• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 آفرین خلیق

’’لڑکی ہے گھر کا کام کاج سکھاؤ اسے دوسرے گھر جانا ہے۔ لڑکی ذات ہے، اسے اس طرح شام میں کوچنگ نہیں جانا چاہیے۔ لڑکی ہے پڑھ لکھ کر کرے گی کیا؟ مستقبل میں ویسے بھی گھرداری ہی تو کرنی ہے۔، لڑکیوں کو زیادہ نہ پڑھاؤ، ان کے دماغ آسمان پر چلے جاتے ہیں۔ملازمت کرنے والی خواتین ٹھیک نہیں ہوتیں۔ ‘‘یہ وہ جملے ہیں جو روز ہمارے ارد گرد موجود افراد سےمفت مشورے کے طور پر ملتے ہیں۔’لڑکیوں کو نہ پڑھاؤ‘‘ والی سوچ رکھنے والے ہی پاکستان کی ترقی کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

لڑکیوں کو تعلیم دینا صرف اس لیے ضروری نہیں کہ وہ ملازمت کریں یا ملک کی خدمت کر سکیں بلکہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ وہ پر اعتماد ہو جائیں، اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں، مستقبل میں اگر شادی کے بعد مالی مسائل ہوں تو اپنے ہمسفر کا ساتھ دے سکیں، شادی ناکام ہو تو اپنے بچوں کا مستقبل سنوار سکیں، ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تب بھی والدین کو یہ فکر نہ ہوکہ میری بچی کا کیا ہوگا؟پاکستان میں ٹیلنٹ کی کچھ کمی نہیں بس تھوڑا اعتماد دینے کی ضرورت ہے ۔گھر گھرہستی ہو یا کوئی بھی پیشہ پاکستانی خواتین ہر شعبے میں اپنا آپ منوا رہی ہیں۔ پولیس، طب، کاشت کاری، ریسلنگ، کرکٹ، ویٹ لفٹنگ، آئی ٹی یہاں تک کہ، موٹر سائیکل ہی نہیں یا ٹریکٹر بھی چلا رہی ہیں۔وہ کسی طور مرد وںسے کم نہیں۔جیسے زینت عرفان نے موٹر سائیکل پر شمالی علاقہ جات کا سفر اکیلے طے کرلیا۔ تھر پارکر کی رانی ڈمپر چلاتی ہے۔ خواتین کمزور نہیں ،انھیں کمزور بنا دیا جاتا ہے۔ جب ماں، باپ ، بھائی ، شوہر اور خاندان والےان کے کامیابی کی طرف بڑھتے قدم روک دیتے ہیں، جب اپنے تنقید کرنے والوں میں شامل ہوکر ان کی مخالفت کرتے ہیں۔اپنوں سے لڑنا آسان نہیں۔ لڑکیاں حساس ہوتی ہیں وہ ہتھیار جب ڈال دیتی ہیں ،جب ان کے اپنے ان کے مخالف ہوجاتے ہیں۔وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں ، جب اپنوں کا ساتھ ہو تو۔ بہت سی خواتین نے اپنے خاندان، معاشرے کی بہت سی تلخ باتیں سن کر بھی اپنے بچوں کی تن تنہا اچھی تربیت کی ہے۔ ماں ہو تو بچوں کو اپنے پروں میں سمیٹ کر اپنے جگر کے گوشوں کو دنیا کی سختی سے بچاتی ہے، بہن ہو تو اپنے بھائی بہن کے لیے ڈھال بن کر دنیا سے لڑ تی ہے ، بیوی ہو تو شوہر کے ہر دکھ میں اس کے ساتھ کھڑے ہو جا تی ہے ۔لیکن تعلیم اور کام کے غرض سے نکالنے والی خواتین پر تو طنز کے تیر چلاتے ہی ہیں، ان کے گھر والوں کو بھی کچھ ایسے طعنےسننے کو ملتے ہیں کہ ’’ گھر والے شادی اس لیے نہیں کرتے لڑکی کی کمائی کھانی ہے‘‘، یا ’’یہ کیسا شوہر ہے جو بیوی کو کمانے جانے دیتا ہے‘‘ یا ’’یہ کیسا باپ ہے جو بیٹی کو اتنی دور اکیلے پڑھنے بھیج دیتاہے، بیٹی کو کچھ زیادہ ہی آزادی دی ہوئی ہے‘‘،’’ کیسا بھائی ہے بہن رات کو ملازمت سے آتی ہے اسے غیرت نہیںآتی‘‘۔ ہاں یہ کہنا عجیب ہی ہے کہ ہم ہر جگہ خواتین کا موازنہ مردوں سے کر کے ایک قسم کی دوڑ میں لگ گئے ہیں ،جبکہ اس دوڑ میں لگنے سے قبل یہ سوچ ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں ، جس سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ خواتین کو کمزور سمجھ کر مرد حاکمیت جتانا اپنا حق سمجھ بیٹھے۔پاکستان کے شہری علاقوں میں تو خواتین اپنے حقوق سے واقف بھی ہیں اور آواز بھی اٹھا رہی ہیں لیکن آج بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی آبادی ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ آج بھی وہاں خواتین پر ظلم و بربریت کے جو پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں، اس سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ غیر قانونی جرگے میں ہونےوالے سفاک فیصلے ،جس میں مرد کی غلطی کی سزا بھی عورت کو ملتی ہے۔

معاشر ے کے سب مردوں کو ظالم قرار دینا بھی منا فقت ہی ہے۔ اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو کبھی شفیق باپ کی صورت میں محنت کرتا ہوا ملے گا تو کبھی ہر قدم پر بہن کو سہارا دینے والا بھائی تو کبھی ماں کو اس کا حق دلانے کے لیے لڑ جانے والا بیٹا تو کہیں بیوی کی ہر ضرورت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی خواہشات، اس کی رائے اور نظریہ کو اہمیت دیتا شوہر ملتا ہے۔معاشرے کو بہتر کرنا ہے تو بات صرف خواتین یا مردوں کی نہیں ہونی چاہیے کہ کون زیادہ بہتر ہے کون نہیں۔ خواتین کو حقوق جب ملیں گے جب مرد اور عورت مل کر ایک اچھی سوچ کو پروان چڑھائیں گے کہ ”معاشرے کو بہتر کرنا ہے“ اپنی آیندہ نسل کو اچھا معاشرہ دینے کے لیے مرد اور عورت کے درمیان فوقیت کی بحث کو ختم کرناہوگا، جس کا جو حق ہے ا س کو وہ دینا ہوگا۔ بیٹا، بیٹی میں فرق ختم کر کے یکساں تعلیم اور تربیت دینی ہے۔ اور آنے والی نسلوں کو بھی سمجھانا ہے کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دونوں کے اپنے حقوق اور فرائض ہیں ،جن کو اگردونوں پورا کر لیں تو معاشرے میں سدھارآ جائے گا ۔

تازہ ترین