پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ہونے والے الیکشن میں انتخابی مہم کا آغاز اور انجام عجیب و غریب نتائج کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے دوران عہد و پیماں ، نعرے ، بڑھکیں ، تڑیاں ، دھمکیاں اور منت سماجت سمیت ایسی ایسی منطق استعمال کرتی ہیں کہ جس سے پتھر دِل بھی پگھل جاتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ووٹ اُس اُمیدوار کو دے دیا جاتا ہے جس سے ووٹرز کوبہت سے شکوے اور شکایات ہوتی ہیں ۔ پھر بلند و بانگ دعوے کرنے والی سیاسی جماعت جب برسر اقتدار آتی ہے تو وہ انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی کسی بھی بات کو یاد نہیں رکھتی یا یہ کہہ لیں کہ وہ ملکی حالات کے ’’ جنجال پورہ ‘‘ میں اس شدت سے جکڑی جاتی ہے کہ اُسے عوام سے کئے گئے وعدے یاد نہیں رہتے ، چلیں ایک بات یہ بھی سوچ لیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران حالات کچھ اور ہوں اور جب اقتدار سنبھالا جائے تو حالات یکسر بدل چکے ہوں ’’ خیر دِل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘‘ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ شاید پاکستان کے سیاستدان جان بوجھ کر اپنی تقاریر میں اس طرح کی ’’ مولا جٹانہ ‘‘ باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایسی جذباتی باتیں کریں ، کیونکہ سامنے کھڑے عوام یہی باتیں سننے تو مجمع میں آتے ہیں ۔سیاستدانوں کی ان جذباتی تقاریر کا عوام پر خاطر خواہ اثر بھی دیکھنے کو ملا ہے ، سیاستدان تقریر کرکے اپنے گھر تشریف لے جاتا ہے لیکن ووٹر اُس تقریر کا انتقام پر مبنی مطلب نکال کر اپنے سیاسی مخالفین پر چڑھائی کر دیتا ہے ۔ووٹر اور ورکر اپنی سیاسی جماعت یا اپنے اُمیدوار کی ’’ سپورٹ ‘‘ کرتے ہوئے کئی بار دیوار لکھنے اور بہت بار گلی میں سیاسی پارٹی کا جھنڈا لگانے پر جھگڑے پر اُتر آتا ہے اور خون خرابے کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا ، دوسری طرف سیاستدان اپنے مد مقابل سیاسی حریف کے ساتھ ہاتھ ملانے کے ساتھ ساتھ آپس میں رشتہ داریاں بھی کر لیتے ہیں ، جب دو سیاسی حریف رشتہ داری کرتے ہیں تو وہ اپنے ووٹرز یا سپورٹرز سے پوچھتے بھی نہیں ہیں ، اسے زیادتی ہی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن ووٹرز اپنے ساتھ یہ زیادتی خود کراتے ہیں ، سیاسی حریف ایک دوسرے کے ہاں وفات پر افسوس کرنے اور شادی جیسی تقریب میں مہمان خصوصی بن کر پہنچتے ہیں تو تب وہ اپنے سپورٹرز کو ساتھ لے جانا تو درکنار اسے پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے ، اس کے باوجود سپورٹرز اپنے قائدین اور اُمیدواران کی خاطر جیلوں کی سزائیں لینے اور کچہریوں کے چکر لگانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔پاکستان میں ہونے والے حالیہ قومی انتخابات میں سیاستدانوں نے عوام الناس کو بے وقوف بنانے کا وہی پرانا طریقہ استعمال کیا اور ایسے سنہرے خواب دکھائے کہ ووٹرز اور سپورٹرز بیچارے اپنے گھر یلو مسائل بھول کر ایک نئی اُمید کے ساتھ پھر سے سیاستدانوں کی باتوں میں آگئے اور اپنے متعلقہ اُمیدوار کو ووٹ کاسٹ کر دیا ۔2013کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے قائدین نے سڑکوں پر گھسیٹنے اور کرپٹ سیاستدانوں کا گریبان پکڑ کر غریب عوام کا ایک ایک پیسہ وصول کرنے کا جو خواب دکھایا تھا وہ آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ۔پاکستان تحریکِ انصاف2018 ء کے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ گو کہ اس جیت کے کئی عوامل ہیں، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد نے تبدیلی اور’’ نئے پاکستان‘‘ کے نعرے ہی سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا’’ نئے پاکستان‘‘ کا تصوّر قانون کی بالادستی، بلا امتیاز احتساب، عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری اور آزاد خارجہ پالیسی جیسے نکات پر مشتمل ہے۔ وہ عوامی اجتماعات اور میڈیا سے گفتگو میں اپنے اس نعرے کی جو تشریح کرتے رہے ہیں، اْس کے مطابق،’’ نئے پاکستان‘‘ میں پولیس ہر طرح کی سیاسی مداخلت سے پاک ہوگی۔ پیسا، میگا پروجیکٹس کی بجائے عوام پر خرچ کیا جائے گا، خاص طور پر حکومتی وسائل، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے۔ نیز نئے پاکستان میں صحت اور تعلیم پر بھرپور فوکس رکھا جائے گا۔ پھر یہ بھی کہ حکومتی امور میں شفّافیت لائی جائے گی۔ بلاشبہ یہ نعرہ نہ صرف یہ کہ انتہائی پْرکشش ہے، بلکہ قوم کے دِل کی آواز بھی ہے۔ تاہم جہاں پی ٹی آئی کے حامی’’ نئے پاکستان‘‘ کے لیے پْرجوش ہیں وہیں اس حوالے سے مختلف آرارکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ توقّعات، امکانات اور خدشات کے سائے تلے ایک ایسی حکومت کا آغاز ہو رہا ہے، جس سے قوم بہت سی اْمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے کہ’’ کیسا ہوگا نیا پاکستان؟ کیا عمران خان اپنے وعدوں، دعوئوں پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کر پائیں گے؟ اور یہ کہ اس جدوجہد میں اْنہیں کِن کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟اب ان سوالات کے جوابات تو وقت ہی بہتر طور پر دے سکتا ہے لیکن پاکستانی عوام کو قوی اُمید ہے کہ عمران خان 18اگست کو وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے اور اُن کی کابینہ کے وزراء اپنے اپنے محکموں کے قلمدان سنبھالنے کے ساتھ ہی ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کریں گے جسے ملکی ترقی ، امیر اور غریب کے لئے یکساں انصاف ، مہنگائی کا خاتمہ ، بچی کھچی دہشت گردی کا قلع قمع اور لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا نام دیا جائے گا ، پاکستانی عوام ممکنہ وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی حکومت سے آئی ایم ایف کے سامنے کشکول نہ پھیلانے ، گورنر ہاؤسز سمیت بڑی بڑی سرکاری عمارتوں کو گرا کر وہاں تعلیمی ادارے اور کھیلوں کے میدان بنائے جانے ، انڈیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کشمیر کی آزادی کی بات کرنے اور کرپٹ لوگوں کے ساتھ ہاتھ نہ ملانے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں ، پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ صرف عمران خان ہی ایسی شخصیت ہے جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں اور وہ پاکستانی معاشرے کو کرپشن جیسی لعنت سے پاک کرنے کا طریقہ بھی خوب جانتے ہیں ۔ معروف مزاح نگار انور مقصود کے اس حوالے سے کہے گئے الفاظ آپ کی نذر ہیں وہ کہتے ہیں کہ عوام کی اپنے وطن عزیز کے بارے میں وہی سوچ ہے جو قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال کی تھی۔گزشتہ 71 برسوں سے یہی سوچا جا رہا ہے کہ شاید کچھ تبدیل ہو جائے، اس بار لوگ تنگ آگئے تھے اِسی لئے اْنھوں نے اپنے ووٹ نئے لوگوں کو دیئے، اس اُمید کے ساتھ کہ شاید کوئی ایمان دار سربراہ آجائے، اچھی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اسٹینڈ لیا ہے کہ پاکستان سے کرپشن ختم ہونی چاہئے اور وہ اکیلا اس بات پر ڈٹا رہا جس کی وجہ سے ایک روشنی نظر آئی ہے، ملکی حالات مشکل ہیں، معیشت، تعلیم، صحت، روزگار، مہنگائی اور اسی طرح کے کئی پیچیدہ اور حل طلب مسائل ہیں، دیکھیں اب عمران خان قوم کو اِن مسائل کے انبار سے کیسے نکالتے ہیں؟ وطن عزیز کو اِن مسائل سے نکالنے کے لئے صرف عمران خان یا اُن کی حکومت کو ہی نہیں بلکہ ہم سب کو مل کر کام کرنا پڑے گاتاکہ پاکستان کی کشتی کو مسائل کے بھنور سے نکالا جا سکے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)