امریکہ ، آسٹریلیا ،کینیڈا ، ساؤتھ ایشیائی اور یورپی ممالک کی ترقی وہاں کی طرز تعمیر ، ہائی ویز اور موٹر ویز کی خوبصورتی اور اُن شاہرات پر نافذ کیا گیا قانون اور پھر اُس قانون کی پاسداری جیسے عوامل سے نظر آتی ہے۔پاکستانی قوم یہی حسرت دِل میں لئے بیٹھی ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں بھی قانون اور اُس کی پاسداری کا نفاذ ہو ،پاکستان کی نئی حکومت سے اِس امر کی اُمید لگانا پاکستانی قوم کا فطری عمل ہے کہ پاکستان بھر میں نیشنل ہائی ویز اور موٹر وے جیسا قانون نافذ ہو جائے اور سب اِس قانون کی پاسداری کر یں ۔موٹر وے پولیس کا رویہ احترام انسانیت پر مبنی ہے ، موٹر وے ملازمین کرپشن نہیں کرتے ، ان کے کام کرنے کا طریقہ انتہائی دُرست اور صحیح سمت پر ہے ۔ہر ملازم آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے ،آئی جی موٹر وے کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں وہ ایڈیشنل آئی جی سمیت دوسرے آفیسرز کی تعیناتی خود کرتا ہے ، جب آئی جی موٹر وے تمام اختیارات اپنے طریقے سے استعمال کرے گا تو وہ ہر کام کاذمہ دار بھی ہوگا ،میرے خیال میں موٹر وے پولیس ملازم کو گاڑی، بہترین تنخواہ اور دوسری سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں شایداسی وجہ سے موٹر وے پولیس کو کرپشن کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔موٹر وے پولیس قانون کے تحت کام کرتی ہے جبکہ ہماری دوسری پولیس قانون کی پاسداری کے برعکس مدعی اور ملزم میں صلح کرانے پر زور دیتی ہے ، اگر کسی کو بے گناہ لکھ دے تو اس پولیس کو کئی قسم کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ موٹر وے پر اگر کسی نے ’’ اوورا سپیڈ ‘‘ گاڑی چلائی تو اُسے جرمانہ کیا جاتا ہے اس حوالے سے پاکستان کے بیورو کریٹس ، وزراء اور دوسرے اداروں کے آفیسرز بھی بلا حیل و حجت اور ’’ چُوں چراں ‘‘ کئے بغیرجرمانے ادا کر چکے ہیں ۔تحریک انصاف کے چیئر مین اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے جب خیبر پختون خوا کے آئی جی کے لئے ناصر خان دُرانی کو تعینات کیا تو انہوں نے اپنی تعیناتی سے پہلے عمران خان سے کہا کہ میں اپنی سروس کے دوران کسی قسم کا سیاسی دباؤ قبول نہیں کروں گا ، عمران خان نے وعدہ کیا کہ کوئی ایم پی اے یا ایم این اے پولیس کے کاموں میں مداخلت نہیں کرے گا ، ناصر درانی نے ایک ملاقات میں ہمیں بتایا تھا کہ عمران خان نے اپنا وعدہ پورا کیا اور آج دیکھ لیں کہ پورا پاکستان خیبر پختون خوا پولیس کے سسٹم اور کام کی تعریف کرتا ہے ۔اب وزیر اعظم پاکستان نے پاکستان بھر خاص کر پنجاب پولیس میںاصلاحات کا جو بیڑا اُٹھایا ہے یقیناََ وہ اس میں کامیاب ہوں گے اور پولیس عوام کے ساتھ مل کر جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پا لے گی ۔تین ماہ پہلے میںا سپین سے پاکستان آیا تو مجھے موٹر وے پر قانون کی پاسداری تو نظر آئی لیکن یہ بھی محسوس ہواکہ ابھی کچھ مزید کی گنجائش باقی ہے، واپس بارسلونا چلا گیا، ابھی کچھ دن ہوئے میں دوبارہ لاہور پہنچا اور براستہ موٹر وے لاہور سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا ، یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ان دو ماہ میں موٹر وے پولیس نے کمال مہارت سے اُس کمی کو پورا کر دیا تھا جس کی خواہش میرے دِل میں تھی ۔موٹر وے کے موجودہ آئی جی عامر ذوالفقار خان بلا شبہ انتظامی امور کے ماہر ہیں ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی موٹر وے پولیس کو مزید مضبوط بنایا ہے پولیس ملازمین کے ساتھ ساتھ سفر کرنے والے پسنجرز کے لئے بھی بہت سی سہولتوں کے انبار لگا دیئے ہیں ، اس حوالے سے ہماری ملاقات آئی جی موٹر وے سےنہ ہو سکی لیکن ہمارے ذرائع نے بتایا کہ موٹر وے پولیس ملازمین کی موجودہ تعداد 4ہزار ہے جبکہ یہ تعداد 9ہزار ہونی چاہئے ، یہ تعداد اس لئے نہیں بڑھ سکی کیونکہ کافی عرصے سے موٹر وے پولیس کی بھرتی نہیں ہوئی ۔پاکستان کے ہر صوبے میں پولیس کا ایک آئی جی ہوتا ہے لیکن موٹر وے پولیس کا سارے پاکستان کے لئے ایک ہی آئی جی ہے ۔آئی جی موٹر وے نے اپنے ملازمین کے بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے پنجاب کالجز کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت پولیس کے شہداء کے بچوں کو فری تعلیم ، زخمی ملازمین کے بچے 50فیصد فیس اور حاضر سروس ملازمین کے بچے 25فیصد فیس کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔معلوم ہوا کہ دو ماہ پہلے چارج سنبھالنے والے آئی جی عامر ذوالفقار خان نے اس سال چودہ اگست کا کیک جھونپڑی میں رہنے والے بچوں کے ساتھ کاٹا ، انہیںپتا چلا کہ بلوچستان میںنفری بہت کم ہے لہٰذا موٹر وے پولیس کی بھرتی کے لئے پروگرام تشکیل دے دیا ، ملازمین کے بچوں کی ویلفیئر فنڈ سے اسکالرشپ شروع کر دی گئی ہے، ملازمین کے 93بچوں کو میٹرک میں اچھے نمبرز لینے پر اُن کی حوصلہ افزائی کے لئے تعریفی اسناد اور میڈلز تقسیم کئے ۔1122سروس کے ساتھ معاہدہ کیا اور موٹر وے پولیس کے 18سو ملازمین کو ابتدائی طبی امداد کی ٹریننگ دی ، CPR، ہڈی ٹوٹنے ، ایکسیڈنٹ کے بعد پانی میں گرنے والی گاڑی کو نکالنے کی مشقیں کرائی گئیں ، گردن کی چوٹ والے فرد کو کالرز لگانا سکھایا گیا اس وقت کون سی ٹرن کٹ استعمال کی جائے گی اس کی تیاری کروائی گئی ، موٹر وے پولیس کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بہت جلد یورپ کے ہم پلہ ہونے جارہی ہے جو انتہائی خوش آئند اقدام ہے ، موٹر وے پر کل 42 ٹول پلازہ ہیں جہاں موٹر وے پولیس کیمروں اور کمپیوٹرز کے سسٹم کو انتہائی جدید بنا رہی ہے ۔اسمارٹ فون پر ’’ پاسبان ‘‘ کے نام سے ٹریفک کے حوالے سے تمام معلومات مہیا کی جائیں گی ، ویب ریڈیو سروس کا انتظام کیا جا رہا ہے جو موٹر وے پر رش یا ایکسیڈنٹ کی صورت میں اطلاع دے گا ، وائرلیس سسٹم کو جدید کیا جا رہا ہے یعنی ایسا سسٹم ترتیب دیا جائے گا کہ آئی جی اپنے دفتر میں بیٹھ کر اپنے ملازمین کی کارکردگی دیکھ سکے ،16ایمبولینس ہر وقت موٹر وے پر موجود ہیں ، ابتدائی طبی امداد کی ٹریننگ سے بہت سے زخمیوں کی جان بچائی جا چکی ہے ، جہاں گوجرہ انٹر چینج ، رحیم یار خان اور اوکاڑہ کے قریب پولیس ملازمین پر ہونے والے حملوں میں زخمیوں کی تیمارداری اور حملہ کرنے والوں پر مقدمہ بنایا گیا وہاں آئی جی موٹر وے خود عدالتوں میں اپنے ملازمین کی طرف سے پیش ہوئے ، ایک ملازم کی ویڈیو وائرل ہوئی کہ وہ کسی پسنجر کو طمانچہ مار رہا ہے اُسے فوری معطل کیا گیا ، ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ موجودہ آئی جی موٹر وے کہتے ہیں کہ ہم عوام کے ملازم ہیں جن کے ٹیکس سے ہمیں تنخواہ ملتی ہے ۔موجودہ آئی جی موٹر وے کے ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے میں تو یہی کہوں گا کہ موٹر وے ایک ایسا ادارہ ہے جو نئے پاکستان کی بہترین عکاسی کر سکتا ہے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس ادارے پر مکمل توجہ دے اور ان کے کام ترجیحی بنیادوں پر کئے جائیں ، کیونکہ ہمیں بہت جلدیورپی ممالک کے ہم پلہ ہونا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)