اداسی کو بیاں کیسے کروں
خموشی کو زباں کیسے کروں
بدلنا چاہتا ہوں اس زمین کو
یہ کار آسماں کیسے کروں
( منیر نیازی)
سابق صدر آصف علی زرداری کو خبروں میں رہنے کافن بخوبی آتا ہے ۔ پہلے انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی تقریر کرکے عالمی شہرت حاصل کی اور پھر فوراً ملک کی ساری اینٹیں چھوڑ کر بیرون ملک روانہ ہوگئے ۔ اب انہوں نے فوج کی حمایت میں زبردست بیان دیا اور ایک مرتبہ پھر خبروں، تبصروں،ٹاک شوز اور تجزیوں میں چھا گئے ان کی پارٹی کے لوگ جواینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے اینٹیں جمع کررہے تھے پریشان ہوگئے اور انہوں نے نہ صرف اس بیان کو مشکوک قرار دیا بلکہ اس کی تصدیق کے لئے میڈیا سے وقت بھی مانگا پھر پارٹی پریشر پربیان کی تردید آگئی۔ ایک مرتبہ اور میڈیا میں کوریج مل گیا ۔ اب میڈیا کے لئے یہ معمہ بن گیا کہ آخر یہ بیان آیا کہاں سے آج کی اخباری رپورٹ کے مطابق یہ بیان سامری جادوگر رحمن ملک نے آصف علی زرداری سے مشاورت کرکے تیار کیاتھا اور اسے سابق صدر کے قریبی دوست کی معرفت میڈیا میں جاری کروایا گیا ۔ گویا ہرفن مولا آصف علی زرداری نے ملک سے دور رہتے ہوئے بھی ملک کے میڈیا میں کروڑوں روپے کی پبلیسٹی مفت حاصل کی ۔ تمام لوگوںکی توجہ احتساب کے عمل سے ہٹا کر اور میڈیا میں عزیز بلوچ کی فراہم کردہ معلومات کی اشاعت کو پس پشت ڈال کر اپنی پوزیشن اوپر لے آئے ۔ اسے کہتے ہیں ’’ زندہ رہنے کافن ‘‘ میں نے بہت عرصہ پہلے اس عنوان سے ایک کالم بھی لکھا تھا اور اسمیں یہ شعر بھی لکھا تھا
جینا بھی اک فن ہے یہاں
ہرایک کو کب آتا ہے
کامیاب لوگوں کی کامیاب باتوں سے بھی ہم کچھ نہیں سیکھتے اور یونہی قسمت کوکوستے رہتے ہیں قسمت گھربیٹھے نہیں بدلتی ۔ قسمت بدلنے کے لئے پینترا بدلنا پڑتا ہے مجھے یاد ہے جام صادق علی کے زمانے میں آصف صاحب بینک ڈکیتی کے کیس میں ملزم تھے اور مقدمہ مکمل ہو کر سزا کے نزدیک تھا کہ اس وقت کے جج صاحب جناب وجاہت صدیقی کافجر کی نماز کے لئے وضو کرتے وقت اچانک ہارٹ فیل ہوگیا فیصلہ تیار تھا اور10بجے صبح سنایا جانا تھا کہ چھ بجے صبح جج صاحب کے اچانک انتقال کی خبر آگئی وجاہت صاحب کافیڈرل شریعت کورٹ میں جج کا تقرر بھی ہونے والاتھا ۔ مگر قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھا ۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور آصف علی زرداری نے جناب غلام اسحاق خان کی کیبنٹ میں وفاقی وزیر کاعہدہ سنبھالا اور گوبابا گو والے اسحاق خان سے وفاقی وزیر کا حلف لیا ۔ اسوقت نواز شریف صاحب لندن میں بے نظیر صاحبہ کوان کے بچےکی پیدائش پر اسپتال میںپھولوں کے گلدستے بھیج رہے تھے اور ادھر جناب نواز شریف اسلام آباد میں حکومت سے فارغ ہورہے تھے اسے کہتے ہیں ’’ پینترا بدلنا ‘‘ کامیاب لوگوں کی کامیاب کہانیاں۔ اب پھر حالات دگرگوں ہیں جناب نواز شریف دوروں پر دورے اور افتتاح اور سنگ بنیاد کی تقریروں میں مصروف ہیں فوج ضرب عضب میں مصروف ہے ۔ رینجرز بے نظیر کے قاتلوں کوتلاش کررہی ہے خالد شہنشاہ اور بلال شیخ کے قتل کی تفتیشی فائلوں میں مصروف ہے ذولفقار مرزا رینجرز یا جے آئی ٹی کواپنےبیان ریکارڈ کروارہے ہیں ۔ میڈیا غیر مصدقہ خبروں سے سراسیمگی پھیلا رہا ہے اور رحمن ملک صاحب اپناکام دکھا رہے ہیں۔ یہ شطرنج کی بازی سے بھی زیادہ دلچسپ کھیل ہے جسمیں پیادے تو پہلے ہی مر گئے ہیں ۔ بادشاہ کوشہہ ہو گئی ہے مگر گھوڑا فوراً ڈھائی قدم چل گیا ہے اور اس نے نواز شریف کو شہہ کروادی ہے ۔ اب نئی چال چلی گئی ہے گھوڑے کی چال کولگام دینے کے لئے کسی پیادے کی قربانی کا اہتمام ہے ۔ بیان کی تردید سے بیان جاری کرنے والے کی میڈیا میں قربانی لازمی ہے ۔ آئندہ کوئی شخص اس کاجاری کیا ہوا بیان بغیر تصدیق کے شائع نہیں کرے گا ۔ وہ شخص جس نے بیان جاری کیاتھا اپنی موت خود مرجائے گا ۔ اب رہے رحمن ملک ،وہ ماہر ہیں انکی لمبی کامیابی کےپیچھے ان کا لمبا کیرئیر ہے جسمیں ایف آئی اے سے لیکر پروٹوکول تک کا تجربہ شامل ہے ۔ وہ ایک کامیاب ترین انسان ہیں ۔ میں نے جنگ میں کالم لکھا تھا کہ میں بڑا ہوکر رحمن ملک بنوں گا مگر کیا کروں میں بڑا ہو کر ہی نہیں دےرہا اللہ ہی جانتا ہے کہ میں کب بڑا ہوں گا ؟ عمر بڑھنے اور سال گزرنے سے تو بڑا نہیں ہوا ۔ اب کوئی اور ہی ترکیب کرنا پڑے گی یا پھر رحمن ملک کی باقاعدہ شاگردی حاصل کرنا پڑے گی ۔ قارئین پریشان ہونگے کہ آج میں کیسی باتیں لکھ رہا ہوں مگر وہ لوگ جو میرے قریب رہتے ہیں انہیں خبر ہے کہ میں ایسی باتیں بھی کرتا ہوں اور پھر خود ہی ہنستا ہوں ہنسنا زندگی میں بہت ضروری ہے ۔ اس سے بلڈ پریشر صحیح رہتا ہے اور دل کا عارضہ بھی لاحق نہیں ہوتا کیونکہ ہنسنا اور ہنستے رہنا بذات خود ہی ایک عارضہ ہے جو مرتے دم تک نہیں جاتا۔وزیر اعظم کی کراچی آمد کی خبریں اخباروں میں شائع ہوئی ہیں وہ گرین لائن بس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھیں گے ۔کراچی کو ٹرانسپورٹ کی بے حد ضرورت ہے۔ اگر وہ کراچی کی سرکلرریلوے کوبھی بحال کردیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ میں اس پرایک مکمل کالم بھی لکھ چکا ہوں ۔ پارکوں کے لئے میں نے تجویز دی تھی کہ بڑی بڑی کمپنیوں کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ ایک ایک پارک اپنے ذمہ لے لیں سرکاری ملازمین پارکوں کے لئے مہیا کردہ فنڈز کودرست طریقےپر استعمال نہیں کرپاتے اور اسطرح گھاس بھی مر جاتی ہے اور پودے بھی، لوگ پارکوں میں کچرہ پھینکنا شروع کردیتے ہیں اور اسطرح تما م پارک اجڑتے جارہے ہیں مجھے امید ہے کہ گورنر عشرت العباد اس سلسلے میں کسی قابل عمل تجویز پر توجہ دیں گے اور پارکوں کو ایک مرتبہ پھر بحال کردیں گے ۔ یہ بہار کاموسم ہے مگر کراچی میں کہیں بھی بہار نظر نہیں آرہی ۔ آخر میں حسب سابق فیض صاحب کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چاردن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے