• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 آج کی تیز رفتار زندگی میں جہاں ذرائع نقل و حمل کے لیے جدید ذرائع ایجادہوگئے ہیں، وہاں آج بھی گدھوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، کراچی جیسے بڑے شہر کے قدیم علاقوں کی مارکیٹوں میں باربرداری کے لیے اس کا استعمال آج بھی بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ ضلعی حکومت ان پر پابندی اور صوبائی حکومت ان کی سرکاری سطح پر دوڑ کا اہتمام کرتی ہے ۔ گدھا گاڑی سندھ کی قدیم ثقافت کی شناخت ہے۔

گدھا گاڑی دوڑکا آغاز کب اور کہاں سے ہوا، اس کا بیان کرنا مشکل ہےلیکن اسپورٹس سے متعلق تحقیقی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا میں اس کی شروعات برصغیر پاک وہند سے ہوئیں۔ ان کے مطابق ان دوڑوں کے شروع کرنے والے دھوبی تھے اور آج بھی ان دوڑوں میں زیادہ دل چسپی کا مظاہرہ بھی ان ہی کی جانب سے کیا جاتا ہے، جب کہ دوسرے نمبر پر بلوچ بھائی آتے ہیں۔ ڈنکی ریس کراچی کا قدیم ترین کھیل مانی جاتی ہے۔ یہ ریس کراچی کے علاوہ حیدرآباد، میرپور خاص، ٹنڈو آدم، ٹنڈو محمد خان اور سکھر میں بھی ہوتی ہے، لیکن ریس کا مرکز کراچی ہی کو ماناجاتا ہے، جہاں ضلع جنوبی اور ملیر میں یہ دوڑیں ہوتی ہیں۔ ڈنکی ریس دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ،جو گدھا گاڑی والے خود شرط لگا کر کرتے ہیں، تو دوسری ریس ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن کرواتی ہے۔

ریس با قاعدگی کے ساتھ گزشتہ دس برس سے ہو رہی ہے۔ گدھا گاڑی ریس تین درجوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اوّل درجے میں چھوٹے، دوم میں درمیانے اور سوم درجے میں بڑے گدھے شامل ہوتے ہیں۔ ہردرجے میں 10 سے 20 گدھے شامل کیے جاتے ہیں۔ ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ہونے والی دوڑ کو باقاعدہ اسپورٹس کا حصّہ مانا جاتا ہے اور دوڑ میں شامل گدھوں کے نام ملکی و بین الاقوامی ہیروز کے نام پر رکھے جاتے ہیں، جنہیں سن کر لوگ مُسکرا اُٹھتے ہیں۔بعض ذرائع کے مطابق، دوڑ سے پہلے گدھوں کو ہیروئن، چرس اور دیگر نشہ آور اشیاء بھی دی جاتی ہیں تاکہ وہ دوڑ جیت سکیں۔ اس کھیل کے ایک شوقین کا کہنا ہے کہ اکثر گدھا مالکان، اپنے گدھوں کو جتوانے کے لیے عاملوںسے تعویز بھی حاصل کرتے ہیں، دورانِ دوڑ، اکثر گدھوں کے گلے میں تعویز نظر آتے ہیں۔ سامانِ رسد اِدھر سے اُدھر پہنچانے میںگدھے مالکان کی خدمت کرتے تھے، لیکن یہاں معاملہ اُلٹا نظر آتا ہے۔ مقابلے میںدوڑنے والے گدھوں کو اچھی سے اچھی غذا کھلائی جاتی ہے،اُن کی خوب مالش کی جاتی ہے اور آرام کا ہر طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ ریس سے قبل گدھوںکو ریس کے مقام پر ٹرک میں لوڈ کر کے لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ ریس سے قبل تازہ دم رہیں۔ ڈنکی ریس کراچی کے شہریوں کے لیے تفریح کی حیثیت رکھتی ہے، خاص طور پر ملیر اور لیاری کے لوگ اس کے بے حد مداح ہیں۔ اس ریس میں لوگوں کی دل چسپی دیکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پہلی بار اس کی سرکاری سطح پرسرپرستی شروع کی تھی، اب ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن حکومت کی نمائندگی کرتی ہے۔ڈنکی ریس میں مختلف برادریوںکے افراد حصّہ لیتے ہیں، جن میں لیاری کے قدیم باشندے اوربھارت سے ہجرت کرکے آنے والے دھوبی برادری کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈنکی ریس میں سب سے خوب صورت گاڑیاں بھی دھوبیو ہی کی ہوتی ہیں۔ ایک گدھا گاڑی والے کے مطابق، ریس میں دوڑنے والے گدھے کی خوراک کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ اس سے کوئی کام نہیں لیا جاتا، جب کہ جوگدھے سامان اٹھانے کے کام آتے ہیں، وہ ریس میں نہیں دوڑ سکتے۔ مقابلوں کی انعامی رقم بہت کم ہوتی ہے۔ ڈنکی کارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ہونے والی ریس میں 10 ہزار سے 30 ہزار تک کا انعام دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار اس ریس میں 50 ہزار روپے تک کا بھی انعام ہوتا ہے۔ کراچی میں یہ ریس زیادہ تر بلدیہ ٹاؤن سے حب چوکی تک ہوتی ہے، جب کہ سٹی گورنمنٹ کے زیر اہتمام گدھا گاڑی ریس نیٹیوجیٹی پل سے شروع ہو کر کلفٹن پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ جب ریس شروع ہوتی ہے، تو گدھوں کے آگے پولیس کی موبائلیں موجود ہوتی ہیں تاکہ روڈ پر کوئی دوسری گاڑی نہ آسکے۔

گدھا، زیبرا اور خچر وٹٹو، گھوڑے کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر یہ کئی خصوصیات میں عام گھوڑے سے تفریق رکھتے ہیں۔ مثلاًگدھے اور گھوڑے میں ایک فرق کانوں کی بناوٹ کا ہوتا ہےگدھے یا خر کے کان، عام گھوڑے کی نسبت بڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کی گردن اور جسمانی ہیئت بھی مختلف ہوتی ہے۔ کمر گھوڑے کی نسبت زیادہ سیدھی جبکہ گدھے کی دم گھوڑے کی نسبت کھردری ہوتی ہے۔اس کے کھر چھوٹے اور گولدار اور نسبتاً اوپر کی جانب مڑے ہوتے ہیں۔ ٹانگیں مضبوط اور ہڈیاں سخت ہوتی ہیں حالانکہ گدھے کے مشاہدے پر اس کی ٹانگیں کمزور اور کھر بہت معمولی محسوس ہوتے ہیں لیکن تیز دوڑنے میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی معاشرے میں لفظ ’’گدھا‘ ‘اکثر کسی کی تذلیل یا کسی کو نکما، بے عقل اور احمق ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ یہی گدھے ہم انسانوں کی زندگی سہل بنانے میں دن رات جتے رہتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہہ ہمارے ملک میں گدھا سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا جانور ہے، شاید یہ شعور کی کمی ہے کہ2018ء کے انتخابات کے زمانے میں کراچی میں ایک سیاسی جماعت کےکارکنوں نے مخالف سیاسی جماعت کی تذلیل کے لیے گدھے پر ایک سیاسی لیڈر کا نام لکھا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ’’گدھےپن ‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئےاسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔اس بے زبان جانور کی ناک کی ہڈی توڑدی گئی، جبڑے الگ کردیے گئے، منہ اور پیٹ پر اس قدر ظلم ڈھایا کہ وہ بیچارا کھانے پینے سے بھی محروم ہوگیا۔ اس موقع پر حیوانوں سے محبت کرنے والے ایک نجی ادارے ’’ انیمل ریسکیو سینٹر ‘‘نےحیوانی ہمدردی کا ثبوت دیتے ہوئےخموں سے چورگدھے کو وہاں سے اٹھایا، اسے طبی امداد فراہم کی گئی ،اس کی نگہداشت کی اور تین روز بعد مکمل دیکھ بھال کے بعد وہ کھڑا ہونے کے قابل ہوا۔زخمی گدھے کی قوت برداشت کو دیکھ کر اسے ’ہیرو‘ کاخطاب دیا گیا۔ لیکن ابھی ہیرو کا علاج جاری تھا کہ کہ گلشن اقبال میں ایک اور گدھا سیاسی تشدد کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سیاسی مخاصمت کا بدلہ اس معصوم جانور پر تشدد کرکے لیا گیا اور اس کا سر لوہے کا سریا مار کر پھاڑ دیا گیا۔ بڑے شہروں میں ذرائع نقل و حمل کے لیے اس قدیم سواری کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے لیکن اندرون سندھ کے متعدد شہروں میں گدھا گاڑی کا استعمال اب بنی ہنوز جاری ہے۔ گدھا گاڑیاں یوں تو مال برداری کا سستا ذریعہ رہا ہے، اور موٹر گاڑیوں کےبے تحاشا تعداد نے ان کی اہمیت کو ختم نہیں کیا، گو کہ ان گدھا گاڑیوں کی شاہراہوں پر موجودگی کے سبب ماحولیاتی آلودگی کےعلاوہ ٹریفک کی روانی میں بھی خلل واقع ہوتی ہے۔ اس لئے ضلعی حکومتیں وقتاً فوقتاً دن کے اوقات میں ان گاڑیوں کو کاروباری اور مصروف شاہراہوں پر داخلے پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کرتی ہیں۔ جو ابتدائی چند دن کار آمد ثات ہونے کے بعد محض ردی کا ٹکڑا بن جاتاہے۔ حالاں کہ شہر کی سڑکوں سے آہستہ آہستہ ناپید ہونے والی گدھا گاڑیوں کو حکومتی سطح پر مقامی ثقافت کا سنہرا دور قرار دیتے ہوئے گدھا گاڑیوں کی دوڑ کا اہتمام کیا جاتاہے۔ جس میں وزراء ، بیورو کریٹس خصوصی طور پر شرکت کرتے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے شکارپور میں ایک سانحے کے موقع پرپر گدھا گاڑیوں کا استعمال بہ طور ایمبولینس گاڑیوں کے کیا گیا۔ 

تازہ ترین