سابق صدر ، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کہانی دنیا کے دیگر آمروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، جنہیں اختیارات کھونے کے بعد اس طرح کی صورتحال کا سامنا رہا ہے۔وہ گزشتہ چار برس سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اب وہ اس شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ وہ وطن واپس جائیں یا نہیں اور متعدد الزامات کے حوالے سے ٹرائل کا سامنا کریں کیوں کہ 2014کے مقابلے میں ان کی صحت تیزی سے گری ہے ، جب کہ اس وقت انہیں اس وقت کی سول اور فوجی قیادت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدے کے تحت ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔پرویز مشرف کی امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب وزیرا عظم عمران خان کی نئی حکومت اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے معاملے سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور عدالت کو اس کا کام جاری رکھنے دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اب ان کی واپسی سے متعلق نیا حکم نامہ جاری کیا ہے اور انہیں نہ صرف مکمل سیکورٹی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے بلکہ ہر ممکن طبی سہولیات بھی فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔اس طرح ان کے ملک واپس نہ آنے کے بہانے تیزی سے ختم ہورہے ہیں اور دبائو بڑھ رہا ہے خاص طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف ، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ٹرائل اور سزا کے بعد یہ دبائو تیزی سے بڑھا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جن افراد نے ان سے ملاقات کی ہے انہوںنے ان کی گرتی ہوئی صحت کا عندیہ دیا ہےکیوں کہ وہ اب مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔غالباً وہ اب بھی وطن واپسی سےپہلے اپنے حتمی فیصلےسے قبل اپنے دوست اور ساتھیوں کی جانب سے مثبت اشاروں کا انتظار کررہے ہیں ۔تاریخ اپنے طور پر مشرف کے دور حکومت کا فیصلہ کرے گی لیکن پرویز مشرف کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار خود اپنے آپ کو ٹھہرانا ہوگا۔نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مشورے کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کیا۔