• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیسے کچھ ملکوں میں غربت اور لوڈشیڈنگ نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، اسی طرح کئی فضول سی کہانیاں بھی سینہ بہ سینہ سرائیت کرتی چلی آ رہی ہیں۔ یہ اسی قبیل کی ایک پرانی کہانی ہے جو ہم نے بچپن میں اپنے بڑوں سے سنی، بڑوں نے اپنے بچپن میں بزرگوں سے سنی تھی اور بزرگوں نے اپنے بڑوں سے،آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔
”گیدڑوں کا ایک ناہنجار گروہ شبینہ وارداتوں کے لئے مشہور تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس گروہ نے جاٹ کے کھیت کو نشانے پر رکھ لیا۔ وہ سرِ شام جنگل سے لانگ مارچ کرتا ہوا کھیت میں وارد ہوتا اور خربوزوں کی ”ضیافت بالجبر“ اڑانے کے بعد رات گئے واپس جنگل کی راہ لیتا۔ تنگ آ کر جاٹوں نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں گیدڑوں کے دانت کھٹے کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ رات کو ڈنڈوں سے مسلح ہوکر کھیت کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے ۔گیدڑوں کے گروہ کا سرغنہ ایک ”ماموں“ نامی عمر رسیدہ گیدڑ تھا۔
اس رات بھی وہ حسب معمول ماموں کی قیادت میں خراماں خراماں آئے اور کھیت میں داخل ہوکر فصل اجاڑنے میں جُت گئے۔ اچانک جاٹوں نے نکل کر ان پر حملہ کردیا ۔ اس ناگہانی افتاد پر باقی گیدڑ تو خوفزدہ ہوکر بھاگ گئے لیکن ماموں اپنی پیرانہ سالی کی بنا پر زیادہ پھرتی نہ دکھا سکا اور جاٹوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ ڈنڈے کھاتا بھگوڑے گیدڑوں کو اپنی مدد کرنے کے لئے پکارتا رہا مگر یہ التجا صدا بہ صحرا نکلی اور اس کی سپاہ بے فیض پلٹ کر نہ آئی۔
ماموں بڑا منجھا ہوا، شعبدہ باز طبیعت لیڈر تھا، جس نے اپنی زندگی میں حیرت افزاء کرتبوں کے کئی سرکس لگائے تھے۔ جاٹوں کی طرف سے مناسب تواضع کے جاں گسل مرحلے سے گزرنے کے بعد ماموں جب جنگل میں پہنچا تو اس نے سب گیدڑوں کو اکٹھا کر کے جلسہ عام منعقد کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”بے وقوفو! میں تمہیں بلاتا رہا کیونکہ میں جاٹوں سے مذاکرات کر رہا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر خربوزے کھانے ہیں تو چوری کے بجائے قانونی طریقے سے پرمٹ بنوا کر کھاؤ“۔ گیدڑ ہونّقوں کی طرح اسے دیکھ رہے تھے۔ ماموں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا ”بہرحال! تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ جاٹوں نے تمہیں اپنی آغوش کفالت میں لے لیا ہے اور میں پرمٹ بنوا لایا ہوں۔ اب تم سب قانونی طریقے سے خربوزے کھانے کے لئے تیار ہو جاؤ“ چونکہ گیدڑ ازل سے فکری طور پر کنگال اور وژن سے عاری ہوتے ہیں، نیز حماقتوں پر ان کی اجارہ داری بھی مسلّم ہے لہٰذا یہ طائفہ اس رات خوشی سے دیر تک بھجن گاتا ،تالیاں بجاتا اور ماموں کے گرد جھومر ڈالتا رہا۔ انہوں نے ماموں کی ولولہ انگیز قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا مگر کسی نے بھی پرمٹ دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔
اگلی رات کوتاہ بیں گیدڑوں کا کارواں ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ماموں کی قیادت میں جادہ پیما ہوا۔ ادھر پچھلی رات کی ناکام کارروائی کے بعد جاٹوں نے اپنے منصوبے میں تبدیلیاں کیں اور پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ڈنڈا بردار فورس نے مع جال کھیت کو چہار اطراف سے خفیہ طور پر گھیر لیا۔ گروہِ گیدڑاں ناچتا گاتا جائے واردات پر پہنچا تو ماموں کھیت سے ذرا ہٹ کر جنگل جانے والے راستے میں چوکنا ہوکر بیٹھ گیا اور اپنی فورس کو حکم دیا کہ شیر بن کر خربوزوں پر ٹوٹ پڑو، اگر کوئی جاٹ آ گیا تو میں پرمٹ دکھا کر اس کا منہ بند کر دوں گا۔ جب تمام گیدڑ بے خوفی اور اطمینان سے کھیت میں داخل ہوکر مصروف عمل ہو گئے تو جاٹوں نے کثیر سمتی پیش قدمی کرتے ہوئے اچانک کمانڈو کارروائی کی اور سارا گروہ جال میں پھنس گیا ۔ ماموں جو دور کھڑا پابہ رکاب تھا ،یہ منظر دیکھتے ہی تیز قدموں سے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ جاٹوں نے ڈانگ سوٹے سنبھالنے شروع کئے تو گیدڑوں کے اوساں وغیرہ وغیرہ خطا ہو گئے۔ انہوں نے چیختے ہوئے ماموں کو پکارا اور جاٹوں کو پرمٹ دکھانے کے لئے دہائی دی ۔ ماموں دور جا چکا تھا، وہ گیدڑوں کا شور سن کر رکا اور ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر باآواز بلند خطاب کیا ”بچو! یہ سارے جاٹ ان پڑھ ہیں…ان کو پرمٹ دکھانے سے کیا فائدہ؟…تم ان سے ”مذاکرات“ کے بعد رہائش گاہ پر پہنچ جانا، جیسے کل رات میں پہنچا تھا “۔ ماموں یہ مختصر مگر جامع تقریر کر کے سرپٹ دوڑا اور اپنے عافیت کدے میں جا کر دم لیا“۔
یہ کہانی بہت پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہے۔ آج جب سیٹلائٹ ، انٹرنیٹ اور موبائل کے عہد میں ایسی لغو اور بے ہودہ کہانیاں متروک ہو چکی ہیں، تو عقل کل ہونے کے مرض میں مبتلا خود ساختہ ماموں خواہ مخواہ ان کو دہرانے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں، جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس میں سچ ہے تو فقط اتنا کہ کسی بھی شعبدہ باز ماموں کے پاس کبھی کوئی پرمٹ ، کوئی مینڈیٹ نہیں ہوتا۔ یہ اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کے لئے خود کو”پرمٹ ہولڈر“ قرار دے کر دوسروں کو جاٹوں کا کھیت اجاڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور جب دوسرے جال میں پھنس جاتے ہیں تو ماموں اپنے عافیت کدوں میں جا دم لیتے ہیں،جہاں کی ان کے پاس شہریت ہوتی ہے۔ رہا کھیت تو وہ جاٹوں کی ملکیت ہے، شاملات دیہہ نہیں۔ خربوزے کھانے کے لئے جاٹوں سے حقیقی پرمٹ لینا پڑتا ہے، جو وہ ”پرچی“ کی شکل میں اپنے من پسند لوگوں کو دیتے ہیں لیکن کسی خود ساختہ ماموں کو انہوں نے کبھی بھی اپنی آغوش کفالت میں نہیں لیا۔
جہاں تک نام نہاد پرمٹوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں کھیت کے مالک جاٹ آج بھی ان پڑھ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ چور دروازے سے خربوزے کھانے والے جعلی پرمٹ ہولڈروں سے بڑا بے وقار سلوک کرتے ہیں۔
تازہ ترین