’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘، بڑا خوش کن نعرہ ہے جسے سن کر عوام کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پولیس حکام عوام کو چین و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں ۔اس کے لیے نئی فورسز بنائی جاتی ہیں ، پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے ختم کرنے کے لیے پالیسیز مرتب کی جاتی ہیں۔ تھانہ ایس ایچ اوز کو اپنے علاقوں میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں، لیکن پولیس میں موجود کالی بھیڑیں پولیس کے پورے محکمے کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔
حکام کی جانب سےان کی صفائی کا عمل کیا جاتا ہے، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں۔پولیس کی جانب سے وردی اور اختیارات کا فائدہ اٹھا کر رشوت یا عوام کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات پیش آتے ہیں، جن پر اعلیٰ حکام کی طرف سے ایکشن لیا جاتا ہے، لیکن چند سالوں سے پولیس اہل کاروںنے ’’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘‘ کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ان واقعات میں ملوث کئی اہلکار گرفتار بھی ہوئے ، انہیں معطلی کی سزا بھی دی گئی لیکن واقعات میں کمی واقع نہ ہوسکی۔
22نومبر کو ایک شہری نے ایس ایچ او سولجر بازار جاوید سکندر اور ہیڈ کانسٹیبل عمران گجر کے خلاف پولیس حکام کو درخواست میں الزام عائد کیا کہ وہ اپنے تین دوستوں کے ساتھ جمشید کوارٹرکے علاقے میں بیٹھا تھا کہ سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار وہاں پہنچے اور ہمیں موبائل میں بٹھاکر نامعلوم مقام پر لے گئے۔ وہاں پہنچ کر ایک اہلکار نے اپنا تعارف ہیڈ کانسٹیل عمران گجر کے نام سے کراتے ہوئے کہا کہ تم لوگ منشیات فروخت کرتے ہو۔
تم دو لاکھ روپے دو ورنہ ہم پولیس مقابلے میں تمہیں ہلاک کردیں گے۔اس دھمکی سے خوف زدہ ہوکر ہم نے پولیس کو مطلوبہ رقم دے کر اپنی جان بچائی ۔درخواست گزار نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ عمران گجر اور جاوید سکندر کے خلاف محکمہ جاتی و قانونی کارروائی کی جائے ۔ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد اعلی حکام نے واقعے کافوری نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او سولجربازار جاوید سکندراور عمران گجر کو معطل کرکے مذکورہ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیاہے۔
دو ماہ قبل اسی قسم کا واقعہ شاہراہ فیصل تھانہ کی حدود میں پیش آیاجس میں 4 پولیس اہلکاروں کو شہریوں کی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کے الزام میں حراست میں لے کر لاک اپ کردیا گیا۔تفصیلات کے مطابق گلستان جوہر کے رہائشی پانچ نوجوانوں کی طرف سےآئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام اور ایڈیشنل آئی جی وکراچی پولیس چیف ،غلام نبی میمن اور ڈی آئی جی ایسٹ کو دی گئی درخواست میں مذکورہ اہل کاروں پر الزام عائد کیا گیا کہ مذکورہ اہل کاروںنے انہیں تاوان کے لیے اغوا کیا تھا۔ جس پر ایس ایس پی ایسٹ کے حکم پر شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں ملو ث چاروں اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
تفتیش کے بعد مذکورہ اہلکاروں کے خلاف متاثرہ نوجوان یاسر عرفات کی مدعیت میں شارع فیصل تھانے میں اغوا، ڈکیتی اور دیگر دفعات کے تحت ہیڈکانسٹیبل شکیل احمد،کانسٹیبل شکیل ، محمد اویس اور وقارکے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ 19ستمبر کو پولیس کی وردی میں ملبوس وقار سمیت 4اہلکاروں نے چار نوجوانوں کواپنے فلیٹ کی پارکنگ سے حراست میں لیا۔ مذکورہ اہل کار انہیںگلشن جمال میں واقع ایک خالی پلاٹ میں لے گئے اور انہوں نے پولیس مقابلے میں مارنے کی دھمکی دے کر ڈرایا اور پانچوں زیر حراست افراد کی جیبوں سےمبینہ طور سے 30ہزار روپے سے زائدکی رقم نکال لی۔،اسی دوران ان کے دوست عمیر کا فون آیا تو اہلکاروں نے اسے بھی فلیٹ کے پاس بلایا۔
عمیرجب وہاں پہنچا تو ان اہلکاروں نے اسے موبائل میں بٹھاکر پہلے سے زیرحراست تین ساتھیوں شعیب خالد اور حماد کووہاں اتاردیا۔پولیس اہلکار عمیر کو اے ٹی ایم لے گئے اور اس کے اکاؤنٹ 32ہزارروپے کی رقم نکلوائی۔ پولیس اہلکاروں نے اس کے بعد یاسر اور عمیر کو اتارا اور کہا کہاگر یہ واقعہ کسی کو بتایا تو تمہیںپولیس مقابلے میں ماردیں گے۔
شہر قائد میں پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں شہریوں کے اغوا کے واقعات نئے نہیں ہیں۔2013 سے اب تک اس نوع کے تقریباً نصف درجن واقعات رونما ہوچکے ہیں۔9اکتوبر 2017 جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیروز آباد تھانے پر چھاپہ مار کرغیرقانونی طور سے حراست میں رکھے گئے ایک شہری کو بازیاب کرا لیا، جسے تاوان کے لیے اغوا کرکے تھانے میں رکھا گیا تھا۔قانونی کارروائی کے بغیر حراست میں رکھے گئےاسد نامی شخص کو فیروز آباد پولیس نے4اکتوبر کو ڈیفنس فیز ون سے حراست میں لیا۔
نہ تو اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی تھانے کے ریکارڈ میں اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی تھی۔ پولیس کے اغوا کاروں نے اسد کو چھوڑنے کیلئے اس کے اہل خانہ سے 20 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور اس کیلئے 3 بار فون کیے لیکن جگہ کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم مغوی کی بیوی کو تاوان کی رقم لے کر فیروز آباد پولیس اسٹیشن پہنچنے کیلئے کہا گیا۔ اسد کے گھر والوں نے عدالت سےرجوع کیا،، جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی نے فیروز آباد تھانے پر چھاپہ مار کر اسد کو بازیاب کرا لیا۔ مغوی اسد کو تھانے کے باورچی خانے میں رکھا گیا تھا۔ مجسٹریٹ کے حکم پر 4 پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا۔
21اگست 2014 کوپولیس نےخفیہ ذرائع سے ملنے والی اطلاع پرچھاپہ مار کر اینٹی کار لفٹنگ سیل کے 2 اہلکاروں سمیت 3 اغوا کاروں کو گرفتار کرکےان کے قبضے سے مغوی پادری رزاق جان کو بازیاب کرالیا۔گرفتاری کے بعد ملزمان نے کارلفٹنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ۔
تفصیلات کے مطابق بلوچ کالونی تھانے کی حدود میںواقع جونیجو کالونی سے ایک پادری رزاق جان کو اس کی گاڑی سمیت اغوا کیا تھا اور مبینہ اغوا کارچرچ کیلئے جمع کئے گئے چندے کی رقم سے بھرا باکس بھی اٹھا کر لے گئے تھے۔ انہوں نے پادری کی رہائی کے لیے اہل خانہ سے 20 لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا تاہم پولیس نے فون کال ٹریس کرکےملزمان کی موجودگی کا پتہ لگا یا اور چھاپہ مار کر تینوں ملزمان مصطفی لاسی، غلام عباس اور زبیر کو گرفتار کر کے مغوی پادری رزاق جان کو بازیاب کرا لیا۔ ملزمان اس سے قبل بھی سنگین وارداتوں میں ملوث رہے تھے۔
آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام اورکراچی پولیس چیف نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے، وہ کراچی میں امن و امان بحال کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہوئےہیں۔لیکن پولیس میں شامل کالی بھیڑیں ان کے اقدامات کو سبو تاژ کرنے میں مصروف ہیں۔ کی ۔ پولیس ااہلکاروںکے اغوا برائے تاوان یا شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کی وارداتوں می موث ہونے کے واقعات اس کی بین مثال ہیں۔ پولیس کےمحکمے کو وردی کے پیچھے چھپے جرائم پیشہ عناصر کا سراغ لگاکر سخت اقدامات کرنا ہوں گےاور پولیس اہلکاروں کی جانب سے ’’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘‘ جیسے جرم کا خاتمہ کرنے کے واضح حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔