عربی کے ایک مشہور مقولے کے مطابق عوام اپنے حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔حکمران جیسے رجحانات رکھتے ہوں، جس چیز کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں عوام اس پر خود بخود چل پڑتے ہیں۔
اس کی چند مثالیں دیکھتے ہیں۔ یہ لندن ہے۔جب لندن کے میئر آفس آئے تو تنِ تنہا تھے۔ آس پاس سے کوئی آواز بلند ہوئی نہ ہی آداب اور نہ کوئی چاپلوسی وخوشامدانہ جملے۔ صرف ایک بیگ ان کے پاس تھا جس کو وہ خود ہی اُٹھائے ہوئے تھے، اسی میں ان کا سارا سامان بھی تھا۔
کوئی خادم ساتھ نہیں تھا اور گارڈ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عام ٹرین ہی میں سوار ہوکر آئے تھے نہ کوئی نیلی روشنی والے سائرن، نہ ہٹو بچو کا شوروغل اور نہ ہی کوئی لینے آیا۔
اسٹیشن پر اُتر کر عام مسافروں کے ہجوم میں کھوگئے۔ بغیر سفارش اور بغیر وقت لیے ہر شخص بہ سہولت مل کر اپنا مسئلہ بتاسکتا تھا۔ یہ یورا گوائے ہے۔ لاطینی امریکا کے ایک ملک یورا گوائے کے صدر خوزی موخیکا کا شمار بھی ایسے ہی سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ ملک کا صدر ہونے کے باوجود انہوں نے ایوان صدر میں رہنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے اپنے عام سے گھر کو ترجیح دی۔ جہاں وہ بغیر کسی ملازم کے رہتے ہیں۔ پانی وہ کنویں سے حاصل کرتے ہیں اور انکے کپڑے دھونے کی جگہ گھر سے باہر ہے۔موخیکا کے پاس ایک قطعہ اراضی ہے جہاں دونوں میاں بیوی گل دائودی کاشت کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔
خوزی موخیکا کا نظریہ ہے کہ ”انسان غریب نہیں ہوتا بلکہ لالچ اسے غریب بناتا ہےیہ بھارت ہے۔ بھارتی ریاست تریپورا کے وزیراعلیٰ مانک سرکار جو کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں ملک کے سب سے غریب حکمران ہیں۔ انہیں اقتدار میں آئے پندرہ برس ہو چکے ہیں لیکن ان کے پاس ذاتی گھر اور گاڑی نہیں ہے۔مانک سرکار اپنی ساری تنخواہ پارٹی کے خزانے میں جمع کراتے ہیں۔پارٹی انہیں محض پانچ ہزاربھارتی روپے دیتی ہے جو آٹھ ہزار چار سو چونسٹھ روپے کے برابر ہیں۔
ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ ان پیسوں سے اپنا گھربار چلاتا ہے۔یہ امریکا ہے۔امریکی یونیورسٹی اسٹین فورڈ کے پروفیسرڈیوڈ چیریٹون کی دولت کا تخمینہ تین ارب ڈالریعنی 300ارب روپے لگایا گیا ہے۔
اس ارب پتی کے پاس آج بھی1986ءماڈل کی گاڑی ہے اور آج بھی وہ اپنے30سال پرانے گھر میں رہ رہا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ٹی بیگ کو دوبارہ استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح ڈش نیٹ ورک کے چیئرمین چارلی ایرگین کی دولت کا اندازہ 16.3 ارب ڈالر، یعنی 1630ارب روپے لگایا گیا ہے اورآج بھی وہ گھر سے ہی لنچ بنا کر ساتھ لے کر جاتا ہے۔
سابق ایرانی صدر محمود احمد ی نژاد صدر منتخب ہو کر ایوان صدر پہنچے توانہوں نے وہاں بچھے تما م قالین دارالحکومت تہران کی ایک مسجدمیں بچھوا دیئے۔ انہوں نے ایوان صدر میں اہم شخصیات کے استقبال کیلئے الگ لائوئج جس پر غیر معمولی اخراجات اٹھتے تھے بند کرانے کا حکم دے دیا اوراسکی جگہ ایک عام سے کمرے کا اہتمام کرنے کا کہا گیا جس میں صرف لکڑی کی کرسیاں رکھی جائیں۔
محمود احمدی نژاد ایک تھیلے میں اپنا ناشتہ لے کر ایوان صدر جاتے تھے۔ یہ ناشتہ ان کی اہلیہ تیار کرتی تھیں۔ملائیشیا کے نک عبدالعزیز کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
ملائیشیا کی ریاست کلینتان کے اس وزیر اعلیٰ کی مدت اقتدار 22 سال چھ ماہ 14 دن ہے۔ کچھ عرصہ قبل علالت کے باعث یہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہو چکے ۔ نک عبدالعزیز کو اپنے دور حکمرانی میں مرکزی حکومت کی شدید مخالفت کا سامناکرنا پڑا۔ملائیشیاکی اسلامی تحریک ”پاس“ سے تعلق رکھنے والے اس سادہ شخص کے دور میں کیلنتان کے صوبے میں لوگوں کی بڑی تعداد خطِ غربت سے نکل کی ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن ہوئی۔
ترقی کا دائرہ شہروں کے علاوہ دیہات تک بھی وسعت اختیار کر گیا۔ نک عبدالعزیز کے دور میں نہ صرف عوام کا معیار زندگی بہتر ہوا بلکہ انہیں آزادی و سکون بھی نصیب ہوا۔
وزیراعلیٰ نے نہ صرف خود سادہ زندگی بسر کی بلکہ اپنی کابینہ کے ارکان کوبھی عوام سے بہتر طرز زندگی اختیار نہ کرنے دی۔انہوں نے نہ خود کرپشن کی اور نہ ہی حکمران جماعت کو لوگوں کوبدعنوانی کرنے دی۔ وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی مقبول ہیں۔
انہوں نے کبھی بھی سرکاری وسائل کو استعمال کرنا جائز نہیں سمجھا۔ میرے سامنے ایک تصویر رکھی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک جنہوں نے دبئی بنایا شیخ محمد بن راشد المکتوم اپنے بیٹے ولی عہد شہزادہ حمدان بن محمد المکتون کے ہمراہ عام لوگوں کی طرح لندن کی ٹرین میں سفر کررہے ہیں۔
یہ تصویر دنیا بھر کے میڈیا میں زیر بحث ہے۔ شیخ محمد بن راشد دبئی میں بھی سڑکوں، ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں میں عام شہریوں کی طرح دیکھے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کو یہ حسرت رہی ہے کہ وہ بھی اپنے حکمرانوں کو ملک یا ملک کے باہر اسی روپ میں دیکھیں۔ ان کی حسرت آج تک حسرت رہی ہے۔
ہم مسلمان ہیں، ہمارا اسلام تو سادگی کی دعوت دیتا ہے اور کوئی بھی اچھی چیز ہمیشہ ”اوپر“ سے شروع ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی حکمران آئے ان میں سے کسی نے بھی سادگی کو اپنانے کی کوشش نہیں بلکہ جیسے جیسے ملک آگے بڑھتا گیا ہمارے حکمرانوں کے اندازِ حکمرانی میں سادگی کی بجائے نمودونمائش اور تعیشات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔
یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں عوام خوشحال ہیں اور پاک وطن میں حکمرانوں اور ان وزرا کے عیاش ہونے کی وجہ سے عوام غربت کی آخری لکیر پر ہیں حالانکہ ہمارے حکمران تو اس ابنِ خطاب کے نام لیوا ہیں جن کے پاس بسا اوقات دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔
ایک دفعہ نماز میں دیر ہوگئی۔ آپ نے پیغام بھجوایا: ”میرے پاس اس وقت ایک ہی جوڑا ہے اور وہ سوکھ رہا ہے۔ کچھ دیر میں خشک ہوجائے گا تو پھر آکر امامت کراؤں گا۔ “اگر آج کے ہمارے اربابِ حل وعقد کل کے عظیم مسلم حکمرانوں کے سنہرے اُصولوں پر چل کر سادگی، غریب پروری، خدمت خلق اور ایمان داری کو اپنا شیوہ بنالیں تو یقینا فلاح حاصل کرسکتے ہیں۔