مبارکبادوں کا موسم ہے۔ قارئین کو عیدالاضحی کی دلی مبارکباد، عید سے قبل نئے وزیر اعظم عمران خان کے حلف وفاداری سے آنیوالی تبدیلی بھی مبارک اور 19؍اگست کو بطور وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے پہلے سرکاری خطاب میں دہرائے جانیوالے عوامی وعدوں کی مبارک اور دیرِ غیر میں آباد اوورسیز پاکستانیوں کا اپنے خطاب میں ذکر کرنے پر ان پاکستانیوں کو خصوصی مبارک۔ وزیر اعظم کے اپنے پہلے سرکاری فیصلے یعنی 15رکنی وفاقی کابینہ اور پانچ مشیروں کی تقرری کے اعلان پر بھی ہم مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ میں بطور اوورسیز پاکستانی زندگی کا ایک حصہ نیویارک میں گزارنے والے مقبول صدیقی کو وفاقی وزیر اور واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے ساتھ سالہا سال کی وابستگی رکھنے والے ڈاکٹر عشرت حسین کو وفاقی مشیر کے طور پر ان کی مہارت اور خدمات سے استفادہ کرنے کا اعلان اپنے پہلے سرکاری خطاب میں کیا ہے۔ البتہ عمران خان کی کابینہ میں ان نوجوانوں کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی گئی ہے کہ جنہوں نے انتہائی خلوص اور جوش کے ساتھ عمران خان اور پی ٹی آئی کے منشور کی حمایت کرتے ہوئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچایا۔ کابینہ کے وزیروں کے نام اور قلمدان تو میڈیا میں عمران خان کی مسلسل حمایت کرنے والے اینکر پرسن اور تجزیہ نگاروں کے لئے بھی حیرت اور تنقید کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ حقیقی صورت حال سے واقفیت کے بعض دعویدار حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا یہ نام اور قلمدان عمران خان کا اپنا فیصلہ ہیں یا پھر کسی اور نے وزیر اعظم عمران کا نام اس فیصلے پر چسپاں کردیا ہے۔ وزیر اعظم کی کابینہ کے حوالے سے عالمی صورتحال سے باخبر بعض سنجیدہ حلقوں کا یہ مشاہدہ بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب پاکستان اپنی سیکورٹی کے لئے چین پر انحصار کررہا ہے اور معیشت کی بحالی کے لئے بھی امریکی امداد کی بجائے چین اور دیگر دوست ممالک سے رجوع کررہا ہے۔ اپنی دفاعی ضروریات کے لئے چین اور روس کے زیادہ قریب ہوچکا ہے اور پاک۔ امریکہ تعلقات میں تنائو اور امداد میں کٹوتی ہوچکی ہے لیکن عمران خان کی وفاقی کابینہ میں امریکی لابی کو موثر نمائندگی حاصل ہے۔ پھر عوامی ووٹوں جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے اصولوں پر ناز کرنے والی پی ٹی آئی کی حکومت میں کافی بڑی تعداد ان وزراء کی ہے جو پہلے پرویز مشرف کی کابینہ اور حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں چین اور روس کے ساتھ ہمارے دفاعی معاملات اور ایٹمی پاکستان کی سیکورٹی اور دفاع کے فیصلوں اور رازوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کوئی غیرمعمولی بات نہیں کیونکہ ماضی میں بھی اس شعبے میں بہت کچھ ہو گزرا ہے۔ مگر احتیاط تو لازم ہے۔ بہرحال عمران خان تبدیلی کے داعی ہیں اورانہوں نے کڑے احتساب کے مساوی نفاذ کے لئے وزارت داخلہ اور ایف آئی اے خود اپنے پاس رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ہم اوورسیز پاکستانیوں کو اس بات کی خوشی ہے کہ وزیر اعظم نے قوم سے اپنے پہلے سرکاری خطاب میں اوورسیز پاکستانیوں کا ذکر بھی کیا اور اپیل بھی کی کہ وہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے ہنڈی یا حوالہ کی بجائے بینکوں اور منظور شدہ سرکاری ذرائع سے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھجوائیں تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذرائع میں اضافہ ہوسکے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنی مشکلات دور کرنے اور اقتدار کی طوالت کے لئے اوورسیز پاکستانیوں کا بے دردی سے استعمال کیاگیا اور ضرورت اقتدار پورا کرنے کے بعد فراموش کردیا گیا۔ ان کوپاکستان میں ’’دہری شہریت‘‘ کا نام دے کر ان کے بنیادی حق ووٹ سے محروم رکھا گیا بلکہ ان کی خرید کردہ پراپرٹیز پر پاکستان میں ’’قبضہ گروپ‘‘ اور ’’لینڈ مافیا‘‘ نے زبردستی قبضے کرلئے۔اگر اوورسیز پاکستانیوں اور اسلام آباد میں حکومت کے درمیان بہتر انڈر اسٹینڈنگ اور تحفظ کے معالات طے پا جائیں تو اوورسیز پاکستانی صرف زرمبادلہ ہی نہیں بلکہ کئی اور امور میں بھی بڑے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کے لئے اوورسیز پاکستانیوں میں خیرسگالی کے جذبات موجود ہیں اگر وہ دوطرفہ بنیادوں پر اوورسیز پاکستانیوں کی شناخت و حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے تعاون کی اپیل کریں تو بڑی بہتر صورت نکل سکتی ہے۔ تفصیل پھر سہی ورنہ پاکستان کے وی آئی پی کلچر کی اعلیٰ دنیا میں تو بعض دہری شہریت کے حامل افراد، سرکاری پروٹوکول کے ساتھ سرکاری ریسٹ ہائوسز اور دیگر مراعات کا لطف اٹھانے کے علاوہ متعدد سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہوجاتے ہیں اگر آج بھی تحقیق کرکے ریکارڈ عوام کے سامنے لایا جائے تو کئی درجن دہری شہریت والے آپ کو مختلف حکومتی عہدوں پر خاموشی سے کام کرتے نظر آئیں گے۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اب اوورسیز پاکستانیوں سے کئے گئے وعدے کتنے پورے کرتے ہیں اور اوورسیز پاکستانی عمران خان کی اپیل کا عملی جواب کیا دیتے ہیں؟
توقع تھی کہ وزیر اعظم اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کا تفصیلی ذکر کریں گے لیکن انہوں نے اگر کسی مسئلہ کا مختصر ترین ذکر کیا وہ خارجہ پالیسی ہے کہ ’’تمام ہمسایہ ممالک سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں گے‘‘۔ شاید اتنا مبہم اور مختصر بیان کسی ایڈوائزری کا نتیجہ ہو ورنہ جس قدر مسائل اور خطرات پاکستانی معیشت اور دیگر شعبوں میں ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی صورت حال اتنی سنگین ہے۔ عالمی برادری میں تنہائی اور عدم توجہی، جنوبی ایشیا کی صورت حال بھارت۔امریکہ اتحاد افغان جنگ۔ ایران، امریکہ کشیدگی۔ پاک، امریکہ تنائو اور سعودی، ایران کشیدگی کی موجودگی میں جنوبی ایشیا کا کوئی بھی ملک یا شہری کیسے نارمل محسوس کرسکتا ہے۔ اس صورت حال میں تو ڈپلومیسی کے لئے صرف ایک روایتی وزیر خارجہ کی بجائے ماہرین اور ریٹائرڈ سفارتکاروں پر مشتمل ایک بااختیار اعلیٰ کمیٹی کی ضرورت ہے جو صورتحال پر مسلسل نظر رکھے اور سفارشات تجویز کرے۔ ان سفارشات پر عمل کرنا لازمی ہو۔ شاہ محمود پی پی پی دور میں بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور پی ٹی آئی کے سینئر ترین رہنما بھی ہیں لیکن یہ کہنے کی اجازت دیں کہ شاہ صاحب نے ماضی میں وزیر خارجہ کے طور پر پاک، امریکہ تعلقات میں ڈپلومیسی اور نتائج کے لحاظ سے کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کیری، لوگر ایکٹ کے مضر اور منفی ’’کمالات‘‘ اب ہمارے سامنے ہیں جبکہ اس امریکی قانون کی منظوری اور نفاذ پر پاکستانی قائدین نے خوشی کے شادیانے بجائے تھے۔ چند پرانے بجلی گھروں کی مرمت اور بحالی کے اعلان کو سفارتی کامیابی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اب تو پاک، امریکہ تعلقات کی صورت حال زیادہ خراب ہے اور پھر وزیر اعظم عمران خان کے پاکستان کو ’’ریاست مدینہ‘‘ کی طرح ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کی وکالت کرنا بھی ڈپلومیسی کا حصہ ہے۔ یوں بھی جنوبی ایشیا میں عالمی طاقتوں کے الائنس اور توازن میں تبدیلی نے پاکستان کو درپیش سیکورٹی چیلنج اور ڈپلومیسی کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ یوں بھی ڈپلومیسی اور سیکورٹی کے معاملات میں چولی دامن کا ساتھ ہے لہٰذا زیادہ توجہ کی بھی ضرورت ہے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں فاٹا اور بلوچستان کی صورت حال کو پرامن بنانے کی بات بھی کی ہے۔ ان دونوں پاکستانی علاقوں میں بیرونی طاقتوں کی گہری ’’دلچسپی‘‘ سب پر عیاں ہے۔ اس کے لئے بھی بڑی موثر ڈپلومیسی کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم کا قوم سے خطاب عوام سے کئے گئے وعدوں کی ایک طویل لسٹ پر مشتمل ہے۔ کڑے احتساب سے لیکر ’’نئے پاکستان میں نئی سوچ‘‘ کے فلسفے تک پھیلے ہوئے اس ایجنڈے میں ہیلتھ انشورنس، بھاشا ڈیم، سول سروس ریفارم کرپشن کے خاتمہ اور انصاف کی فراہمی بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم کا محکمہ داخلہ اور ایف آئی اے کو اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کتنا ہی مخلصانہ اور شفاف ہو لیکن پاکستان کا محکمہ داخلہ اور ایف آئی اے سمیت ذیلی ادارے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کئے جانےکا ایک طویل اور تلخ ریکارڈ بھی موجود ہے۔ نیز خان صاحب کو اپنی وزارتی اور مشاورتی ٹیم کے اراکین پر اعتماد کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے وزارت خارجہ کو اپنے پاس رکھا تو اس کے نقصانات آج قوم کے سامنے ہیں اب عمران خان ایف آئی اے اور محکمہ داخلہ کو اپنی تحویل میں رکھنے کا اعلان کرکے خود کو آزمائش میں کیوںڈال رہے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)