پاکستانیوں نے60کی دہائی میں دوسرے ممالک میں اپنے بہتر مستقبل کے لئے ہجرت کرنا شروع کی جو ابھی تک جاری ہے۔ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، جنوبی ایشیائی اور یورپی ممالک میں اس وقت پاکستانیوں کی کثیر تعداد مقیم ہے جو وہاں مزدوری سے لے کر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنا اور وطن عزیز کا نام روشن کر رہی ہے۔ تارکین وطن پاکستانیوں کو پاکستان کی معیشت میں بڑھاوے کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، دوسرے ممالک سے یہ ’’کماؤ پوت‘‘ اربوں روپے سالانہ زرِمبادلہ بھیجتے ہیں جس سے بلاشبہ ملکی قومی خزانہ بھی سیراب ہوتا ہے۔ تارکین وطن پاکستانی اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو جہاں تحفے تحائف بھیجتے ہیں وہیں اگر وطن عزیز میں کوئی قدرتی آفت سیلاب یا زلزلہ کی صورت میں آجائے تو اپنے ہم وطنوں کی مدد میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں، پاکستان سے دوسرے ممالک جانے والے سرکاری و غیر سرکاری مہمانوں کی خدمت کرنا، دیار غیر میں انہیں سہولیات مہیا کرنا، اُن کو واپسی پر تحائف سے نوازنا، اخراجات کرنا، مہمانوں کے اعزاز میں ظہرانوں اور عشائیوں کا اہتمام کرنا اور مہمان نوازی کے لئے ایسے بہت سے کام، جن پر کثیر سرمایہ خرچ ہو، کرنا اوورسیز پاکستانی اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی خود تو دوسرے ممالک میں مقیم ہیں لیکن اُن کا دھیان اپنے وطن کی جانب ہی رہتا ہے، دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی قومی انتخابات کے بعد پاکستان میں بننے والی کسی بھی حکومت کے بارے میں یہ اُمید رکھتے ہیں کہ شاید یہ حکومت ہمارے مسائل کا کوئی حل نکالے یا ایسی پالیسی مرتب کرے گی جس سے ہمارے مسائل کا تدارک ہوگا، لیکن آج تک کوئی پاکستانی حکومت تارکین وطن پاکستانیوں کی اِن اُمیدوں کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، کسی نے کوشش نہیں کی یا کبھی اِس طرف کسی حکومت کا دھیان نہیں گیا یہ سوال تارکین وطن پاکستانیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں ہونے والے 2018کے قومی انتخابات میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی جیت نے تارکین وطن پاکستانیوں کو اُن کے مسائل حل ہونے کی ایک نئی اُمید دے دی ہے کیونکہ پاکستان کے ممکنہ وزیراعظم عمران خان کا ’’فوکس‘‘ اوورسیز پاکستانی ہیں، وہ اپنے خطابات میں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں ہم اُن کو پاکستان میں سازگار ماحول اور جان و مال کا تحفظ دیں گے تاکہ وہ پاکستان میں بلاخوف وخطر سرمایہ کاری کریں، جس سے ملک ترقی کی منازل جلد طے کرے۔ عمران خان اور اُن کی پارٹی کا وژن یقیناً اوورسیز پاکستانیوں کی اُمیدوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں نے عمران خان کے اس اعلان کا بھی خیر مقدم کیا ہے کہ ہم چاروں صوبوں کے میل ہا میل رقبے پر محیط گورنر ہاؤسز کو تعلیمی ادارے بنائیں گے۔ عمران خان کا بطور وزیراعظم شاہانہ زندگی کو ختم کر کے سادہ طرز زندگی گزارنے، وزیراعظم سیکرٹریٹ ایک عام ہوسٹل میں قائم کرنے اور عوام کے ٹیکس کی حفاظت کرنے کے وعدے نے دُنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کو ایک ایسی نوید سنائی ہے جس کے تحت وہ پاکستان کو کرپشن سے پاک اور طاقتور ملک بنتا دیکھ رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں نے ممکنہ وزیراعظم اور اُن کی کابینہ کا دھیان گورنر ہاؤسز کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں میں بیورو کریٹس کے لئے بنائی جانے والی رہائشوں کو چھوٹا کرنے اور اُن پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنے کی طرف دلایا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں نے تحریک انصاف کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیورو کریٹس کی رہائش گاہوں کی مد میں ہزاروں ایکڑ اراضی کو پاکستان کے کسی ترقیاتی شعبے کی نذر کیا جائے تاکہ یہ الاٹ کی جانے والی فضول اراضی پاکستانی عوام کے کام آسکے۔ بیورو کریسی کو دی جانے والی اس اراضی میں سرفہرست کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ ہے جو 104کنال پر مشتمل ہے یہ پاکستان میں کسی بھی سرکاری ملازم کی سب سے بڑی رہائش گاہ ہے، دوسرے نمبر پر ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی ہے جس کا رقبہ 98کنال ہے، ڈی سی او میانوالی 95 کنال، ڈی سی او فیصل آباد 92کنال، پنجاب پولیس کے سات ڈی آئی جیز اور32ایس ایس پیز کی رہائش گاہیں 860کنال پر مشتمل ہیں، پولیس کے اِن سرکاری محلات کی حفاظت، مرمت اور تزئین و آرائش پر ہر سال 80کروڑ سے زیادہ خرچ ہوتے ہیں۔ یہ رقم تین بڑے اسپتالوں کے بجٹ کے برابر بنتی ہے، ان رہائش گاہوں کی نگہداشت کے لئے 30ہزار ملازمین ہیں جبکہ ان کے باغیچوں پر سالانہ 18سے 20کروڑ روپوں کا خرچہ ہوتا ہے، ایک سرکاری اندازے کے مطابق یہ تمام رہائش گاہیں شہروں کے ان مرکزی علاقوں میں ہیں جہاں زمین کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں ان تمام رہائشوں کو اگر فروخت کردیا جائے تو 80ارب روپے حاصل کئے جا سکتے ہیں، یہ رقم واپڈا کے مجموعی خسارے سے دوگنا ہے یعنی اگر یہ رقم واپڈا کو دی جائے تو آئندہ چار سال تک بجلی کی قیمت بڑھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ رقم ہائی وے کو دی جائے تو موٹر وے جیسی کئی سڑکیں بنائی جا سکتی ہیں، اگر یہی رقم محکمہ صحت کو دی جائے تو یہ محکمہ ’’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ جیسے 70اسپتال بنا سکتا ہے، اس رقم سے سمندر کا پانی صاف کرنے کے 12پلانٹ لگ سکتے ہیں، برطانیہ کی مثال لے لیں جہاں وزیراعظم سے لے کر چیف کمشنر اور ڈپٹی سیکرٹری تک تمام افسر اور عہدیدار زیادہ سے زیادہ تین کمروں کے فلیٹس میں رہتے ہیں، امریکا کا وائٹ ہاؤس پنجاب کے گورنر ہاؤس سے چھوٹا ہے، جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں وزیراعظم ہاؤس سرے سے موجود ہی نہیں، آپ پورا یورپ پھریں آپ کو وہاں کے سرکاری ملازمین اور اعلیٰ افسران عام گھروں اور عام شہریوں کی طرح رہتے ہوئے ملیں گے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دوسرے ممالک میں وزراء اور سرکاری افسران عوام کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں، وہ عام لوگوں کی
طرح رہتے ہیں، پروٹوکول اور شاہانہ طرز زندگی اُن کو پسند نہیں شاید وہ اسی لئے ترقی کرتے جارہے ہیں جبکہ ہمارے وزرا اور سرکاری افسران مصنوعی طرز زندگی کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں، تارکین وطن پاکستانی نئے وزیراعظم اور اُن کی کابینہ سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کے مسائل کو حل کرنے کی پالیسیاں مرتب ہی نہیں کریں گے بلکہ اُن پر عمل پیرا بھی ہوں گے۔ پاکستان میں نئی بننے والی حکومت اگر عوام سے کئے گئے سارے نہیں بلکہ کچھ وعدے ہی پورے کر گئی تو وطن عزیز میں ہونے والے آئندہ کئی قومی انتخابات کی فاتح ہی ہوگی، تحریک انصاف کو عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنا ہوں گے ورنہ 2023کے قومی انتخابات کے نتائج موجودہ انتخابی نتائج کے برعکس ہوں گے۔ کیونکہ سوشل میڈیا نے عوام الناس کو بہت ’’سیانا‘‘ اور ’’چالاک‘‘ کردیا ہے، اب پاکستانی عوام جھوٹے وعدوں، دلاسوں اور تسلیوں کی سیاست کو دریا بُرد کر چکے ہیں، وقت بدل گیا ہے اور نوجوان نسل پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے ہر اول دستہ بن کر میدان میں اُتر چکی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)