• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
اگر بیٹا غیر شادی شدہ یا رنڈوا ہے اور اس کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے تو اس کی جائیداد کے وارث اس کے والدین ہوں گے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی حصہ ہے اور دو تہائی حصہ باپ کا ہے اور اگر بیٹے کے بہن بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا حصہ ہے اور باقی باپ کا ہے۔ اسی طرح بیٹی کی جائیداد میں اگر بیٹی کی اولاد ہے تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا حصہ ہے۔ اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹاحصہ باپ کو ملے گا اور اگردونوں ہوں تو چھٹا حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا۔ اگر بیٹی کی اولاد نہیں ہے لیکن شوہر ہے تو شوہر کو جائیداد کا نصف حصہ ملے گا اور نصف جائیداد بیٹی کے والدین کی ہوگی اور اگر بیٹی کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے ایک چوتہائی حصہ اور باقی والدین کا ہے اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف حصہ لڑکی کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے چوتہائی حصہ اور والدین کا چھٹا حصہ ہے۔ اگر بیٹی بیوہ ہو اور اس کے اولاد بھی نہیں ہے تو جائیداد کے وارث اس کے والدین ہوں گے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی حصہ ہوگا اور اگر بیٹی کے بہن بھائی ہیں تو ماں کیلئے جائیداد کا چھٹا حصہ ہوگا اور باقی باپ کو ملے گا۔کلالہ سے مراد ایسے مرد اور عورت جنکی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہو یعنی جنکی نہ تو اولاد ہو اور نہ ہی والدین ہوں اور نہ ہی شوہر یا بیوی ہو۔اگرصاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہوں، اس کے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں، اور اگر اسکا صرف ایک سوتیلہ بھائی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹاحصہ ہے، یا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا حصہ ہے۔ اگر بہن، بھائی تعداد میں زیادہ ہوں تو وہ سب جائیداد کے ایک تہائی حصہ میں شریک ہونگے۔ اور باقی جائیداد قریبی رشتے داروں میں اگر دادا، دادی یا نانا، نانی زندہ ہوں یا چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں میں یا انکی اولادوں میں جو ضرورت مند ہوں ان میں ایسے تقسیم کی جائے جو کسی کیلئے ضر رساں نہ ہو۔
اگر کلالہ مرد یا عورت فوت ہوجائے، اور اس کی ایک بہن ہو تو اسکی بہن کیلئے جائیداد کا نصف حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے۔اگر اسکی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے جائیداد کا دو تہائی حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے۔اگر اس کا ایک بھائی ہو تو ساری جائیداد کا بھائی ہی وارث ہوگا۔ اگر بھائی، بہن مرد اورعورتیں ہوں تو ساری جائیداد انہیں میں تقسیم ہوگی قرآن عزیز میں ارشاد ہے کہ ’’مرد کیلئے دوگنا حصہ اس کا جوکہ عورت کیلئے ہے۔اللہ تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اور ہر ترکہ کیلئے جو ماں باپ اور عزیز و اقارب چھوڑیں ہم نے وارث قرار دئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد کر لئے ہیں ان کا حصہ ان کو دیدو بیشک اللہ ہر شے پر گواہ ہے (4:33)۔ پھر فرمایا کہ ’’مردوں کیلئے اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں ایک حصہ ہے اور عورتوں کیلئے بھی اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں تھوڑا یا زیادہ مقرر کیا ہوا ایک حصہ ہے. (4:7)اور جب رشتہ دار و یتیم اور مسکین تقسیم کے موقع پر حاضر ہوں تو انکو بھی اس میں سے کچھ دے دو اور ان سے نرمی کے ساتھ کلام کرو. (4:8)اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے اور اگر فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو ترکے کا دو تہائی ان کا ہے اور اگر وہ ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے نصف ہے اور والدین میں سے ہر ایک کیلئے اگر متوفی کی اولاد ہو تو ترکے کا چھٹا حصہ ہے اور اگر متوفی کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کیلئے ترکہ کا ایک تہائی حصہ ہے اور اگر متوفی کے بہن بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹاحصہ ہے بعد تعمیل وصیت جو وہ کر گیا ہو یا بعد ادائے قرض کے تم نہیں جانتے کہ تمہارے آباء یا تمہارے بیٹوں میں سے نفع رسانی میں کون تم سے قریب تر ہے یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے بیشک اللہ جاننے والا صاحب حکمت ہے اور جو ترکہ تمہاری بے اولاد بیویاں چھوڑیں تمہارے لئے اس کا نصف حصہ ہے اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اس ترکہ کا جو وہ چھوڑیں چوتھائی حصہ ہے اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کی ادائیگی کے بعد اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو جو ترکہ تم چھوڑو ان عورتوں کیلئے اس کا چوتھائی حصہ ہے اور اگر تمہارے اولاد ہو تو ان عورتوں کا اس ترکہ میں آٹھواں حصہ ہے جو تم چھوڑو بعد از تعمیل وصیت جو تم نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے اور اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے اور اگر وہ تعداد میں اس سے زیادہ ہوں تو بعد ایسی کی گئی وصیت کی تعمیل جو کسی کیلئے ضرر رساں نہ ہو یا ادائیگی قرض کے وہ سب ایک تہائی میں شریک ہونگے یہ وصیت منجانب اللہ ہے اور اللہ جاننے والا بردبار ہے. (4:12)اے پیارے نبیﷺتم سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دے کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فرماتا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہلاک ہوجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو پس اس کی بہن کیلئے اس کے ترکہ کا نصف حصہ ہے۔ (اگر عورت فوت ہوجائے) اگر اس عورت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کا وارث اس کا بھائی ہوگا اور اگر اس کی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے اس کے ترکہ کا دو تہائی ہے اور اگر بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تومرد کیلئے دوگنا حصہ اس کا جو کہ عور ت کیلئے ہے اللہ تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔
تازہ ترین