عمران حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی ہماری خارجہ پالیسی میں اتنی ’’جراتمندانہ‘‘ تبدیلی آ چکی ہے۔ اسے خارجہ پالیسی کا کنفیوژن کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ ہمارے خوش شکل ،خوش گفتار اور تجربہ کار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں ’’آن دی ریکارڈ‘‘ اعلانیہ وعدہ کیا تھا کہ اب پاکستان کی فارن پالیسی اسلام آباد میں بنائی جائے گی۔ انہوں نے ایک امریکی صحافی کے سوال کے جواب میں یہ پیغام امریکیوں کو دیتے ہوئے پاکستانی عوام کو بھی یہ یقین دلایا تھا ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ’’میڈ ان اسلام آباد فارن پالیسی‘‘کے تحت صرف ایک ماہ کے عرصہ میں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے تین امریکی بیانات کی بڑی جرات اور بے باکی سے نہ صرف تردید کرچکے ہیں بلکہ امریکی عہدیداروں سے متضاد موقف بھی بیان کر چکے ہیں۔
ماضی میں صرف ایک ماہ کے عرصہ میں تین مرتبہ پاک، امریکہ تعلقات کے اہم امور پر تردید اور تضاد کبھی کسی وزیر خارجہ کے دور میں نظر نہیں آیا حتیٰ کہ پی پی پی دور حکومت میں جب شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے تب بھی امریکی عہدیداروں کے تین موقف اور بیانات کو مسترد کر کے متضاد پاکستانی موقف کا ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ امریکی ٹرمپ حکومت کے جن اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات اور موقف کو ہمارے وزیر خارجہ نے چیلنج کیا ہے وہ کوئی عام ترجمان یا بریفنگ دینے والے آفیسر نہیں تھے بلکہ وہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس اور افغانستان میں امریکی سفیر جان باس جیسے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور جنرل ڈنفورڈ کے پانچ گھنٹے کے دورہ اسلام آباد کے فوراً بعد ہمارے وزیر خارجہ نے جس جرات اور اعتماد کے ساتھ پاک، امریکہ تعلقات کی ماضی کی کشیدگی کو یکسر روک کر تعلقات کے بٹن کو نئے سرے سے ’’ری سیٹ‘‘ کرنے کی جو خوشخبری سنائی تھی ،اسکی حقیقت بھی بھارت، امریکہ مشترکہ اعلان، معاہدہ اور 2+2ڈائیلاگ کے بعد ہمارے سامنے آچکی ہے بلکہ اس کے بعد بھی بھارت، امریکہ لاجسٹک تعاون کے بارے میں ہماری بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود کی تازہ بریفنگ سے بھی بہت کچھ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس قدر جراتمندی سے امریکی موقف سے متضاد پاکستانی موقف بیان کرنے کے باوجود ہمارے وزیر خارجہ کو دورہ امریکہ کی دعوت تا حال بدستور بحال ہے۔ اور اگلے چند دنوں میں قریشی، پومپیو ملاقات ہونے کا امکان ہے۔ اب تک جن امور پر امریکہ اور پاکستان کے درمیان عمران حکومت کے دوران موقف کا اختلاف بلکہ تضاد سامنے آیا ہے وہ کچھ یوں ہے۔
(1) افغانستان میں امریکی سفیر جان باس کے ایک انٹرویو کے مطابق پاکستان نے امریکیوں کو یہ عندیہ اس سال کے آغاز میں دیا تھا کہ وہ افغانستان کو پاکستان کے راستے بھارت سے ٹریڈ کرنے کی سہولت دینے پر آمادہ ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ پاکستان بھارت سے اپنے تمام تنازعات کو حل کئے بغیر ہی اپنی سرزمین کو بھارت، افغانستان، تجارت کیلئے کھولنے کو تیارہے۔ گویا بھارت سے مذاکرات و معاملات و تنازعات حل کرنے کی پاکستان کو ضرورت نہیں جبکہ ماضی میں پاکستان کی یہ شرط رہی ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات کو حل کرے تو پاکستان اس تجارت کے لئے تیار ہے۔ گو کہ پاکستان کی اس پیشکش کے بارے میں امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ پاکستانی پیشکش کچھ عرصہ قبل کی گئی اور حکومت کا نام بھی نہیں لیا گیا کہ آیا یہ نواز شریف حکومت ،نگران حکومت تھی یا پی ٹی آئی حکومت تھی لیکن ہمارے وزیر خارجہ قریشی صاحب نے 16ستمبر کے اس بیان میں اس بات کی مکمل تردید کی ہے کہ پاکستان نے کبھی ایسی کوئی پیشکش کی۔ بالفاظ دیگر یا تو امریکی سفیر غلط بیانی کر رہے ہیں یا پھر ان کا انٹرویو غلط رپورٹ ہوا ہے۔ تاحال امریکی سفیر جان باس کی جانب سے اس قدر اہم مسئلہ پر تردید یا وضاحت سامنے نہیں آئی اور امریکی محاذ پر اس حوالے سے خاموشی کا مطلب واضح ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی حکومت بھارت سے مذاکرات کئے بغیر ہی افغانستان کے ذریعے بھارت کو پاکستانی سرزمین کو بھارتی اشیاء کی تجارت کیلئے کھولنے پر یکطرفہ طور پر تیار ہے اگر ایسی کوئی تجویز پاکستان کے زیر غور ہے یا کسی دبائو کے تحت ایسا اقدام کرنے کی مجبوری ہے تو پھر اس کے تمام فوری اور طویل المیعاد نتائج و اثرات پر اچھی طرح غور کر لیا جائے۔ کیونکہ اب تک پاکستان کی بھارت و افغانستان سے تنازعات و معاملات حل کرنے کی شرط کی طویل پالیسی کے تمام اثرات ہی زائل نہیں ہوں گے۔ بلکہ آئندہ کیلئے کشمیر، نیوکلیئر سپلائرز گروپ سمیت اہم امور پر پاکستان اپنا وزن اور اہمیت کھو دے گا اور محض بھارتی سامان کی افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک ترسیل کے لئے ایک ٹرانزٹ ملک بن کر رہ جائے گا۔ علاقہ میں بھارت، امریکہ اسٹرٹیجی کا ایک سیٹلائٹ ملک ہو کر خطے میں ابھر نے والی تیسری قوت چین اور روس کے مابین بڑھتے روابط کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ سالہا سال کے اتحادی تعلقات کے تلخ تجربات اور افغان جنگ کے نقصانات سے سبق سیکھتے ہوئےکئی سال چین پر انحصار کی حکمت عملی پر صرف کرنے کے بعد اچانک ایسا یو ٹرن پاکستان کے لئے مہلک ثابت ہو گا۔
ہمارے وزیر خارجہ کا حالیہ ایک روزہ دورہ کابل ظاہر ہے ،ان امور سے وابستہ تھا جو ٹیلیفون کالز اور سفارت خانوں کے ذریعے حل نہیں ہوسکتے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ سالہا سال تک واشنگٹن کے حلقوں میں پاکستان مخالف افغان دانشور کے طور پر رہے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کو ایک بار پھر افغانستان میں امریکی مفادات کے فروغ اور تحفظ کیلئے ذمہ داری سونپی جا رہی ہے جو پاکستان کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں۔ دیکھیں ہمارے وزیر خارجہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
(2) اس سےقبل پی ٹی آئی حکومت کے وزیر خارجہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی وزیراعظم عمران کے لئے ٹیلی فونک مبارکباد اور گفتگو کے حوالے سے بڑی جرات مندی سے پاکستان کیلئے شرمندگی کا سامان کر چکے ہیں۔ جب امریکی ترجمان نے عمران، پومپیو ٹیلی فونک گفتگو کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیراعظم سے دہشت گردی کے حوالے سے مطالبہ بھی کیا تو ہمارے وزیر خارجہ نے ڈٹ کر نہ صرف اسکی تردید کی بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس تمام گفتگو میں دہشت گردی کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوا۔ لیکن امریکہ محکمہ خارجہ نے جب اپنی روایت کو توڑ کر اس ٹیلیفونک گفتگو کا ٹرانسکرپٹ پاکستان کے حوالے کیا۔ تو پھر جرات کے ساتھ پسپائی شرمندگی اور حقائق پر پردہ پوشی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔
(3) اسی طرح امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور جنرل ڈنفورڈ کے چند گھنٹوں کے دورہ اسلام آباد کے فوراً بعد پی ٹی آئی کے وزیر خارجہ نے انتہائی خوشی سے عوام کو پاک، امریکہ تعلقات کی کشیدگی میںکمی سے آگاہ کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ پاک۔امریکہ تعلقات ماضی کی کشیدگی کو بھول جائیں۔ اب تبدیلی آ گئی ہے اور پاک امریکہ تعلقات کو بٹن دبا کر ’’ری سیٹ‘‘ کر دیا گیا۔ مگر یہ تبدیلی صرف چند لمحوں کی تھی، کیونکہ نئی دہلی میں2+2ڈائیلاگ، امریکی وزیر خارجہ پو مپیو اور امریکی وزیر دفاع جنرل جیمس میٹس نے اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ کئی معاہدوں اور تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط کر کے پاکستان کو جن نئے خطرات سے دوچار کیا وہ پی ٹی آئی حکومت کی خارجہ پالیسی کے دعوئوں کا کھلا مذاق ہی نہیں بلکہ قومی تشویش کا باعث تھا، یہ بھی ہمارے وزیر خارجہ کیلئے سوچ کا مقام تھا کہ وہ محض اپنے ہی عوام سے حقائق چھپانے اور تبدیلی کے دعوئوں کی بجائے حقائق کا سامنا کریں۔
(4) ہمارے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ چین کے دورے پر گئے۔ اس دورے سے قبل چینی وزیر خارجہ اسلام آباد کے دورے پر آئے اسی اثنا میں پی ٹی آئی کے وزیر کامرس اور مشہور کاروباری شخصیت رزاق دائود نے یہ بیان دیکر چین مخالف امریکی لابی کو خوش کر دیا کہ کہ سی پیک کے پاک چین منصوبے کو ایک سال کیلئے معطل کر کے کام بند کر دیا جائے۔ اس بارے میں میری رائے سے زیادہ بہتر ہو گا کہ ممتاز نیوز ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ پڑھ لی جائے۔ چین کی تشویش بجا ہے۔ خود آپ کے پاس اب چین کے علاوہ اور کیا چوائس ہے؟ ان نازک حالات میں پی ٹی آئی میں چین مخالف لابی سرگرم ہے۔ خارجہ پالیسی بھی داخلہ پالیسی کی طرح سخت کنفیوژن اور تضادات کا شکار ہے، وزیر گیس کی قیمتوں میں تبدیلی کے حقائق سے بے خبر اپنے ہی ماضی کے دعوئوں، بیانات اور یقین دہانیوں کے برعکس عمل کر رہے ہیں صرف تبدیلی اور عمران کی قیادت کا قصیدہ سچ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)