• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شعبہ انصاف پارلیمنٹ کی ترجیح نہیں، انصاف کی جلد فراہم کیلئے 17 رپورٹیں دے چکے،ایوان نے کسی پر مکمل عمل نہیں کیا،ماڈل سول کورٹس بھی بنائیں گے،چیف جسٹس

اسلام آباد (حنیف خالد) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں، جلد انصاف کی فراہمی کیلئے پارلیمنٹ کو 17؍ رپورٹیں دے چکے ہیں، ایوان نے کسی پر مکمل عمل نہیں کیا، امریکی سپریم کورٹ سال میں 80؍ برطانوی 100؍ مقدموں کا فیصلہ کرتی ہے جبکہ ہم نے سال میں 26؍ ہزار مقدمات نمٹائے، ججوں کو ڈو مور نہیں کہہ سکتے، موجودہ عدالتی پالیسی ہم نے یہ بنائی ہے کہ سستے اورفوری انصاف کی راہ میں تمام رکاوٹوں کوختم کردینا چاہیے، اب وکیل کے ہونے نہ ہونے سے سماعت نہیں رکے گی، گواہوں کو پیش کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہوگی، فیصلہ چند روز میں سنایا جائیگا، جانشینی کیلئے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کیلئے عدالتوں میں جانا نہیں ہوگا بلکہ نادرا یہ سرٹیفکیٹ کمپیوٹر کا ایک بٹن دبا کر فیملی ٹری جاری کردیا کریگی،بے دخلی قانون کا جائزہ لینے کیلئے سپریم کورٹ کا 7؍ رکنی بنچ بنایاہے، 10؍ دن میں ماڈل کرمنل کورٹس کی شاندار کارکردگی مانیٹر کی ہے یہ 116؍ برادر جج ہمارے ہیرو ہیںانہیں سلیوٹ کرتے ہیں،ملک بھر میں 116ماڈل کریمینل کورٹس کی شاندار کارکردگی کے بعد چاروں صوبوں میں سول ماڈل کورٹس تشکیل دینے کااعلان کیاہے، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ماڈل کورٹس سسٹم میں بھرپور تعاون کیا، ملک بھر کے متعلقہ تمام حکام نہ صرف ماڈل کرمنل کورٹس بلکہ بننے والی سول ماڈل کورٹس کے جج صاحبان سے بھرپورتعاون کریں۔ وہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں فوری انصاف اورمعینہ کم میعاد میں کریمنل کیسوں کے مقدمات کے فیصلے کرنے کے روڈمیپ کے موضوع پرمنعقدہ نیشنل کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے کلیدی خطاب کررہے تھے۔ ان سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر، لاہور ہائی کورٹ بلوچستان ہائی کورٹ،پشاور ہائیکورٹ اورسندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے اپنی اپنی ہائی کورٹ کے حوالے سے ٹودی پومئنٹ خطاب کیا۔ کانفرنس میں ایک سو16ماڈل کریمینل کورٹس کے سربراہ جج صاحبان کے علاوہ پراسیکیوٹر جنرلز،متعلقہ وفاقی وصوبائی سیکرٹریوں اورملک بھر کے ضلعی سیشن جج صاحبان نے شرکت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے116ماڈل کورٹس کے جملہ ججوں کواپنا پاکستان عدلیہ کاہیرو قرار دیتے ہوئے ان کو سلیوٹ کیا۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پاکستان کی پارلیمنٹ اوراسمبلیوں کے ارکان سے کہاکہ وہ عدلیہ کی طرح قوم کوسستااورفوری انصاف فراہمی میں حائل قانونی رکاوٹیں دور کرنے کی قانون سازی کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی 22کروڑ ہے جان نشینی کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کیلئے عدالتوں میں جانا ضروری نہیں ہوگا، بلکہ نیشنل ڈیٹا بیس ریگولیٹری اتھارٹی (نادرا)جان نشینی کے سرٹیفکیٹ کمپیوٹر کاایک بٹن دباکر(Family Tree)یعنی خاندانی شجر جاری کردیا کریگی۔ نادرا اسے ملک بھر کے خاندانوں کو (Family Tree)مکمل کرنے کیلئے معقول وقت دیگی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ امریکا کی سپریم کورٹ سال بھر میں80،90مقدمات کافیصلہ کرتی ہے۔ سپریم کورٹ آف یوکے نے ایک سال میں ایک سو مقدمات کا فیصلہ سنایا۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک سال میں26ہزار سے زیادہ مقدمات کے فیصلے سنائے۔پاکستان بھر میں جج صاحبان کی تعداد3ہزارہے۔جبکہ انہوں نے سن 2018میں 34لاکھ مقدمات کافیصلہ کیا۔اس لئے ہم اپنے برادر جج صاحبان کو ڈومور کرنے کا نہیں کہہ سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ عدالتی پالیسی ہم نے یہ بنائی ہے کہ سستے اورفوری انصاف کی راہ میں تمام رکاوٹوں کوختم کردینا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی مقدمے کاوقوعہ کیس14دن کے اندر(مکمل نامکمل)چالان تیار ہوجانا چاہیے اسکے بعد تین دن میں وقوعہ کے چالان کوکورٹ میں پیش کرناضروری ہوگا جہاں کی پولیس یہ نہ کرے اس سے آئی جی پولیس کونئے سسٹم کے تحت رپورٹ کردیاجائیگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری پالیسی میں دوسرا قدم یہ ہوگا کہ جب چالان کورٹ میں آجائےتو عدالت دونوں فریقوں کے وکلاء کو آن بورڈ لے اور ان وکلاء کوبٹھا کرشیڈولنگ کیس کی سماعت کاشیڈول بنائیں۔ انگلینڈ میں یہی پالیسی ہے وہاں کی عدالت سماعت کا نظام اوقات بناتی ہے اورپھر سماعت کی تاریخ چاہے وہ ایک سال بعد کی ہودونوں فریقوں کے وکلاء کو دے دیتی ہے اورکم وبیش تین دن میں اس مقدمے کی سماعت کرکے فیصلہ سنادیتی ہے۔ تاریخ وقوعہ سے تاریخ کی سماعت تک عرصے میں تمام تقاضے پورے کردیئے جاتے ہیں کیس کی سماعت کاشیڈول جب فریقین کے مشورے سے طے ہوجاتاہے تو پھر فائنل شیڈول کے مطابق سماعت ہوتی ہے اورسماعت کوبلاتعطل کیاجاتاہے سماعت کےدوران فریقوں کے وکلاء کوفاضل عدالت شیڈول آف ٹرائیل کاسرٹیفکیٹ جاری کردیتی ہے اسی شیڈول کے دوران دونوں فریقوں کے وکلاء کی اگر ہائی کورٹ یاسپریم کورٹ میں کسی اورمقدمے میں پیشی ہوتو ٹرائیل کورٹ کے سرٹیفکیٹ پرسرکاری ہائی کورٹ یاسپریم کورٹ اپنا مقدمہ کسی اورتاریخ تک ملتوی کردیتی ہے۔مگر ٹرائیل کورٹ میں مقدمے کی سماعت شیڈولنگ آفس کیس کے مطابق جاری رہتی ہے ٹرائل کورٹ اسےملتوی نہیں کرتی مقدمے کی سماعت شیڈول کے مطابق ہوتی رہتی ہے۔چیف جسٹس سعید کھوسہ نے کہا کہ مقررہ تاریخ پروکیل اگر بیمارہوجائے تو برطانیہ میں عدالت سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی انکے جونیئرزاورایسوسی ایٹس وکلا کی لسٹ حاصل کرلیتی ہے وکیل بیمارہوجائے تو وہ اپنا جونیئراورجونیئر دستیاب نہ ہوسکتے تواسکے ایسوسی ایٹس وکیل کومقدمے کی پیروی کیلئے بلالیتی ہے پاکستان بھر میں بھی ہم ایسا کرنے جارہے ہیں ہم بلاتعطل مقدمے کی سماعت کرکے فیصلے کیاکرینگے کسی وکیل کے ہونے نہ ہونے سے مقدمے کی سماعت نہ بحث رکاکریگی بلکہ اس وکیل کے مقرر کردہ جونیئر، نائب اورمعاون وکیل کوسماعت میں حاضرہونا لازمی کر دیگی۔ اسی طرح پراسکیوٹر بھی مقدمے کی سماعت کے دوران غیر حاضر نہیں ہوا کریگابیماری یا کسی ناگہانی صورت میں پراسیکیوٹر کی جگہ پراسکیوٹر جنرل متبادل پراسکیوٹر بھیجنے کا پابند ہو گا۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ تیسرا مرحلہ گواہوں کی پیشی کا ہوتا ہے کم و بیش 50 سالوں سے انکا تجربہ ہے کہ گواہ کی عدم پیشی کی بنا پر سماعت ملتوی کر دی جاتی ہے لیکن ہم مجوزہ حکمت عملی کے مطابق اسٹیٹ کو گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری دینگے اگر اسٹیٹ کی ایک ایجنسی یہ کام نہیں کریگی تو ہم اسٹیٹ کی متبادل ایجنسی کو کام دینگے مگر مقدمے کی سماعت چند روز میں کر کے فیصلہ سنایا کرینگے ہماری 116 ضلعی کریمنل ماڈل کورٹس جو یکم اپریل 2019ء سے کام کرنے لگی ہے اس کے ساتھ ہماری اسٹیٹ اور تمام ادارے بھرپور تعاون کر رہے ہیں پولیس گواہان کو لا رہی ہے تمام آئی جی پولیس تعاون کر رہے ہیں تمام متعلقہ محکموں میں فوکل پرسن مقرر ہو گئے ہیں پولیس گواہ کو مقررہ تاریخ پر پیش کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جیل حکام اور اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ قیدیوں کو کورٹ میں پیش کرنے والی وین خراب نہ ہو ہم سپرنٹنڈنٹ جیل کو ہدایات کر رہے ہیں کہ وہ ملزم کو کورٹ لانے والی گاڑی ہر لحاظ سے اچھی حالت میں ہو کم از کم ماڈل کورٹس کے ملزموں کی گاڑی راستے یا واپسی پر خراب نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ قتل اقدام قتل حادثے وغیرہ کے فوجداری کیس میں سرکاری اسپتال میں جو ڈاکٹر رپورٹ بناتا ہے وہ مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود ہو اگر اس ڈاکٹر کا تبادلہ کہیں ہو گیا ہو تو محکمہ صحت اس ڈاکٹر کی عدالت میں مقررہ تاریخ پر پیشی یقینی بنائیگا محکمہ صحت کا فوکل پرسن متعلقہ ڈاکٹر یا اسکے بیمار یا ناگہانی طور پر حاضر نہ ہو سکنے کی صورت میں متبادل ڈاکٹر پیش کربگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران کیمیکل ایگزامینر فرانزک لیب وغیرہ کے متعلقہ لوگ سماعت کیلئے ان ٹائم رپورٹ دیں ایسا نہ کرنے پر متعلقہ اتھارٹی ایکشن لینے کی ذمہ دار ہو گی ہم نے قانونی پروسیجر تبدیل کئے بغیر 10 دن میں ماڈل کریمنل کورٹس کی شاندار کارکردگی مانیٹر کی ہے یہ 116 برادر جج بھیجتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی نشستوں پر کھڑے ہو جائیں جب وہ کھڑے ہو گئے تو چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہ ہمارے ہیرو ہیں ہم ان کو سیلوٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوانین اور پروسیجر میں تبدیلی سے فر ق نہیں پڑا جب تک ہماری پارلیمنٹ انصاف کے شعبے کو ترجیح نہیں دیگی، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی میں معقول تیز رفتاری نہیں آئیگی لاء کمیشن نے پارلیمنٹ کو 17 رپورٹیں دے رکھی ہیں کہ پارلیمنٹ میں ان قوانین میں ترمیم درکار ہے مگر کسی رپورٹ پر پارلیمنٹ نے مکمل ضروری عمل نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو انصاف کے شعبے میں عدلیہ کی طرح دلچسپی لینا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سول کیس میں ایشو فریم کرنا ہو گا ریونیو اہلکار دستاویز پر فیس مقرر کرتا ہے مگر دوسرا فریق اسکو چیلنج کر دیتا ہے اسکے بعد اپیلوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ اس کا سادہ حل ہے کہ کورٹ فیس فکس کر دی جائے جنرل فیس معقول ہو اس پر تنازع نہیں ہو گا۔ قانون میں صرف ایک سطر لکھ دی جائے کہ سول کیس پر ایک سو روپے یا 500 روپے یا ایک ہزار روپے یا 5 ہزار روپے کورٹ فیس ہوا کریگی اس ایک سطر سے ہمارے جوڈیشل سسٹم میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مقدمہ بازی سے بچ جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا قانون جان نشینی ایکٹ ہے پاکستان میں 2 سو بیس ملین لوگ ہیں ان میں سے 10 کروڑ منقولہ اثاثوں کے مالک ہیں جو کم از کم بائی سائیکل، سلائی کی مشین، بنک میں پڑے سو یا اس سے زیادہ روپے وغیرہ کے مالک ہیں ان منقولہ اثاثے تقسیم کرنے کیلئے (Successor) کا سرٹیفکیٹ کورٹ سے جاری کر دیا جاتا ہے اسکے اجراء کیلئے ایک سے زائد پیشیاں بھگتنا پڑتی ہیں حالانکہ پاکستان میں 95 فیصد جان نشینی کے معاملات میں کوئی تنازع نہیں ہوتا صرف کم و بیش 5 فیصد میں کوئی جھگڑا ہوتا ہے جان نشینی کے لاکھوں مقدمات کا ہم یہ حل ڈھونڈ رہے ہیں کہ نادرا 4 ماہ کے اندر عوام کو خاندانی شجرا مکمل کرنے کی مہلت دیں اسکے بعد جان نشینی کا سرٹیفکیٹ لوگ عدالتوں میں جا کر حاصل کرنے کی بجائے نادرا سے حاصل کر لیا کریں اس طرح لاکھوں سول مقدمات عدالتی نظام پر بوجھ نہیں بنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری عدالتوں پر حق شفعہPre-emption ایکٹ نافذ ہیں صدیوں سے قبائلی لوگ اور دوسرے لوگ اسکے تابع ہیں مگر اب یہ قانون ہمارا نہیں ہے۔ (freedom of contract) برابر ہے آئین کے آرٹیکل 23 اور 24 میں ہر ایک کو پراپرٹی حاصل کرنے کا بنیادی حق حاصل ہونا چاہیے۔ قانون سازی کرنے والے اس پر غور کریں۔ لاتعداد مقدمات خود بخود ختم ہو جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے کم و بیش تمام بڑے شہروں میں کثیرالمنزلہ عمارتیں ہیں (Multi storey Buildings) ہیں ایک فلیٹ کا مالک دوسرے کو بلیک میل کر رہا ہے قانون ساز اسمبلی اس قانون پر بھی غور کرے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بے دخلی قانون (Epossession-Act) 2002 جوغالباً غیر قانونی ہے میں آج بھی اس قانون کو نہیں سمجھتا ہماری دیوانی اور فوجداری عدالتیں مقدمات ضرور سن رہی ہیں پراپرٹی مقدمات ایس ایچ او کی رپورٹ پر طے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ بنایا ہے جو بے دخلی کے قانون کا جائزہ لے رہا ہے وکلاء بھی کہتے ہیں کہ بے دخلی قانون ہماری سمجھ سے بالا تر ہے یہ غلط استعمال ہو رہا ہے اس قانون میں جو فیصلہ آ جائے اس کے خلاف اپیل کا حق تک نہیں ہے قانون سازوں کو اس کو بھی (Clarify) کرے۔ اسکی وضاحت کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں انسداد دہشت گردی ایکٹ بھی نافذ ہے مگر سوچنے کی بات ہے کہ اس ایکٹ میں ہر چھوٹا بڑا جرم شامل کر لیا جاتا ہے۔ چوری، راہ زنی، قتل، اقدام قتل، زنا وغیرہ کو شامل کر لیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا انہوں نے سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ دہشت گردی کی تعریف کا تعین کرنے کیلئے بنایا جس نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے یہ مقننہ کا کام تھا اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آسان عام فہم قوانین بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ماڈل کورٹس کیلئے اس لائحہ عمل کی منظوری دی جو ڈائریکٹر جنرل ماڈل کورٹس نے تشکیل دیا اسکے مطابق جب ماڈل کورٹس کا جج کیس کی سماعت کرے تو پورے دن کی سماعت کے اہم نکات کو اپنے فیصلے میں شامل کرنے کیلئے فیصلے کے حصے کے طور پر لکھ لیا کرے اور جب یہ سماعت مکمل ہو تو اسی شام کی اگلی صبح فیصلہ سنا دیا کرے۔ مقدمے کا فیصلہ لکھنے کیلئے مقدمے کا فیصلہ زیر التواء نہ رکھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے 50,40 سالہ قانون کا تجربہ نئی نسل کو ٹرانسفر کر رہے ہیں۔ وکلاء جیل حکام، محکمہ صحت، کیمیکل ایگزامنر اور ہر اتھارٹی کیلئے آئیڈیاز دینا آسان ہیں مگر اسے عملی جامہ پہنانا مشکل ہے۔ ماڈل کورٹس کے ڈائریکٹر جنرل سہیل ناصر جو ہمارے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہیں، ہمارے ماڈل کورٹس سسٹم اور عدلیہ کے دل ودماغ ہیں وہ دن رات ایک کرکے ماڈل کورٹ پراجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کر رہے ہیں۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈیمی لاجسٹک کے ڈائریکٹر جنرل حیات علی شاہ نے ماڈل کورٹ کیلئے لاجسٹک سسٹم دیا اکیڈیمی میں سب کچھ ماڈل کورٹ کی کامیابی کیلئے رہا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے ماڈل کورٹ سسٹم میں بھرپور تعاون کیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں بیٹھ کر وہ تمام اضلاع میں کیسوں کی سماعت کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سول جج لاڑکانہ کی اسی روز کی کارکردگی کو بٹن دبا کر کمپیوٹر پر دیکھ لیتے ہیں اور کمپیوٹر جنریٹڈ میسج اسی جج صاحب کو چلا جاتا ہے کہ انکی پرفارمنس بہتر نہیں اپنے آپ کو بہتر کریں۔ چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ سے ماڈل کورٹس پراجیکٹ کیلئے ایک ہفتے کیلئے اپنا آئی ٹی اسٹاف بھجوایا۔ ماڈل کورٹس کے 116 پریذائیڈنگ جج پاکستانی قوم کے جوڈیشل ہیروز ہیں انکا ہمیں بے حد احترام ہے کیونکہ وہ ماڈل کورٹ کی گاڑی کو قانون کے مطابق چلا رہے ہیں ان کو اپنے چیتے کہوں گا جو مقدمات پر لپک جاتے ہیں اور فیصلہ کئے بغیر سماعت کو ملتوی نہیں کرتے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بتایا ہے کہ کینیڈا کے چیف جسٹس نے 30 سال پہلے استعفیٰ دیا اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ 20 سال تک وہ شوق و ذوق، جذبے Passion سے کیس سنتے رہے لیکن اب وہ محض جاب کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے بتایا کہ 1998 میں وہ بطور جج لاہور ہائی کورٹ میں شامل ہوئے وہ گزشتہ صدی کے آخری جج ہیں اس سے قبل 20,19 سال انہوں نے وکالت کی نصف صدی کا قانون کا سفر طے کرتے ہوئے انہوں نے ماڈل کورٹس کا تصور پیش کرکے اس پر عملدرآمد کیا۔ 1998 میں انکے علاوہ نئے دوسرے سینئر وکلاء لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تھے ان 10 کے 10 نئے جج صاحبان کا یہ مشن تھا کہ پاکستان میں فوری اور سستا انصاف ہو لاہور بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل نے ہمیں جنون گروپ کہنا شروع کیا۔ میں آج واضح کر ہوں کہ ہمارا یہ جنون مرا نہیں آج بھی زندہ ہے۔ ماڈل کورٹ کا بنیادی تصور اسی 50 سال کے تجربے کے پس منظر سے ہے آئین کے آرٹیکل 37-P میں لکھا ہے کہ ریاست سستا اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ آئین کے آرٹیکل 27 میں ای کیلئے اسٹیٹ کو ذمہ داری سونپی ہے جوڈیشری اسی لئے خود قدم اٹھا رہی ہے۔

تازہ ترین