• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پسِ منظر نہیں ،پس منظر

فارسی سے دُوری کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہم اب ان فارسی الفاظ و تراکیب سے نا آشنا ہیں جن کا استعما ل ہمارے بزرگوں کے زمانے میں عام بات تھی۔ نئی نسل کے بعض افراد اسی لیے فارسی کے ان مرکبات میں ٹھوکر کھاتے ہیں ،جن میں اضافت آتی ہے۔ جہاں اضافت ہونی چاہیے وہاں ہمارے نوجوان طلبہ و طالبات ،اضافت کھا جاتے ہیں اور جہاں اضافت نہیں ہے وہاں بھی اضافت لگاتے چلے جاتے ہیں،حالانکہ کچھ عرصے قبل تک اضافت کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

افتخار عارف سے کچھ عرصے قبل اس مسئلے پر بات ہورہی تھی تو انھوں نے ایک عجیب قصہ سنایا ۔کہنے لگے کہ کوئی پچاس ساٹھ سال پہلے لکھنؤ میںان کی ایک بزرگ رشتے دار خاتون کی بیٹی کا رشتہ آیا ۔ رشتہ ہر لحاظ سے مناسب تھا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ بڑی حیرت ہوئی ، جب پوچھا گیا کہ خالہ آپ نے اتنا اچھا رشتہ کیوں ٹھکرادیاتوکہنے لگیں ’’اے لو، تمھیں نہیں معلوم ، لڑکا اضافت کھاتا ہے۔ بھلا میں اس شخص کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے دوں، جو اضافت کھاتا ہے؟‘‘۔ گویا ان کے خیال میں اضافت کھانا اتناہی بڑا عیب تھا، جیسے شراب پینا یا جوا کھیلنا۔ زبان کی غلطی پر رشتہ نہ دینے والے اب کہاں ہیں ؟

اب تو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اضافت لگانے یا نہ لگانے کے معاملے میں الجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس افراط و تفریط کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں بھی اضافت لگائی جارہی ہے ،جہاں اضافت کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔ ایسی ہی ایک ترکیب ’’پس منظر ‘‘ ہے ، جس میں اضافت نہیں ہے۔لیکن کئی لوگوں کو ’’پسِ منظر ‘‘ (یعنی پس کے سین کے نیچے اضافت کے زیرکے ساتھ) بولتے سنا گیاہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ پس منظر میں اضافت کا زیر اس لیے نہیں ہے کہ پس کا مطلب ہے پیچھے اور ’’پس منظر‘‘ کا مطلب ہے پیچھے کا منظر، جسے انگریزی میں بیک گرائونڈ (background) کہتے ہیں،لیکن اگر اس کو’’پسِ منظر‘‘ یعنی سین کے نیچے اضافت کے زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہوگا ’’منظر کے پیچھے‘‘ یہ معنی بالکل مختلف ہیں، لہٰذا جملے کا مفہوم خبط ہوجائے گا۔جیسے پسِ دیوار کامطلب ہے دیوار کے پیچھے، پسِ آئینہ کا مطلب ہے، آئینے کے پیچھے۔سلیم کوثر کے بقول:

سرِ آئینہ مرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے

اسی طرح پسِ منظر کے معنی ہوں گے منظر کے پیچھے ، جو بے تکی بات ہے۔اس میں زیر بالکل نہیں لگانا چاہیے۔

پس منظر کی فارسی ترکیب، دراصل ’’منظرِ پس ‘‘ کی صورت میں تھی۔ فارسی میں جب ترکیب الٹ جاتی ہے تو اس میںسے اضافت کا زیر نکل جاتا ہے۔ اسے اضافتِ مقلوب کہتے ہیں۔ مقلوب یعنی پلٹا ہوا یا الٹا یاہوا۔ عبدالستار صدیقی جیسے جید عالم ِ زباں اور ماہر ِ لسانیات نے بہت پہلے بتادیا تھا کہ یہ طریقہ، فارسی میں بہت عرصے سے رائج رہا ہے ۔ اپنی کتاب ’’مقالاتِ صدیقی‘‘ میں انھوں نے مثال دی ہے کہ شہر ِ ایران کو ایران شہر کہتے ہیں ۔زمینِ ایران کوایران زمین بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح شاہ ِ شاہان (یعنی بادشاہوں کا بادشاہ) کی ترکیب الٹ گئی، اس میں سے زیر نکل گیا اور’’ شاہان شاہ ‘‘بن گیا،جسے بعد میں شاہنشاہ بھی لکھنے لگے ۔ شاہ کی تخفیف شدہ صور ت ’’شہ‘‘ بھی ہے، اس لیے اسے شہنشاہ کہنے لگے، یعنی شاہوں کا شاہ، مراد ہے سب سے بڑا بادشاہ۔

گویا پس منظر میں اضافت نہیں ہے اور اسے اضافت کے زیر کے ساتھ یعنی پسِ منظر بولنا معنی و مفہوم کو کہیں پیچھے گم کرنے کے مترادف ہے۔ (جاری ہے) 

تازہ ترین