• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضلع تھرپارکر کا شمار سندھ کے انتہائی پسماندہ خطےمیں ہوتا ہے، جہاں غذائی قلت کی وجہ سےبڑی تعداد میں بچے اور بڑے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔بھوک و پیاس کا شکار ہونے والےافراد کی ہلاکتوں کی خبریں روزانہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے ہر خاص و عام تک پہنچتی ہیں لیکن حکومت اور حزب مخالف کو آپس کی لڑائیوں سے فرصت نہیں ملتی ہے۔ذرائع ابلاغ پر حکومتی و حزب مخالف کے سیاسی اکابرین کی جانب سے ایک دوسرے کی کردار کشی کی جاتی ہے، ایک دوسرے کی کرپشن اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے بارے محیر العقول انکشافات کیے جاتے ہیں جب کہ مقننہ کےایوانوں میں قانون سازی کرکے ملک و قوم کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے یا عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کی بجائے صوبائی و قومی اسمبلی یا سینیٹ کے فلور پر ایک دوسرے پر جگت بازی کرتے ہیں، تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ جب اس سے بھی انہیں قلبی و روحانی سکون نہیں ملتا تو ایوان کو اکھاڑہ بنا کر دنگل شروع کردیتے ہیں۔آج پاکستانی سیاست میں این آر او، پلی بارگیننگ اور ایمنسٹی اسکیم کا چلن عام ہے جو ’’مک مکاؤ‘‘ کا جدید انداز ہے۔ اس کی وجہ سے کسی بھی سیاسی رہنما کی توجہ صحرائے تھر کے باشندوں کو گزشتہ 8سال سے درپیش صورت حال کی جانب توجہ مبذول نہیں ہوسکی۔ گزشتہ ماہ تھر میں غذائی کمی کے باعث 3 بچے دم توڑ گئے تھے ،جب کہ ابھی 121 بچے مختلف سرکاری اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، مارچ میں بھوک کے ہاتھوں مرنے والے بچوں کی تعداد 26 جبکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران 153 ہوگئی ہے ۔اس طرح گزشتہ 8سالوں کے دوران غذائی قحط کا شکار ہونے والے افراد کی ہلاکتوں کی تعداد 500 سے زائد ہے۔تھرپارکر کے قدرتی حسن کی علامت مور اور دوسرے پرندے بھی قحط سالی کا شکار ہیں اورصحرائے تھر کے قدرتی حسن، ان خوب صورت پرندوں کو مرنے سے بچانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ اس کے علاوہ تھر کا لائیو اسٹاک سیکٹر بھی متاثر ہورہا ہے اور پینے کاپانی اور چارہ نہ ملنے کی وجہ سے مویشیوں کی ہلاکت کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

جہاں انسانوں کے لئے اناج نہیں وہیں بے زبان پرندے بھی بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر مر رہے ہیں۔ نگرپارکر، اسلام کوٹ اور ڈیپلو میں دو ماہ کے دوران چھ سو سے زائد مور ہلاک ہوچکے ہیں۔ تھرکے باسیوں کا کہنا ہے کہ تھر میں جو کنویں تھے وہ بھی سوکھ گئے ہیں جس کے باعث پانی کی شدید قلت کاسامنا ہے اس لیے مور وں کی اموات واقع ہورہی ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران سیکڑوں کی تعداد میں اس حسین پرندے کی ہلاکت ہوئی ۔ڈپٹی کمشنر تھرپارکر محمد آصف جمیل،سندھ حکومت کے ارباب و اختیارات کو ایک رپورٹ ارسال کی ہے جس میں انہوںنے قحط کی صورت حال اور قحط زدگان کے لیے اصوبائی حکومت و ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے تھرپارکر میں قحط زدگان کے لیے امدادی سرگرمیوں، صحت کی سہولتوں اور بچوں کی اموات سے متعلق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ارسال کردہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ مٹھی سمیت ضلع کی تمام متعلقہ اسپتالوں میں پانچ سال سے کم عمرکے 128 بچے علاج کے لیے داخل کیے گئے۔ اسی طرح 39 بچے صحت یاب ہوکر گھر چلے گئےجب کہ باقی 83 بچے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ضلع کے تمام سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈی میں 571 بچوں کا علاج کیا گیا۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سول اسپتال مٹھی نے انہیں بتایا ہےکہ سول اسپتال مٹھی میں 3 بچے غذی کمی کی وجہ سے فوت ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر تھرپارکرنے قحط متاثر خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کرنے کے متعلق رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ تھر کے قحط سےمتاثر ہ خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کرنے کا تیسرا مرحلہ جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر تیسرے مرحلے کے تحت 2697 خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر پہلے مرحلے کے 2 لاکھ 47 ہزار 532، دوسرے مرحلے کے 2 لاکھ 52 ہزار 792 اور تیسر ے مرحلے کے اب تک ایک لاکھ 87 ہزار 295 خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کی جاچکی ہے۔ حاملہ اور نومولود بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین میں راشن بیگ کی تقسیم کا تیسرا مرحلہ 26 جنوری سے شروع کرکے روزانہ کی بنیاد پر 3402 خواتین میں راشن بیگ تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں اب تک 27698 راشن بیگ تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ اسی طرح پہلے مرحلے میں 36636 اور دوسرے مرحلے میں 66691 حاملہ اور نومولود بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین میں راشن بیگ تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نےرپورٹ میں مزید کہا کہ محکمہ لائیو اسٹاک تھرپارکر کی جانب سے ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو اسٹاک ڈاکٹر نوبت خان کھوسو کی سربراہی میں تعلقہ اسلام کوٹ، چھاچھرو، مٹھی اور ڈاہلی کے 6 دیہات میں ویٹرنری کیمپ میں 144 جانوروں کا علاج اور 4728 جانوروں کی ویکسینیشن کرکے انہیں بیماریوں سے محفوظ کیا گیا ہے۔ تھرکے سماجی حلقوںکااس بارے میں کہنا ہے کہ رواں ماہ ایک دن میں 7بچے غذائی قلت کی نذر ہو گئے جبکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اب تک جاں بحق ہونے والےبچوں کی تعداد 460سے تجاوز کر گئی۔6تحصیلوں کے مختلف دیہات سے لائے گئے250بچے اسپتالوں میں داخل ہیں اور ان میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔سندھ اور وفاقی حکومتیں بے حس اور خاموش تماشائی بنی ہو ئی ہیں اور مظلوموں کی داد رسی کر نے والا کوئی نہیں۔جو علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں مٹھی،نگر پارکر،اسلام کوٹ اور ڈیپلو شامل ہیں ۔جو سماجی تنظیمیں علاقے میں کام کر رہی ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کا شدید فقدان ہے ۔لوگوں کو پانی کی تلاش میں میلوں دور تک جا نا پڑتا ہے۔مویشی جو علاقے کے باشندوں کی زندگیوں کا لازمی جزو ہیں ،وہ بھی چارہ پانی نہ ہو نے کے باعث بڑی تعداد میں مر رہے۔

تھر میں ستمبر 2018میں قحط زدگان کو گندم کی تقسیم کےدوران سنگین بےضابطگیوں کا انکشاف ہواہے۔ سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال اگست میں صحرائے تھر کو قحط زدہ علاقہ قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کردی تھی اور حکام نے امدادی اقدامات کے لیے سروے کرکے قحط زدگان کو گندم کی مفت فراہمی کا اعلان کیا تھا۔اس سلسلے میں تحصیل ہیڈکوارٹر میں ایک امدادی مرکز بھی قائم کیاگیا تھا جہاں شہریوں کو گندم کی تقسیم کے انتظامات کیے گئے تھے۔سروے کے بعدصحرائے تھر کے 2 لاکھ 8 ہزار خاندانوں میں فی خاندان 50کلو گندم کی بوری دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے 7ماہ بعد 8 مارچ کو تھر کا دورہ کیا اور وہاں ہیلتھ کارڈاسکیم کے اجراء کا اعلان کیا جب کہ تھرکے باشندوں کو موت کے منہ جانے سے بچانے کے لیے ان کی طرف سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔وزیر اعظم کی تھر سے واپسی کے صرف دو ہفتے بعد غذائی کمی کی وجہ سے تین بچے موت کی نیند سو گئے ۔ سیاسی رہنماؤں نے وزیر اعظم کے دورے کو پوائنٹ اسکورنگ قرار دیا ہے۔ 2013سے 2018تک مسلم لیگ (نون) کی حکومت رہی لیکن بچوں کو غذائی کمی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔آج بھی روزانہ کئی بچے اور بڑے موت کی نذر ہورہے ہیں لیکن صوبائی اور وفاقی حکومتیں اختیارات کی تقسیم میں الجھی ہوئی ہیں۔ ان کی دل چسپی اہم قومی مسائل کی بجائے سیاسی ایشوز پر ہے جو عوام کی نظروں میں نان ایشوز ہیں۔ بعض سیاسی شخصیات کو سزا دلوانے اور بعض کو عدالتی شکنجے میں آنے سے بچانے کے لیے حکومت کی پوری مشینری سرگرم عمل ہے۔ اسمبلی سے بل پاس کرائے جارہے ہیں، لیکن تھر میں بھوک اور پیاس سے مرنے والے انسانوں کی ہمدردی میں نہ تو کوئی تعزیتی قرارداد پاس ہوتی ہے اور نہ انہیں قحط سے بچانے کے لیے کوئی بل پیش کیا جاتا ہے۔ دکھ اور صدمے کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت کو تھر کے بچوں سے زیادہ اپنےسیاسی بغل بچے عزیز ہیں جب کہ وفاقی حکومت کو ملکی مسائل کے حل سے زیادہ بین الاقوامی مسائل اور تنازعات سلجھانے کے لیے غیرملکی دوروں کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

صحرائے تھر کے باشندوں کو بھوک و پیاس کے ہاتھوں مرنے سے بچانے کے لیے حزب اختلاف اور حکومتی سیاست دانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں فراہمی آب کے لیے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، تھری باشندوں کو فاقہ کشی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے ان کے لیے خوراک کی ترسیل کا فوری طور سے انتظام کیا جانا چاہیے۔ جو بچے غذائی کمی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشکش میں ہیں انہیں کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں سرکاری خرچ پر علاج و معالجے کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔

تازہ ترین