یوم وفات پر عامر وحید کی خصوصی تحریر خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کا تعلق ایک ممتاز، معزز اور علمی خانوادے سے تھا۔آپ کے والد محترم حضرت مولانا ظہورالحق کیرانوی ؒ ایک باعمل متّقی، پرہیزگار، صاحب فتویٰ، عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے حقیقی بہنوئی بھی تھے،گویا کہ خطیب پاکستان حکیم الامّت کے چہیتے بھانجے تھے۔حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ 1333ھ15؍مئی 1915ءمیں تھانہ بھون کے قصبے اٹاوہ میں پیدا ہوئے۔حضرت ؒ ایک خوش الحان قاری،شیریں بیاں خطیب،فقیہ،وسیع النظر عالم، مجتہد اور مفتی کا جلیل القدر مقام بھی رکھتے تھے۔یوں تو خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی زندگی کی کتاب کا ہر ورق روشن اور تابناک ہے لیکن اس مضمون میں چند ایک کا ہی ذکر ممکن ہے۔ یادگار اسکی ہمیں لازم ہے یوں قائم کریں قوم ہو آئینہ اس کی فکر و تصنیفات کا خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے عمر عزیز کے آٹھویں سال میں قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد میرٹھ کے مشہور مدرسے سے فارسی تعلیم کی تکمیل کی بعدازاں مدرسہ مظاہر العلوم عربیہ سہارن پور میں کچھ عرصہ ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر تکمیل کیلئے 1930ءمیں برصغیر پاک و ہند سمیت عالم اسلام کی مشہور ومعروف دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور 1937ءمیں فراغت کی سند حاصل کی اور اسی سال پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے دینی تعلیم کے حصول کے بعد دینی مشاغل کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا بلکہ سبزی منڈی و بستی ہر پھول سنگھ دہلی میں زمین لے کر مکان بنایا اور کرایہ مکان کو ذریعۂ معاش بنایا۔ سن 1940ء میں حضرت حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مرتب کردہ تبلیغی پروگرام ’’دعوۃ الحق‘‘کے تحت تبلیغی کام حضرت ماموں جان ؒ ہی کے حکم سے انجام دیئے جس میں حصول پاکستان کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے عقائد و اعمال کو درست سمت میں ڈھالنے کا بنیادی اور معرکۃ الآرا کام سرانجام دیا۔ خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کا روحانی و نسبی تعلق حکیم الامّت مجددالملّت حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ سے تھا لیکن حضرت حکیم الامّت ؒ کے پہلے اور بڑے بھانجے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ سے خلافت پائی۔ حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ اپنے ماموں جان حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور اپنے شفیق استاد شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ دونوں ہستیوں پر بھرپور اعتماد رکھتے ہوئے ان کی کامل اتباع میں علمائے دارالعلوم دیوبند کے سرخیل اور ارباب تقویٰ پر مشتمل جمعیت العلمائے ہند کے ہندو کانگریس کے گٹھ جوڑ کے باعث کانگریسی نظریہ کے ہمیشہ مخالف اور دو قومی اسلامی نظریۂ پاکستان کے تحت قائداعظم والی انڈین مسلم لیگ کے پکّے اور تادم آخر کے حامی رہے۔تحریک پاکستان میں خطیب پاکستان ؒ نے مذہبی و شرعی فریضہ سمجھ کر حصّہ لیا۔ نور ایمانی سے دل تیرا سدا روشن رہا جب تک زندہ رہا تیرا یہی شیوہ رہا خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے 1940ءسے لگا کر قیام پاکستان 1947ءتک نئی دہلی میں سیکرٹریٹ کی جامع مسجد میں خطابت و امامت کے فرائض اعزازی طور پر انجام دیئے جہاں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹس کے ممبرز،جی ایچ کیو اور دیگر مرکزی دفاتر کے لوگوں سے خطاب کا سلسلہ شروع ہوا،ان کے مقتدیوں میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم (شہید)خان لیاقت علی خان،خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشتر جیسے اصحاب شامل تھے۔حضرتؒ نے تقریباً 7سال وہاں خدمات انجام دیں،اسی بناء پر حضرتؒ کے مسلم ارکان پارلیمنٹ سے قریبی روابط کا آغاز ہوا۔پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد آئین پاکستان کی تشکیل کے سلسلے میں جس اہم کام کا آغاز حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے کیا تھا اس میں کلیدی کردار حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے انجام دیا جس کا نتیجہ قرارداد مقاصد کی منظوری کی صورت میں سامنے آیا جو وطن عزیز کی دستورسازی میں سنگ میل ثابت ہوئی۔ خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے حیدرآباد سندھ سے 25میل آگے ٹنڈوالہ یار اشرف آباد سندھ میں ایک مدرسہ بنام دارالعلوم ٹنڈوالہ یار قائم فرمایا جسے پاکستان کا پہلا دارالعلوم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور دارالعلوم الا سلامیہ ٹنڈوالہ یار کو امّ المدارس کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔آج جتنے بھی بڑے بڑے نام مدارس کے لئے جائیں ان کے زیادہ تر مہتممین کا تعلّق دارالعلوم الا سلامیہ ٹنڈو الہ یار سے ہی ہے۔ بڑے بڑے نامور علماء کو پاکستان میں بلانے اور ان کو ہندوستان سے لانے کا سہرا بھی حضرت خطیب پاکستان ؒ کے سر ہے جن میں بیش تر بڑے علماء نے دارالعلوم الا سلامیہ ٹنڈوالہ یار میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔بعدازاں ان بزرگوں نے ملک کے گوشے گوشے میں اپنے اپنے مدارس قائم فرمائے۔پاکستان کے تمام مدارس فیضان احتشام ہی سے آراستہ ہیں۔ عمر بھر قرآن کا پیغام پھیلاتا رہا ہر گھڑی اسلام کی تبلیغ فرماتا رہا خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے قادیانی فتنے کی سرکوبی میں بھی دیگر جیّد و سیّد علماء کے ساتھ اہم کردار ادا کیا۔یہی وجہ تھی کہ مرزا محمود نے 1952ء میں اعلان کیا کہ ہم خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ،سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری،مفتی محمد شفیع،مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا مودودی کو قتل کر دیں گے۔آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن کے علماء پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا گیا جس کے اراکین میں بڑے بڑے جیّد علماء کے نام شامل ہیں جیسے علامہ سیّد سلیمان ندویؒ،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ، مولانا محمد یوسف کلکتویؒ،مولانا سلطان احمدؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مفتی صاحب دادؒ،مولانا لال حسین اخترؒ،مفتی جعفر حسین مجتہد،الحاج ہاشم گزدر اور خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ اس بورڈ کے کنوینر بھی خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ منتخب ہوئے۔ خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کا ایک اور عظیم کارنامہ جو زریں حروف سے لکھا جائے گا وہ تمام مکاتب فکر کے جیّد علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا تھا جس کیلئے حضرت خطیب پاکستان نے شبانہ روز انتھک کاوشوں اور کوششوں سے تمام مکاتب فکر کے علماء کو 1957ءمیں یکجا کیا۔اس سلسلے میں مرکزی جامع مسجد جیکب لائن سے متصل حضرت کے مکان پر تمام مکاتب فکر کے 31علماء کا ایک تاریخی نمائندہ اجتماع منعقد ہوا جس میں متفقہ طور پر 22اسلامی نکات کو مرتب کیا گیا۔اس کا بنیادی و لازمی دستاویزی ریکارڈ شائع ہو کر منظرعام پر موجود ہے۔حضرت مولانا تنویرالحق تھانوی صاحب سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں 1954ءمیں جگتو فرنٹ بنا تو سردار عبدالرب نشتر اور دیگر رہنمائوں کے ساتھ مل کر خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے لوگوں کو علیحدگی پسند قوّتوں کی بھرپور مخالفت کی اور ملک کو متحد رکھنے اور ملک کی سالمیت کی بقاء کی خاطر تقاریر کیں جس سے عوام میں شعور اور بیداری پیدا ہوئی اور جگتو فرنٹ کی سرکوبی کی کوشش کی گئی۔ وفاق المدارس العربیہ کے متعلق 22؍مارچ 1957ءمیں کمیٹی قائم ہوئی جس کے سربراہ اور کنوینر خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ مقرر ہوئے۔حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ؒ اور حضرت مولانا شمس الحق ؒ بس یہ تین ہی ہستیاں وفاق المدارس کے پہلے اجلاس میں شریک تھیں۔ 1961ء میں خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے ایوب خان کے دور میں تنہا ایک عالم رکن کی حیثیت میں عائلی کمیشن کے غیر شرعی قوانین کے خلاف شدید ردّعمل کا مظاہرہ کیا اور نتائج کی پروا کئے بغیر ایوب خان کی پرزور مخالفت کی اور عائلی کمیشن رپورٹ پر کتابی شکل میں اختلافی نوٹ لکھا اور غیر شرعی قوانین کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھرپور مخالفت کی جسے ساری دنیا کے مذہبی حلقوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا اور حضرت خطیب پاکستان کی حق گوئی کو نشان منزل قرار دیا گیا۔ خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے رویت ہلال کمیٹی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور چیئرمین منتخب ہوئے۔ صدر ایوب خان کے عائلی کمیشن پر اختلافی نوٹ کی صورت میں آواز حق بلند کرنے پر ایوب خان نے 1967ءمیں چاند کی رویت اور ہلال عید کے معاملے کو اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور محکمۂ موسمیات کے حوالے کیا۔ حضرت خطیب پاکستان نے جب اس شرعی مسئلے پر آواز اٹھائی تو ایوب خان نے حضرت خطیب پاکستان کو کوئٹہ کے علاقے نوشکی میں ایک ماہ 19دن کیلئے نظربند کر دیا۔تاہم خطیب پاکستان نے اپنی جدوجہد کو تن تنہا جاری رکھا۔جیکب لائن سے رویت ہلال کے متعلق عوام الناس کو مطلع فرماتے رہے یہاں تک کہ 1974ءمیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم)نے سابق وفاقی وزیر کوثر نیازی کے ذریعے مرکزی رویت ہلال کمیٹی اس شرط پر بنوائی کہ حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ اس کی چیئرمینی قبول فرمائیں۔ خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے 1969ءمیں سوشلزم کے نام سے اٹھنے والے فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس لادینی نظام کے خلاف معرکۃ الآراء جدوجہد فرمائی۔پورے ملک میں طوفانی دورے کئے اور لوگوں کو اس سوشلزم کے نعرے کے فریب سے آگاہ کیا اور سرشلزم کے فتنے کو اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ تو نے رکھا پرچم اسلام دنیا میں بلند تجھ پہ نازاں کیوں نہ ہو دارالعلوم دیوبند حضرت خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کو اللہ رب العزت نے لحن دائودی سے نوازا تھا۔حضرت خطیب پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت بھی عطا فرمائی تھی کہ حضرت کے خطاب کو ہر طبقۂ زندگی کے لوگ پسند فرماتے تھے۔حضرت خطیب پاکستان کو قرآن کریم سے عشق تھا۔ حضرت نے ریڈیو پاکستان پر قرآن کریم ریکارڈ کرایا اور باوجود اصرار کے کوئی معاوضہ نہیں لیا اور اپنے لئے ذخیرۂ آخرت بنایا۔خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے ایک عرصۂ دراز تک ریڈیو پر بلامعاوضہ درس قرآن دیا۔اخبار جنگ میں درس قرآن اور دیگر اخبارات میں درس حدیث بھی دیتے رہے۔ حضرت خطیب پاکستان نے کئی ممالک (جن میں آسٹریلیا،برما، برطانیہ، بھارت، جنوبی افریقہ، زیمبیا،کینیا، نیروبی،چین وغیرہ شامل ہیں)میں تبلیغی اسفار بھی کئے اور وہاں کے لوگوں کی دینی ضرورت کو پورا کیا۔حضرت خطیب پاکستان نے مارچ 1980ء میں زندگی کا آخری سفر بھارت کا کیا جہاں حضرت نے دہلی، سہارن پور، دیوبند اور مدارس وغیرہ میں سیرت کانفرنس اور دیگر جلسوں میں خطاب فرمایا اور وہاں کے مسلمانوں کو اپنے سحر انگیز انداز بیان سے عوام کے قلوب کو اسلامی تعلیمات سے منوّر کیا اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ایک ایک دن میں کئی کئی جلسوں سے خطاب فرمایا۔حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کو 24؍جمادی الاولیٰ 1400ھ؍11؍اپریل 1980ء بروز جمعۃ المبارک کی صبح ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا اور حضرت خطیب پاکستان اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔اللہ تعالیٰ حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ کے درجات کو مزید بلند فرمائے اور اعلیٰ علین میں مقام عطا فرمائے۔ حضرت خطیب پاکستان کا جسد خاکی پی آئی اے کی خصوصی پرواز کے ذریعے دہلی سے کراچی لایا گیا اور نماز جنازہ میں بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی اور حضرت کی تدفین مرکزی جامع مسجد جیکب لائن کے عقب میں کی گئی۔حضرت کے وصال کے بعد سے خطابت کا میدان ایسے بے مثل،جرّی، بے باک خطیب سے آج تک خالی ہے۔ اچانک دے گیا داغ جدائی فضائے قدس اس کو راس آئی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر گانے بجانے والوں کے تو دن بھی منائے جاتے ہیں اور ان کی یاد میں کئی گھنٹے کے پروگرام کئے جاتے ہیں اور بڑے بڑے کالمز لکھے جاتے ہیں مگر کبھی کسی عالم دین کے بارے میں کسی اخبار میں کوئی کالم آتا ہے اور نہ الیکٹرانک میڈیا پر ملک کے ایسے نامور علمائے کرام سے متعلق کوئی پروگرام کیا جاتا ہے۔میڈیا ویلنٹائن ڈے اور اپریل فول کے بجائے یوم پاکستان پر حضرت علامہ ظفر احمد صاحب عثمانی ؒ،حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے بارے میں آج کی نئی نسل کو بتائے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں پرچم لہرانے والے یہ دو علماء تھے تو آج کی اس نسل کو بھی معلوم ہو گا کہ وطن عزیز اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔اس خطۂ زمین کے حصول کا مقصد ناچ گانے،رقص و سرور اور فحاشی،بدتمیزی و بدتہذیبی نہیں بلکہ اسلامی احکام کا نفاذ تھا۔حضرت خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی عبقری شخصیت نسل نو اور علماء و طلباء کیلئے مشعل راہ ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے ہم سب کو اپنی آخرت سنوارنی چاہئے۔