اسلام آباد (انصار عباسی) ڈینگی نے لاہور پر 2011ء میں حملہ کیا تھا جس کے بعد شہباز شریف حکومت نے اس مرض اور مسئلے کے خاتمے کیلئے جو مثالی جنگ شروع کی اس نے دنیا میں اس بیماری پر قابو پانے اور کنٹرول کرنے کے معیارات طے کر دیے۔
مستقبل میں اس مرض کو دوبارہ اٹھنے سے روکنے کیلئے کتابی شکل میں کام کرنے کا تفصیلی طریقہ (ایس او پی) جاری کیا گیا۔
لیکن ایس او پی کتاب میں ایک مسئلہ تھا۔ اس میں شہباز شریف کی تصویر اور پیغام شامل تھا۔ رواں سال جب ڈینگی نے ملک کے مختلف حصوں بشمول اسلام آباد اور راولپنڈی میں سر اٹھایا تو ایس او پی شیئر کی گئی اور نہ ہی اس پر عمل کیا گیا جس سے ڈینگی کیخلاف کی جانے والی تمام موجودہ تدبیریں کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔
درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ کئی ہزاروں افراد ڈینگی میں مبتلا ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود ایس او پیز کے مطابق کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تاکہ اس بیماری کی وجہ سے مزید اموات کو روکا جا سکے۔
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے شایع کی جانے والی کتاب ’’کنٹرول اینڈ سرویلنس آف ڈینگی - اے کیس اسٹڈی آف لاہور‘‘ میں حکومت پنجاب کی متاثر کن اور مربوط کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے جو شہباز شریف کی زیر قیادت کی گئی تھیں۔ ڈینگی کے مسئلے سے نبرد آزما افراد نے دی نیوز کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے چیف منسٹرز آفس میں کرائسز مینجمنٹ سیل قائم کیا تھا اور اسے ’’وار روم‘‘ (جنگ کا جائزہ لینے کا کمرہ) میں تبدیل کیا گیا،
جہاں عملہ وزیراعلیٰ کی ہدایات پر عملدرآمد کو براہِ راست یقینی بنائے جانے کا جائزہ و معائنہ کرتے تھے، مختلف محکموں کی رہنمائی کرتے تھے اور مختلف اداروں کے مابین رابطہ کاری میں مدد اور جہاں کہیں بھی سست روی ہوتی اسے دور کرتے تھے۔
ایک ذریعے کے مطابق، مسلسل 94؍ روز تک وزیراعلیٰ نے صبح 6؍ بجے بھی اٹھ کر اجلاس کیے جس میں 40؍ سے زائد ایڈمنسٹریٹیو سیکریٹریز شرکت کرتے تھے جبکہ لاہور سے تعلق رکھنے والے 13؍ ارکان قومی اسمبلی اور لاہور سے تعلق رکھنے والے 26؍ ارکان صوبائی اسمبلی کو بھی بلایا جاتا تھا۔
چیف سیکریٹری، اسپیشل برانچ کے سربراہ اور آئی بی کے سربراہ بھی موجود ہوتے تھے تاکہ میدان میں ہونے والی سرگرمیوں کا براہِ راست جائزہ پیش کیا جا سکے۔
پروفیسر فیصل مسعود کی زیر قیادت سینئر پروفیسرز کی ٹیم بھی موجود رہتی تھی جو پنجاب بھر میں ڈاکٹروں کو کلینکل رہنمائی فراہم کرتی تھی۔ صبح 6؍ بجے شروع ہونے والے یہ اجلاس صبح 8؍ بجے تک جاری رہتے جن میں گزشتہ اجلاس میں دی گئی ہدایات پر عمل کے حوالے سے جائزہ لیا جاتا، مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جاتا اور فیصلے کیے جاتے تھے۔
تمام محکمہ کو ہر وقت فعال اور سرگرم رہتے تھے کیونکہ اسپیشل برانچ اور آئی بی کے حکام اجلاس میں ہدایات پر عمل کے حوالے سے اپنی آزاد جائزہ رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کرتے تھے۔ شہباز شریف پابندی اوقات کا خاص خیال رکھتے تھے اور دل سے کوششیں کرتے تھے، اگر کوئی سینئر سیاسی ساتھی اپنی کوششوں میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتا تھا تو شہباز شریف اسے سختی سے ڈانٹ بھی دیتے تھے۔
ہیلتھ ڈپارٹمنٹ اور ضلعی انتظامیہ کے علاوہ ہر محکمہ کام پر لگا دیا گیا تھا۔ محکمہ زراعت کے فیلڈ اسٹاف اور ماہرینِ حشریات کو پنجاب بھر میں اسپرے کی ہدایات کی گئیں تھیں۔
کو آپریٹیو ڈپارٹمنٹ پر ذمہ داری تھی کہ وہ صوبے کے بڑے شہروں کی تمام ہائوسنگ سوسائٹیوں میں حفاظتی اقدامات کرے۔
چونکہ ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈینگی کا مچھر ٹرکوں اور گاڑیوں کے پرانے ٹائروں میں جمع ہونے والے پانی میں پنپتا ہے، محکمہ ماحولیات سے کہا گیا تھا کہ وہ صوبے میں ٹائروں کی دکانوں اور گوداموں کا جائزہ لیں اور وائرس کی صورت میں اسے صاف کریں۔
اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو مچھر صفائی مہم چلانے کی ذمہ داری دی گئی تھی، فشریز ڈپارٹمنٹ نے تالابوں میں ایسی مخصوص مچھلیاں متعارف کرائیں جو ڈینگی کے مچھر اور ان کے لاروا کو کھا جاتی تھیں جبکہ صفائی کے کام پر مامور ملازمین (سینیٹری انسپکٹرز) اور پبلک ہیلتھ ورکرز کے کام کی نگرانی کیلئے خصوصی آئی ٹی پروگرام تیار اور موبائل ایپ متعارف کرائی گئی تھی۔
یہ فیلڈ ورکرز جہاں بھی ڈینگی لاروا ملتا اس کی تصاویر کھینچتے اور انہیں پروگرام میں اپ لوڈ کر دیتے۔ خصوصی تربیتی پروگرامز کے ذریعے نجی طبی مراکز (پرائیوٹ کلینکس) کی ڈینگی کا علاج کرنے کی استعداد بڑھائی گئی۔
حکومت نے ایک قانون کے ذریعے نجی طبی مراکز / اسپتالوں میں ڈینگی کی تشخیص کے ٹیسٹ کی فیس 90؍ روپے مقرر کی۔ فی الوقت نجی لیبارٹریاں اس ٹیسٹ کے 900؍ روپے وصول کر رہی ہیں۔
صبح 6؍ بجے کے اجلاس کے علاوہ، شہباز شریف شہر بھر کا چکر لگاتے، اچانک معائنہ کرتے تھے۔
وہ شہر کے ہر اسپتال اور وارڈ میں جاتے تھے۔ اگرچہ اسپتالوں کے معائنے کا عمل رات دیر سے ختم ہوتا تھا لیکن اگلے دن صبح 6؍ بجے کا اجلاس وقت پر ہوتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سول انتظامیہ نے اُس وقت کے چیف سیکریٹری ناصر کھوسہ کی زیر قیادت جتنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ حتیٰ کہ کچھ سرکاری ملازمین کو بھی ڈینگی ہوگیا اور ایک نوجوان افسر کے ڈینگی کی وجہ سے گردے ناکارہ ہوگئے تھے۔
ان سرگرمیوں میں شامل تمام ٹیموں کے ساتھ سرکاری ملازمین، منتخب نمائندے اور سول سوسائٹی کے ارکان ساتھ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایجنسیوں کے مابین ان کوششوں کی وجہ سے یہ جان لیوا بیماری کنٹرول ہو پائی اور نتیجتاً سری لنکا کے ماہرین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’صوبائی حکومت کی کوششوں سے 20؍ ہزار اضافی شہریوں کی جان بچائی جا سکی۔‘‘
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ فائلوں اور پنجاب کے آرکائیوز میں تمام حکمت عملی موجود ہے۔ اسی ایس او پی کو 2011ء کے بعد 2017ء میں بھی استعمال کیا گیا۔
ذریعے نے سوال کیا کہ ’’کیا پی ٹی آئی حکومت صرف وہیں سے کام کا آغاز کر سکتی ہے جہاں شہباز شریف نے چھوڑا تھا؟‘‘ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’ڈینگی پریونشن اینڈ کنٹرول - لاہور اے ماڈل آف سکسیس‘‘ کے نام سے اشاعت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جائزے اور غور کیلئے تیار ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افسران، ڈاکٹرز، نرسوں، سیاستدانوں، میونسپل اسٹاف اور فیلڈ ورکرز نے اپنی طے شدہ ذمہ داری سے بڑھ کر کام کیا اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر ان تھک محنت کی۔
یہ تمام لوگ اور عملہ موجود ہے لیکن جو بات نہیں ہے وہ ہے سیاسی قیادت۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے اسپتالوں کو دیکھ کر دل دکھتا ہے جہاں عوام کو بے بس اور بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے اور غریب شہری درجنوں کی تعداد میں مر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں شاید ہی کوئی حفاظتی اقدام کیا گیا ہو۔ شہباز شریف حکومت میں ڈینگی کو کنٹرول کرنے کے کام میں شامل ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ٹوئیٹ کے ذریعے ڈینگی نہیں مرتا، پسینا بہانا، محنت کرنا اور جان لڑانا پڑتی ہے۔
ذرائع کے مطابق، پنجاب ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے ڈینگی کی روک تھام کیلئے 2014ء میں ایس او پیز کے حوالے سے ایک کتاب شایع کی تھی۔ اس کی ایگزیکٹو سمری میں لکھا ہے کہ بیماری چونکہ ملک کے مختلف علاقوں میں پھیل رہی ہے اسلئے ڈینگی کی روک تھام کیلئے طویل مدت منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور ہیلتھ اور دیگر متعلقہ محکموں کے کردار اور ذمہ داریوں کا از سر نو تعین کرنا پڑے گا۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ کچھ اس انداز سے ایس او پیز بنائے جائیں کہ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے پاس زیادہ تر ذمہ داری ہو اور دیگر متعلقہ اداروں کو واضح طور پر اپنی اپنی ذمہ داریوں کا علم ہو کہ انہیں کیا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں۔
ڈینگی کی روک تھام اور خاتمے کیلئے یہ ایس او پیز ایک جامع نظام مرتب کرنے کیلئے تیار کیے گئے تھے تاکہ مرض کو نچلی سطح تک کنٹرول کرنے کیلئے تمام پالیسیاں اور فیصلے موجود ہوں اور متعلقہ سرگرمیوں پر کام ہو سکے۔ ہر ادارے، شخص اور محکمے کی ذمہ داری کا تعین بروقت پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
اس دستاویز میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ ایس او پیز پر پلان کے مطابق کارروائی کے نتیجے میں صوبہ آہستہ آہستہ ڈینگی کے مکمل خاتمے کی سمت میں گامزن ہوگا اور یہ لعنت ختم ہو سکے گی۔
تاہم، موجودہ صورتحال میں اس دستاویز کو نظر انداز کیا جا چکا ہے۔ بہرحال، سرکاری افسر کاکہناہےکہ ڈینگی گردش کرنے والا وائرس ہے جو علاقے میں ایک مخصوص وقت کے بعد دوبارہ حملہ کرتا ہے لہٰذا یہ موسمی بیماری ہے،انہوں نے کہاکہ حکومتی ادارےڈینگی لاروا کے خاتمے کیلئے سخت محنت کرتے آئے ہیں اور اس کوشش میں کوئی کثر نہیں چھوڑی گئی۔
انہوں نے کہاکہ کچھ افراد کے ڈینگی سے متاثرہوئے ہیں تاہم حکومتی کوششوں کے باعث یہ تعداد 2011کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔