پاکستان میں تقریبا دو کروڑ تیس لاکھ بچے ایسے ہیں جو اسکول جانے سے محروم ہیں ان میں کچھ بچے ایسے ہیں جن کے والدین اسکول کا خرچہ برداشت نہ کرپانے کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتےجبکہ کچھ بچے ایسےہیں جو اپنا گھر چلانے کے لیے مختلف کام کرتے ہیں اور اسکول نہیں جا پاتے۔ ایسے بچوں کو مفت اور بہتر تعلیم دینے کے لیےفیصل آباد میں دو اسکول کھولے گئے ہیں۔
دسمبر 2016 میں ایک 23 سالہ سماجی کارکن اور تعلیم پسند نوجوان ’روحیل ورنڈ‘ نے فیصل آباد میں غریب بچوں کے لیےوہیں کی کچی آبادی میں دو ’سلم اسکول‘ کھولےہیں، جو اسلام آباد سے تقریبا 323 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اس اسکول میں زیر تعلیم بچوں کو صرف رات میں کلاسسز دی جاتی ہیں۔
فیصل آبادکے سلم اسکول میں عام اسکولوں کی طرح صبح میں کلاسسز نہیں لی جاتیں بلکہ یہاں پڑھنے والے بچوں کو صرف رات کے وقت تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک اور خاص بات اس اسکول کی یہ ہے کہ یہاں بجلی کے بجائے شمسی توانائی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
بانی اسکول روحیل ورنڈ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جہاں ان کا اسکول واقع ہے وہاں بجلی کا نام و نشان تک نہیں ہے اسی لیے انہوں نےشمسی توانائی کو بہتر متبادل سمجھتے ہوئے اس کی مدد سے اسکول کو چلانے کا فیصلہ کیا۔
روحیل نے بتایا کہ ان کے دونوں سلم اسکولوں میں شمسی توانائی کے ذریعے روشنی کی جاتی ہے، پنکھےچلائے جاتے ہیں اور یہاں تک کہ آئی ٹی وغیرہ کے کاموں کے لیے بھی اسی کا استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے شمسی توانائی کا فائدہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کو استعمال کرنا اور اس کے ذریعے انسٹالیشن کرنا نہایت آسان ہے اور سب سے بڑی بات اس میں کسی قسم کا کوئی خرچہ نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اسکول کے لیےکسی قسم کی نقد عطیات قبول نہیں کرتےبلکہ جو لوگ ان کے اسکول کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ انہیں کھانے کی اشیاء، اسٹیشنری ،لیپ ٹاپ اور دیگر ایسی چیزیں ڈونیٹ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جو بچوں کے استعمال میں آجائیں۔ اس کے علاوہ اپنے اسکول کے لیے چندہ دینے والے رضاکاروں کو وہ ایک اور اہم چیز ڈونیٹ کرنے کا بھی کہتے ہیں اور وہ ’سولر پاور‘ سے متعلق سازوسامان ہے۔
سلم اسکولوں میں روزانہ شام 7 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کلاسسز ہوتی ہیں اور تمام کلاسسز بانی اسکول روحیل خودہی لیتے ہیں جن میں انگریزی، اردو، ریاضی اور سائنس شامل ہے۔ ہر ہفتے ان اسکولوں میں باقاعدگی سے کلاسسز لی جاتی ہیں جبکہ دونوں اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی کل تعداد سو ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف شہروں سے لوگ یہاں آتے ہیں اور رضاکارانہ طور پرنہ صرف اسکول کا دورہ کرتے ہیں بلکہ وہاں زیر تعلیم بچوں کو کمپیوٹر، ٹائی کنڈو، گرافک ڈیزائنگ اور دیگرمضامین کی کلاسسز بھی دیتےہیں۔ ان لوگوں میں این جی اوز سے وابسطہ کارکن اور روحیل سے قریبی دوست شامل ہیں۔
اسکولوں میں صرف رات کو کلاسسز لینے کی وجہ بتاتے ہوئے روحیل نے کہا کہ ان کے اسکول میں زیر تعلیم بچوں کی بڑی تعداد دن میں مختلف جگہائوں پر کام کرتی ہے اور تب ہی وہ دن میں اسکول نہیں آسکتے۔ بچوں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہوئے انہوں نے رات میں اسکول چلانے کا فیصلہ کیا تاکہ تمام بچوں کو بہتر اور میعاری تعلیم فراہم کی جاسکے اور یہ ہر بچے کا حق بھی ہے۔