جیسے جیسےدُنیا بھر میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے بالکل اُسی طرح اُن کے مسائل کی تعداد بھی زیادہ ہو رہی ہے ، مسائل کی تعداد بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 60کی دہائی میں وطن عزیز سے ہجرت کرنیوالے تارکین وطن کو سہولتیں دینے اور اُن کے مسائل حل کرنے کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی واضح پالیسی مرتب نہیں کی ، اگر کسی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے کوئی پالیسی مرتب کی بھی تو اُس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ پاکستان میں موجودہ حکومت نے اپنی انتخابی مہم میں اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کی آواز بلند کرکے عوام سے ووٹ لئے،2018کے قومی انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں نے موجودہ حکومت کو برتری دلانے کیلئے جو تعاون کیا اور جس طرح انتخابات میں دلچسپی لی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس دلچسپی کی وجہ یہی تھی کہ نئی حکومت میں نئے لوگ ہوں گے اور یہ نئے حکومتی نمائندے نئی طرز کی پالیسیاں مرتب کرتے وقت اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے بھی احکامات جاری کریں گے ۔مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو فوری حل کرنے کے لئے کچھ محکمے بنائے گئے جن میں تعینات ہونیوالوں کو بے شک عہدوں سے نوازا گیا تھا لیکن وہ محکمے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے شروع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں کے کچھ مسائل حل ہوئے اور باقی ماندہ مسائل حل کی جانب چل نکلے تھے ۔تارکین وطن پاکستانیوں کیلئے بنائے گئے محکموں میں اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن ، وفاقی کمشنر برائے اوورسیز پاکستانی اور اوورسیز کمیشن پنجاب سر فہرست تھے جنہیں اختیارات دیئے گئے تھے کہ وہ تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل سنیں اور انہیں حل کریں ۔او پی ایف یعنی اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن کے چیئر مین وزیر مملکت ہوا کرتے تھے لیکن سابق حکومت کے دور میں پہلی بار ایسا ہواتھا کہ او پی ایف کے عہدے کیلئے مانچسٹر سے ایک اوورسیز پاکستانی بیرسٹر امجد ملک کو بطور چیئر مین تعینات کیا گیا یہ سوچ کر کہ وہ خود تارک وطن ہیں یقیناً وہ دوسرے ممالک میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل سے آشنائی رکھتے ہوں گے جس سے انہیں ایسے مسائل کی نشاندہی کرنے اور انہیں حل کرنے میں آسانی ہوگی ۔ ہوا بھی ایساہی امجد ملک نے تارکین وطن کے مسائل کے حل کا بیڑہ اٹھایا اور وہ کافی حد تک مسائل حل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ، اسی طرح اوورسیز کمیشن پنجاب کے چیئر مین شہباز شریف نے وائس چیئر مین خالد شاہین بٹ اور کمشنر افضال بھٹی کواختیارات دیئے،اختیارات دینے کا مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی زیادہ تعداد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے لہذا اس کمیشن کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں بنایا گیا جہاں اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے پولیس آفیسرز کو بھی اس کمیشن میں شامل کیا گیا ، تارکین وطن پاکستانیوں کی وطن عزیز میں جائیدادوں پر قبضہ ، تاوان کیلئے بچوں کے اغوا ، پاسپورٹ ، شناختی کارڈ اور دوسرے دستاویزی مسائل کو فوری حل کرنے کیلئے او سی پی ( اوورسیز کمیشن پنجاب ) نے تیزی سے کام کرنا شروع کیا جس کے نتائج یہ نکلے کہ کافی حد تک تارکین وطن پاکستانی اپنے مسائل کو حل ہوتا دیکھنا شروع ہو گئے ۔یہی نہیں بلکہ اس کمیشن نے یورپی ممالک کا دورہ کیا اور وہاں مقیم پاکستانیوں کے درمیان بیٹھ کر اُن کے مسائل سنے کچھ کیلئے موقع پر احکامات جاری ہوئے اور کچھ مسائل کی فائلیں پاکستان بھیج کر اُن پر کام کی ابتدا ہو گئی ۔پنجاب پولیس کے ایک ڈی آئی جی کو اختیارات دیئے گئے کہ وہ صرف اور صرف اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل پر توجہ دیں گے ۔سابقہ دور حکومت میں ابھی اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کرنے کی کوششیں جاری تھیں کہ نئی حکومت وجود میں آ گئی ، نئی حکومت نے پروگرام بنایا کہ اوورسیز کمیشن پنجاب نامی ادارے کو بند کر دیا جائے ، اکھاڑ پچھاڑ شروع ہونے کو تھی کہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور میدان میں آگئے اور کہا کہ ہم اس ادارے کو بند یا ختم نہیں کریں گے بلکہ اسے فعال بنائیں گے ، اسے ماضی سے بہتر بنائیں گے اور اوورسیز کمیشن پنجاب میں نئی اصلاحات کے ساتھ اوورسیز پاکستانیوں کی خدمت کریں گے ، اس فیصلے اور اعلان کا اوورسیز پاکستانیوں نے خیر مقدم کیا اور تحریک انصاف کی نئی حکومت سے اپیل کی وہ ایسے اداروں کو بند کرنے کی بجائے ان میں اصلاحات لا ئیں اور انہیں اتنا مضبوط اور با اختیار کردیںتا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی دیرینہ خواہش پوری ہو سکے ۔یہ وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز دینے کی اپیل پر اوورسیز پاکستانیوں نے لبیک کہا ہے اور دھڑا دھڑ یوروز ، پائونڈز اور ڈالرز اکھٹے کرکے پاکستان ارسال کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔اوورسیز پاکستانیوں کی ایک اپیل یہ بھی ہے کہ ایک ہزار ڈالر فی بندہ امداد بھیجنے کی اپیل کی بجائے یہ اپیل کی جاتی کہ جس سے جو بن پڑے وہ ارسال کرے تو بہتر ہوتا کیونکہ دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کی زیادہ تعداد مزدوری کرتی ہے اور یورپی ممالک میں قانونی طور پر جاب کرنیوالوں کی تنخواہ ایک ہزار ڈالرز کے قریب قریب ہی ہے ، اس میں سے اہل خانہ کو کچھ بھیجنا ، وہاں اُن ممالک میں رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات یہ سب کچھ کرکے تارک وطن پاکستانیوں کے پاس اتنے پیسے نہیں بچتے کہ وہ ایک ہزار ڈالر امداد میں بھیج سکیں ، لیکن کچھ اوورسیز پاکستانی ایسے بھی ہیں جو ایک ہزار سے کہیں زیادہ رقوم امداد کے طور پر بھیج سکتے ہیں ، اوورسیز پاکستانیوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ سب سے پہلے اُن کرپٹ پاکستانیوں پر ہاتھ ڈالیں جو وطن عزیز کے اربوں روپے دوسرے ممالک میں منتقل کر چکے ہیں اُنکی وہ رقوم دوسرے ممالک سے واپس منگوائیں اور قومی خزانے کو سیراب کریں ، اوورسیز پاکستانی تو پہلے بھی پاکستان کی ترقی کیلئے امدادی رقوم بھیجتے رہے ہیںاور مزید بھیجیں گے بھی لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کرپٹ سیاستدان اور پاکستانی
بزنس مین بھی قانون کے شکنجے میں آ جائیں جو ابھی تک سیاسی جماعتوں میں یا اُن کی پشت پناہی سے دندناتے پھر رہے ہیں ، کرپشن سے لوٹی گئی دولت اور تارکین وطن پاکستانیوں کی امدادی رقوم مل کر نئے پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کر سکتی ہیںجس کیلئے حکومت پاکستان کو اپنے قومی اداروں کو ساتھ ملا کر جرات مندانہ اور اٹل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔