اردو دُنیا کے ممتاز شاعر اور ماہر تعلیم، لیاقت علی عاصم گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔
گزشتہ شب ان کی حالت بگڑی، تو انہیں فوراً اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ مرحوم نے ایک بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں سوگواران میں چھوڑیں۔ان کی نمازِ جنازہ، مسجدِ طوبیٰ نارتھ کراچی میں ادا کی جائے گی، جب کہ تدفین محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں بعد نماز ظہر میں کی جائے گی۔
لیاقت علی عاصم 8اگست 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ایک بہن اور آٹھ بھائیوں میں سے وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اردو ڈکشنری بورڈ میں 1980ء سے 2011ء تک علم و ادب کی خدمت کرتے رہے اور بحیثیت ایڈیٹر اردو ڈکشنری بورڈ ریٹائر ہوئے۔
تین عشروں تک انہوں نے اردو ڈکشنری بورڈ میں خدمات انجام دیں۔ ان کے کل آٹھ شعری مجموعے اردو دُنیا میں مقبول ہوئے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ 1977ء میں سبدِ گل کے نام سے شائع ہوا اور اس کے بعد آنگن میں سمندر (1988ء)، رقصِ وصال (1996ء)، نشیبِ شہر (2008ء)، دل خراشی (2011ء)، باغ تو سارا جانے ہے (2013ء)، نیشِ عشق (2017ء) اور انتقال سے ایک ہفتے تک شائع ہونے والا شعری مجموعہ ’’میرے کَتبے پہ اُس کا نام لِکھو‘‘ شائع ہوا۔
علاوہ ازیں، سات شعری مجموعوں پر مشتمل کلیات، یکجان کے نام سے شائع ہوئی۔
صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت، سردار علی شاہ، آرٹس کونسل کے صدر، محمد احمد شاہ، پروفیسر اعجاز احمد فاروقی، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، عنبرین حسیب عنبر، ڈاکٹر فاطمہ حسن، پروفیسر انوار زئی، اوج کمال، نعیم چوغلے، فاضل جمیلی ،خالد معین، ریحانہ روحی، ذکیہ غزل، عبدالحکیم ناصف، پروفیسر جاذب قریشی اور دیگر نے لیاقت علی عاصم کے انتقال پر اپنے دکھ اور رنج کا کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے ساری زندگی ذاتی تجربات، تاثرات و محسوسات اور ادراک کی راہ پر چل کر دنیا کی حقیقت دریافت کرنے کی سعی کی۔
ان کی شاعری میں جمالیات کے ساتھ ساتھ نئی حقیقتوں کی چہرہ نمائی بھی ہوتی ہے۔ تلاش و جستجو کی اذیت اور تنہائی کے کرب کا بیان بھی ان کے کلام میں جگہ جگہ ملتا ہے۔