اگرچہ گزشتہ دوہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت اپنے ہی بیانات اور ان سے پیدا ہونے والے مزاح کا نشانہ بن گئی لیکن اس کی حکومت دوجوہات کی بنا پر اپنے مضبوط قدموں پر کھڑی ہے۔ پہلی یہ کہ اس کے سامنے اپوزیشن منقسم ہے ۔ مستقبل قریب میں اپوزیشن کا کسی چیز پر اتفاق نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ فوج وزیر ِاعظم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے ۔ جس طریقے سے جی ایچ کیو نے عمران خان کا استقبال کیا ، وہ درحقیقت ایسا تھا جیسا کہ ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کا کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے ہم نے اپنی حالیہ تاریخ میں ایسا نہیں دیکھا تھا۔
سول ملٹری عدم توازن کو جمہوریت کے پٹری سے اترنے اور آئین کو سبوتاژ کرنے والی فالٹ لائن سمجھنے والوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی خبر ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ دوستانہ تعلقات جاری رہیں گے ، اور یہ حوصلہ افزائی کسی نئے شاگرد کی دستار بندی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے پیچھے جو بھی تاریخ ہو، اُس سے قطع نظر اب منتخب شدہ اور غیر منتخب شدہ اداروں کاایک پیج پر ہونا عمران خان کو ایک نئی شروعات دیتا ، سول ملٹری عدم توازن اور عدم اعتماد کا خاتمہ کرتا ہے۔
جنرل قمر باجوہ کی طرف سے عمران خان کا استقبال ایک نئی مثال ہے ۔ جب کوئی نیا وزیر ِاعظم بریفنگ کے لیے آئندہ جی ایچ کیوآئے گا تو اس استقبال کا حوالہ دیا جائے گا۔ اس سے پہلے ہم نے اس ضمن میں عجیب وغریب کہانیاں سنی تھیں۔ کبھی کہا گیا کہ وردی پوش جنرل بی بی (محترمہ بے نظیر بھٹو) کو سیلوٹ نہیں کرسکتے۔ بعد میں بھی وزرائے اعظم سے ملاقات کے موقع پر آرمی چیفس کی باڈی لینگویج پر تبصرے کیے جاتے ۔ کبھی چھڑی کی موجودگی یا غیر موجودگی کی بات ہوتی۔ کبھی کسی کے قدم آگے نکلنے یا پیچھے رہ جانے کی کہانی سنائی جاتی۔ تو کیا ہم سمجھیں کہ ہم اس احمقانہ تاریخ کو پیچھے چھوڑ کر معمول کی دنیا کی طرف واپس آچکے ہیں؟
عمران خان بہترین استقبال کے حقدار تھے ۔ صرف اس لیے نہیں کہ اُنہیں ادارے پسند کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ملک کے منتخب شدہ وزیر ِاعظم ہیں۔ اس موقع پر فوجی افسران کا طرز ِعمل قابل ِستائش ہے ۔ ملک کا ہر ادارہ آئین اور قانون کے تابع ہے ۔ چنانچہ اس سے میں کسی کی مقبولیت یا پسندیدگی کا سوال نہیں۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ چونکہ عمران خان کو اداروں میں پسند کیا جاتا ہے، اس لیے اُن کے پاس سول ملٹری توازن کا مسئلہ حل کرنے کا اچھا موقع ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ اب ہم اداروں کے درمیان اختیارات کا ٹکرائو یا تصادم کی فضا نہیں دیکھیں گے ۔
دوسری وجہ سیاسی شور شرابے میں کمی آنا ہے ، حالانکہ عمران خان کے سامنے بہت بڑی اپوزیشن ہے ۔ لیکن یہ اپوزیشن منقسم ہے ۔ یہ حکومت کی بجائے باہم متصادم ہے ۔ یہ بات ناقابل ِ یقین دکھائی دیتی ہے کہ انتخابات سے پہلے پی پی پی کا کہیں نام و نشان تک دکھائی نہیں دے رہا تھا، لیکن اب اس نے بہت اچھا کم بیک کیا ہے ۔ یہ انتخابات کے بعد کی سیاست میں اپنی اہمیت دکھارہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت پی پی پی پر تنقید کرنے کے لیے بہت بلند اخلاق پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس پر تنقید نہیں کی جاسکتی ۔ سیاسی کھیل کے لیے میدان سب کے سامنے ایک جیسا ہوتا ہے ۔
ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ پی پی پی نے پی ایم ایل (ن) کی مرکز، پنجاب اور صدارتی انتخابات میں حمایت نہ کرکے پی ٹی آئی کو کندھا فراہم کیا ہے ۔ نیز مسٹر زرداری اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات کی وجہ سے بھی دبائو میں ہیں۔ فرض کریں ایسا ہی ہے ۔ تو کیااس کا مطلب پی پی پی کا بطور ایک سیاسی جماعت احیائے نو نہیں؟ یہ وہ جماعت ہے جس کا نوحہ بہت سے مبصرین لکھ چکے تھے ۔ لیکن اس وقت یہی جماعت تمام سیاسی حرکیات کے مرکز میں ہے ۔
کون سو چ سکتا تھا کہ پی پی پی اپنی طاقتور حریف جماعت پی ایم ایل (ن) کو سینٹ میں مات دیدے گی؟لیکن ایسا ہوا۔ 2018 ء انتخابات میں جاتے وقت پی پی پی بہت دور ، ایک تیسری جماعت تھی۔ پنجاب میں اس کے ٹکٹ لینے والے دکھائی نہیں دیتے تھے۔غالباً الیکشن کی مہم کا سب سے حیران کن پہلوبلاول کی سیاسی بلوغت کا اظہار تھا۔ اس نے شہباز شریف کی واقعی ’’چھٹی ‘‘ کرادی۔ قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر نے عمران خان سمیت ، سب کو واضح فرق سے مات دے دی۔
پی پی پی کے پاس میز پر رکھنے کے لیے کیا ہے ؟ اس کے پاس ایک رہنما ہے جس کے سامنے وقت ہے ۔ وہ جیالوں کو پسند ہے ۔ وہ اپنی عمر اور تجربے سے بڑھ کر پختہ کاری کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ لیکن اُس پر بوجھ بھی ہے۔ یہ بوجھ والد صاحب کی طرف سے ہے ۔ لیکن شواہد بتاتے ہیں وہ جلدہی اپنے لیے نئی منزل تراشیں گے۔ اس وقت عملی سیاست کی بساط پر پی ٹی آئی، پی ایم ایل (ق) اور ایم کیو ایم کا الائنس ہے ۔ اسے دیکھتے ہوئے آصف زرداری اپنے پتے بہت محتاط انداز میں لیکن ہوشیاری کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اپنے کم ووٹ بنک اورسندھ میں ناقص حکمرانی کے الزامات کے باوجود اس کے سامنے کوئی سیاسی چیلنج نہیں ہے ۔
اس وقت پی پی پی کا صدارتی امیدوار پی ٹی آئی کے امیدوار سے بھی بہتر ہے ۔ چنانچہ آصف علی زرداری پر پی ٹی آئی کی مدد کرنے کا الزام کس طرح لگایا جاسکتا ہے ؟اگراعتزاز احسن کا مولانا کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ پی ایم ایل (ن) نے بہتر امیدوار کو میدان میں اتارا ہے ۔ اس وقت تمام شواہد بتاتے ہیں عارف علوی ملک کے نئے صدر منتخب ہونے جارہے ہیں۔ لیکن پی پی پی کو اس بات پر فخر رہے گاکہ اس نے کتنا اچھا امیدوار مقابلے میں اتاراتھا۔ دوسری طرف پی ایم ایل (ن) ہمیشہ شرمندہ رہے گی؟۔
پی ایم ایل (ن)کا ووٹ بنک تو موجود ہے، لیکن اسے قیادت کے سنگین بحران کا سامنا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف ایک بہترین منتظم ہوں لیکن اُن میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے ۔ اُن کی شخصیت میں نہ کشش ہے اور نہ ہی عوام کو مائل کرنے کی صلاحیت۔ ۔۔ اور عوامی رہنمائوں کو اسی خوبی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نواز شریف اور مریم کے جیل میں ہونے کی وجہ سے شہباز شریف سے انتخابی مہم نہ چل سکی۔ چنانچہ پی ایم ایل (ن) کو مستقبل میں مریم نہ کہ ’’نوجوان شریف ‘‘ کی طرف دیکھنا چاہیے ۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اب پی پی پی کی بجائے پی ایم ایل (ن) اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ہے ۔ پی پی پی سندھ میں حکومت کو غنیمت جان چکی ہے ۔ اس دوران اسے امید ہے کہ اگلے پانچ سال کے دوران بلاول کی کشش باقی پاکستان کو بھی فتح کرلے گی۔ آصف زرداری سیاسی سرپرست رہیں گے لیکن عملی سیاست سے دور ہوجائیں گے ۔ اس طرح پی پی پی کو ایک بار پھر حکومت کا موقع مل سکتا ہے ، اور وہ اپنی باری کا انتظار کرسکتی ہے۔ اُسے پی ایم ایل (ن)، جس کے مرکزی رہنما جیل میں ہیں، کی طرح کوئی جلدی نہیں ہے۔ پی ایم ایل (ن) کی قسمت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ عدالت میں مریم اور نواز شریف کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
اگر آپ ایک غیر جانبدار ناقد کے طور پر پاکستانی سیاست میں دلچسپی لیں تو گزشتہ پانچ سال کے واقعات سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟2013 ء میں پی ایم ایل (ن) کی جیت، پھر ایک طویل دھرنا، پھر پاناما اوراس کے مرکزی قائد جیل میں۔ اُدھر ایم کیوایم ، جس کا کبھی سندھ کے شہری علاقوں پر کڑا کنٹرول تھا، آج ’’ڈائون سائز ‘‘ ہوچکی ہے ۔ پی ٹی آئی کے پاس مرکز ی حکومت ہے اور اس کے سامنے اپوزیشن دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے اداروں کے ساتھ تعلقات بھی مثالی ہیں۔ اب پی ٹی آئی نے صرف کارکردگی دکھانی ہے۔ اس کارکردگی پر آصف زرداری کی نظر ہے ۔ وہ چشم ِتصور سے اپنے صاحبزادے کو پانچ سال بعد جی ایچ کیو میں گارڈ آف آنر لیتے دیکھ رہے ہیں۔ تو پی ٹی آئی کا مقابلہ آصف زرداری کے خواب سے ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)