• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوگل سے بیماری پوچھنے والوں نے خود کو مزید بیمار کر لیا

کراچی (نیوز ڈیسک) امریکا میں ہر پانچ میں سے دو افراد نے ’’گوگل‘‘ سے اپنی بیماری پوچھ کر خود کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مختلف افراد کی جانب سے اپنی بیماری کے حوالے سے گوگل سے پوچھنے اور غلط علامات و تشخیص کے اندازے لگانے کی وجہ سے لوگ مزید بیمار ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریسرچ مقاصد کیلئے ایک سروے کیا گیا جس میں دو ہزار افراد نے شرکت کی۔ اس تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا کہ 43؍ فیصد افراد نے اپنی بیماریوں کی علامات کو انٹرنیٹ پر تلاش کیا لیکن جب وہ اپنی بیماری کے حوالے سے علامات بتاتے تھے تو سرچنگ کے نتائج نے انہیں فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق، گوگل کرنے کے بعد پریشانی دور ہونے کی بجائے 74؍ فیصد افراد اپنی صحت کے حوالے سے دوگنا زیادہ پریشان ہوگئے۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر گوگل کو 40؍ فیصد تک ناقابل بھروسہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیٹس گیٹ چیکڈ نامی ادارے کی جانب سے کیے جانے والے اس سروے میں مرض کی تشخیص کیلئے انٹرنیٹ کا سہارا نہیں لینا چاہئے، سروے میں شامل 51؍ فیصد افراد کا کہنا تھا کہ بیمار ہونے پر وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ چوتھائی افراد کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بنیادی سہولتیں نہیں ہیں اور 10؍ میں سے 6؍ افراد ڈاکٹرز کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ کترانے کی اہم وجہ اخراجات، ڈاکٹروں کا علامات پر یقین نہ کرنا اور اپائنٹمنٹ کا بروقت نہ ملنا بتائی گئی ہے۔

تازہ ترین