• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم کیا چاہتے، آزادی‘‘ کیا بہتر سالوں سے ایسے نعرے لگانے سے کشمیریوں کو آزادی مل گئی؟ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کیا اس نعرے نے عملی جامہ پہنا؟ ’’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘ کیا باقی فریقوں نے اس بھارتی دعوے کو تسلیم کیا؟ نہیں۔ پچھلے بہتر برس سے ہم یہی سب کچھ دیکھ رہے ہیں، کیا آئندہ بہتر برس بھی اسی نعرے بازی میں گزارنے ہیں؟ اور اسی طرح کشمیریوں کی نسل کشی جاری رہے گی؟ کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک نے جنگیں لڑ لڑ کر کیا پورے خطے کو برباد کر لینا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو تمام بھارتیوں، پاکستانیوں اور کشمیریوں سے جواب مانگ رہے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ وقت کم ہے اور جواب زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دیئے جائیں۔ بھارت، تاریخ گواہ ہے کہ اس علاقے یعنی برصغیر پر 764برس مسلمان حکمران رہے مگر کسی نے بھی نہ تو ہندو مت کا خاتمہ کیا اور نہ ہی ہندوؤں کی نسل کشی کی۔ اس کے برعکس محض بہتر برسوں سے بھارت کی حکومت ہندوؤں کے ہاتھ لگی ہے تو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اور اب جبکہ بھارتی حکومت آر ایس ایس کے کارندوں کے قبضے میں آئی ہے تو ظاہر ہے وہ وہی کریں گے جو ان کی اصلیت ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان اور کشمیریوں کو پہلے سے بھی زیادہ دانشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ان کا پالا ایک جاہل اور بدحواس دشمن سے پڑا ہے۔مسئلہ کشمیر کے تین بنیادی فریق ہیں۔ بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے بھارت اب روایتی حربوں سے بڑھ کر کلسٹر بموں کا استعمال کرنے لگا ہے۔ یہی نہیں بلکہ آرٹیکل 370کو منسوخ کرکے گلے میں پھنسی ہڈی کو نگل چکا ہے۔ رہ گئے نہتے کشمیری تو ان کو کچلنے کے لئے بھارت آخری حد تک جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فلسطین کا ماڈل اس کے سامنے موجود ہے اور اسرائیل کی مکمل سرپرستی بھی۔ دوسرا اسٹیک ہولڈر پاکستان ہے جو ایٹمی اسلامی مملکت ہوتے ہوئے مسلسل عالمی دباؤ اور سازشوں کا شکار ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لئے ہماری حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں جو ممکن کوششیں کی تھیں وہ اپنی جگہ، ہم سلامتی کونسل تک پہلے بھی گئے تھے، اب پھر گئے۔ قراردادیں پہلے بھی منظور کروائیں مگر بھارت مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سفارتی سطح کے ساتھ ساتھ ہم نے ہر موقع پر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، جنگیں لڑیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان سب کے باوجود بھارتی جارحیت اور کشمیریوں کی قربانیوں میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ تیسرا فریق خود کشمیری عوام ہیں جو رائے شماری کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ بھارت کو علم ہے کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کی وجہ سے رائے شماری اس کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوگی لہٰذا وہ کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو کچلنے کی کوشش کرتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے پاس مسئلہ کشمیر کے حل کی اگر کوئی صورت بچتی ہے تو وہ ہے فیصلہ کن جنگ۔ کیونکہ سفارتی سطح پر وقتاً فوقتاً مذاکرات ہوتے رہے مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اقوام متحدہ میں قراردادیں پاس ہوئیں مگر نتیجہ صفر۔ سلامتی کونسل کا حالیہ اجلاس بھی کشمیریوں کو آزادی نہ دلا سکا۔ ثالثی کے وعدے بے سود۔ عالمی برادری بھی کچھ یوں مخاطب ہے ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘۔ ایسے حالات میں جب بھارت نے جلتی پر تیل چھڑکا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرکے اسے آزاد ریاست سے بھارتی علاقہ قرار دے دیا ہے، یہاں تک کے لداخ کو بھی نہیں چھوڑا تو پاکستان کے پاس اب جنگ کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتی۔ بھارت اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے آخری حد تک جائے گا مگر جنگ نہیں چاہے گا۔ بھارت کشمیر کی شطرنج پہ اپنی چال چل چکا، اب پاکستان کی باری ہے۔ اگرچہ بھارتی انتہاپسند جنونی حکومت کے حالیہ اقدامات نے پاکستان کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں چھوڑی لیکن جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ پاکستان کا واسطہ ایک جاہل دشمن سے ہے لہٰذا جذبات سے ہٹ کر سوچنے اور عمل کرنے کی ساری ذمہ داری پاکستان پر آن پڑی ہے۔ مودی سرکار کے انتہائی اقدامات کے باوجود پاکستانی حکومت جذبات کی بجائے نہایت ہوشمندی سے کام لے رہی ہے۔

تازہ ترین