوا ہے۔‘‘

شوکت صاحب کا یہ فقرہ سنتے ہی حاضرین کے قہقہوں سے پورا ہال گونجنے لگا اور صاحب بے حد شرمندہ اور سراسیمہ ہوکر ہال سے باہر چلے گئے۔

..............

ایک دفعہ شوکت تھانوی سخت بیمار پڑے، یہاں تک کہ اُن کے سر کے بال جھڑ گئے۔ دوست احباب اُن کی عیادت کو پہنچے اور بات چیت کے دوران، اُن کے گنجے سر کو بھی دیکھتے رہے، سب کو متعجب دیکھ کر شوکت تھانوی بولے:

’’ملک الموت آئے تھے، صورت دیکھ کر ترس آگیا، بس صرف سر پر ایک چپت رسید کرکے چلے گئے۔‘‘

..............

پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ ’’سنگھا‘‘ تھا۔ جب اُن کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں، اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا: ’’آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجیے۔‘‘

..............

ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: ’’آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں، وہ یہی ذات شریف ہیں، لیکن یہ چہرے سے جتنے بے و قوف معلوم ہوتے ہیں، اتنے ہیں نہیں۔‘‘

شوکت تھانوی نے فوراً کہا: ’’جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑافرق ہے۔ یہ جتنے بے و قوف ہیں، چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔‘‘

..............

شوکت تھانوی نے جب شعر کہنے شروع کیے تھے، اس وقت نو عمر تھے۔ بڑی کوشش کے بعد وہ اپنی غزل رسالہ ’’ترچھی نظر‘‘ میں چھپوانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس غزل کا ایک شعر یہ بھی تھا:

ہمیشہ غیر کی عزت، تری محفل میں ہوتی

ترے کوچے میں جاکر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں

شوکت تھانوی کے والد کی نظر جب اس شعر پر پڑی تو اُن کی والدہ کو غصے میں یہ شعر سنا کر کہنے لگے: ’’یہ آوارہ گرد آخر اس کوچے میں جاتا ہی کیوں ہے؟‘‘

شوکت تھانوی کی والدہ، اُن کے والد کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے صفائی پیش کرتے ہوئے بولیں: ’’بچہ ہے، غلطی سے چلا گیا ہوگا، میں منع کردوں گی، اب کی بار معاف کردیں۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین