• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’قاضی شکراللہ‘‘ ایک بہادر منصف، جس کے فیصلے تاریخ کا حصہ ہیں

جن دنوں ہرات پر مرزا سلطان حسین بایقرا کی حکومت تھی شیراز کے ایک خاندان سادات نے شیراز سے ہجرت کی اور ہرات کو اپنا وطن بنایا۔ اس خاندان کو علمی اور مذہبی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس خاندان کے اکثر افراد محدث اور فقیہہ تھے۔

نور اللہ شورستری نے اپنی تصنیف مجالس المومنین میں قاضی شکراللہ کا ذکر خیر کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اپنے دور کے زبردست عالم اور صاحبان دین و دانش میں شمار ہوتے تھے۔ جب مرزا شاہ حسین بایقرا کی حکومت کا تختہ الٹا اور ہرات کی سیاسی صورت حال صاحبان علم و فضل کے لئے تنگ ہوگئی اور لوگوں کاوہاں رہنا مشکل ہوگیا تو انہوں نے وہاں سے نکل کر قندھار میں مرزا شاہ حسن ارغون کی رفاقت اختیار کر لی۔ ابھی انہوں نے کچھ دن گزارے تھے کہ بابر بادشاہ کابل آپہنچا اور پھر اس نے کابل سے نکل کر قندھار پر یورش کر دی۔ مرزا شاہ حسن ارغون نے ابتدا میں تو مقابلہ کیا لیکن جب یہ دیکھا کہ اس میں اور بابر میں فوجی اعتبار سے کوئی توازن نہیں ہے اور وہ یقیناً بابر کے ہاتھوں زک اٹھائے گا، تو اس نے قندھار سے نکل کر سندھ کی راہ لی اور پھر وہاں اپنی حکومت کے استحکام کے بارے میں غور کرنے گا۔

مرزا شاہ حسن ارغون انتہائی جری، دلیر اور بہادر حکمران تھا۔ اس کے علاوہ اس کی علم دوستی اور ادب پروری مسلم الثبوت تھی۔ وہ ادیبوں، شاعروں اور عالموں کی دل سے قدر کرتا تھا۔ جب اس نے سندھ پر پوری طرح قبضہ کر لیا اور جنوبی سندھ کے تمام علاقے اس کے قبضے میں آ گئے تو اس نے ٹھٹھہ کو دارالحکومت کی حیثیت دی اور وہاں مقیم ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں جلد ہی ٹھٹھہ کی قسمت بدل گئی اور وہ پورے سندھ میں ایک زبردست دارالعلوم کی حیثیت سے مشہور ہوگیا۔ عالم اسلام کے متعدد علماء اور فقہا وہاں آ کر رہائش پذیر ہوئے۔ مرزا شاہ حسن نے سب کی دلجوئی کی اور ان کے مرتبے اور حیثیت کے مطابق ان کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ ان کی گزر بسر کے لئے ان کو جاگیریں دیں، مناصب عطا کئے، روزینے اور وظیفے مقرر کئے۔ اس طرح علمی اور ادبی رجحانات نے فروغ پایا اور اس کے نتیجے میں پورا شہر علماء اور فضلا اور صلحا کا مسکن و مرکز بن گیا۔ ان ہی دنوں قاضی شکراللہ نے ہرات سے سندھ کا قصد کیا۔

قاضی شکراللہ کے آبائو اجداد شیراز کے رہنے والے تھے لیکن بعض نامساعد حالات کی بناء پر انہوں نے شیراز سے ہجرت کر کے ہرات کو اپنا وطن بنایا۔ قاضی شکراللہ کے بزرگوں میں ہر شخص عالم، محدث اور فقہیہ تھا اور ان میں بعض کی، ان کی تصانیف کی وجہ سے زبردست شہرت تھی اور وہ تمام علماء اور فضلا کی نظر میں احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ نوراللہ شوستری نے مجالس المومنین میں ان کا اکثر ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اپنے دور کے جید عالم اور محدث تھے۔ اگرچہ ان لوگوں کو دربار شاہی میں اثر و نفوذ حاصل تھا اور وہ سلاطین پر گہرا اثر رکھتے تھے۔ ان کے باوجود انہوں نے کسی قسم کا سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ان کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ چنانچہ جب قاضی شکراللہ نے حالات کو نامساعد پایا اور یہ دیکھا کہ اب ان کا ہرات میں رہنا اور اپنی تجارت کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا ہے تو وہ ہرات سے نکل کر تجارت کے ارادے سے سندھ پہنچا۔ ان کے ساتھ ان کے دوستوں میں سید منبہ، سید کمال اور سید عبداللہ بھی تھے۔ قاضی شکراللہ نے تجارت ہی کو اپنا ذریعہ معاش بنانا چاہا لیکن ان کی علمی بزرگی لوگوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکی۔ لوگ ان کی علمیت کی وجہ سے بہت جلد ان کی جانب متوجہ ہوگئے اور پھر جب مرزا شاہ ارغون کو ان کی بزرگی اورعظمت کے بارے میں علم ہوا تو اس نے ان کو اپنے دربار میں طلب کر کے ان کی قدردانی کی اور قاضی شہر مقرر کیا۔

مؤرخین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ قاضی شکراللہ نے کتنے عرصہ تک قاضی شہر کے فرائض ادا کئے۔ البتہ طاہر نسیانی کے ایک بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا شاہ حسن ارغون کو قاضی شکراللہ پر بڑا اعتماد تھا اور وہ ان کے عدل و انصاف سے بڑا مطمئن تھا، اس سلسلے میں اس نے ایک واقعہ لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مرزا شاہ حسن ارغون نے ایک مرتبہ قاضی شکراللہ کا امتحان لینا چاہا اور یہ معلوم کرنے کی سوچی کہ وہ عدل و انصاف میں مدعی اور مدعا علیہ کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں چنانچہ اس نے ایک سوداگر سے گھوڑا خریدا۔ اس کی قیمت طے کی لیکن جب اس کے ادا کرنے کا وقت آیا تو اس میں لیت و لعل سے کام لینے لگا۔ اس صورتحال سے پریشان ہو کر اس نے قاضی شکراللہ کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا۔ قاضی شکراللہ نے مرزا شاہ حسن ارغون کو صفائی کے سلسلے میں عدالت میں بلایا۔ مرزا شاہ حسن نے عدالت میں پہنچ کر بیٹھنے کی کوشش کی، قاضی شکراللہ نے اس کو منع کر دیا اور کہا قانون کی رو سے مدعا علیہ کو عدالت میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پورے مقدمے کی سماعت کے دوران مرزا شاہ حسن ارغون قاضی شکراللہ کی عدالت میں کھڑارہا۔

جب اس سلسلے میں پتہ چلا کہ مرزا شاہ حسن ارغون نے کوتاہی کی اور سوداگر کا دعویٰ درست ہے تو قاضی شکراللہ نے مرزا شاہ حسن ارغون سے کہا کہ وہ سوداگر کو راضی کرے۔ مرزا شاہ حسن ارغون نے عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے مدعی کو راضی کیا۔ جب مدعی راضی ہوگیا تو قاضی شکراللہ نے اس کی تعظیم کی اور اسے اپنے برابر بٹھایا۔ مرزا شاہ حسن ارغون، قاضی شکراللہ کے اس طرز عمل سے بہت خوش ہوا اور بولا جس ملک اور جس فرمانروا کو ایسے قاضی اور ایسے انصاف کرنے والے نصیب ہوں وہ ملک اور فرمانروا کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ پھر مرزا شاہ حسن ارغون نے قاضی شکراللہ کو بتایا کہ میں تمہارا امتحان لینا چاہتا تھا۔ میں عدالت میں کمر سے خنجر باندھے ہوئے آیا تھا اور یہ دیکھتا کہ تم میرے ساتھ بادشاہوں کا سا سلوک کر رہے ہو یا میری رعایت پر مستعد ہو، تو اس خنجر سے تمہارا کام تمام کر دیتا۔ قاضی شکراللہ نے اسی وقت اپنی مسند کے نیچے سے تلوار نکالی اور کہا کہ میں نے یہ تلوار اسی موقع کے لئے رکھی تھی کہ بادشاہ اپنی مرضی کے مطابق مجھ سے فیصلہ نہ کروائے۔ اگر وہ اور اس کے خادم مجھ پر سختی کرتے تو میں اسی تلوار سے کام لیتا۔

قاضی شکراللہ ایک آزاد طبع بزرگ تھے، ان کو درس و تدریس سے دلچسپی تھی، وہ سرکاری منصب اور اس کی ذمہ داریوں کو بارگراں خیال کرتے تھے، ان کی خواہش یہی رہتی تھی کہ وہ جلد سے جلد اس بارگراں کو اپنے سر سے اتار دیں تاکہ درس و تدریس کا موقع مل سکے۔ مقدمات کی کثرت اور پھر کام کی زیادتی نے ان کو علمی و ادبی مصروفیت سے بیگانہ کر دیا تھا، اس لئے انہوں نے اس عہدے سے مستعفی ہونے کی درخواست دی۔ مرزا شاہ حسن ارغون نہیں چاہتا تھا کہ سندھ ایسے قاضی سے محروم ہو۔ اس نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے منصب کے لئے خود کسی مناسب شخص کو تجویز کریں۔

قاضی شکراللہ نے شیخ محمد روچی کا نام لیا جو ان کے ہرات کے زمانے کے دوستوں میں سے تھا۔ مرزا شاہ حسن ارغون نے محمد روچی شیخ کو بلا کر قضاۃ کا محکمہ ان کے سپرد کر دیا۔ پھر قاضی شکراللہ کی مدد و معاش کے طور پر ان کو ٹھٹھہ کے نواح میں کچھ علاقے عطا کئے تاکہ ان کو اس سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

قاضی شکراللہ نے اپنے منصب سے مستعفی ہونے کے بعد مسند رشد و ہدایت بچھائی اور درس و تدریس میں مشغول رہنے لگے ان کے درس و تدریس میں سینکڑوں طلباء شریک رہنے لگے اور ان سے دنیاوی و دینی فوائد حاصل کرتے تھے۔ قاضی شکراللہ نے ہرات اور قندھار سے نکلنے کے بعد ٹھٹھہ کو اپنا وطن بنایا تھا۔ اس ارادے کے ساتھ کہ اب وہ کبھی نہیں جائیں گے چنانچہ وہ آخر دم تک ٹھٹھہ ہی میں بندگان خدا کی خدمت میں مشغول رہے اور یہیں (ٹھٹھہ میں) انتقال کیا۔ ان کی تاریخ وفات معلوم نہیں ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مرزا شاہ حسن بیگ ارغون ہی کے دور حکومت میں وفات پائی۔

قاضی شکراللہ کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے میر ظہیر الدین نے مسند رشد و ہدایت سنبھالی اور وعظ و تلقین کا ہنگامہ گرم کیا۔ مورخوں کا کہنا ہے کہ ہر وقت درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے، ان کی درس گاہ پر ہر وقت طالب علموں کا اجتماع رہتا تھا اور ان کے وقائق اور نکات کا جواب دیتے اور وضاحت کرتے تھے۔

قاضی شکراللہ کو سندھ کی تاریخ میں اس اعتبار سے زیادہ بزرگی اور اہمیت حاصل ہے کہ ان سے سادات شکرالہٰی کی ابتداء پڑی۔ اس خاندان سادات کے مورث اعلیٰ قاضی شکراللہ تھے۔ اس لئے یہ خاندان ان ہی کے نام سے موسوم ہوا اور ان ہی کے نام سے پہنچانا جاتا ہے اور پھر اس خاندان کی یہ خصوصیت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس خاندان میں ہر دور میں عالم، شاعر، ادیب، مورخ اور صاحبان فکر پیدا ہوئے اور اپنے فیضان سے بندگان خدا کو شاد کام کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ہم کو کلہوڑوں اور ٹالپروں کے عہد میں بھی اس خاندان کے افراد علمی و ادبی خدمات میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

تازہ ترین