دنیا کے مختلف ممالک میں سطح آب پر آباد، بستیوں کے بارے میں تو پڑھتے رہتے ہیں، جو دریا یا سمندر میں بانسوں اور شہتیروں کے سہارے بنائے گئےگھروں پر مشتمل ہیں ۔ میانمار کی ریاست ’’شان‘‘ میں ضلع ٹانگی کے نیاشیوکے قصبے کے نزدیک پہاڑوں کے درمیان سطح سمندر سے 2900فٹ کی بلندی پر ’’انلے جھیل ‘‘ میں درختوں کے بڑے بڑے شہتیروں پر مضبوط پلیٹ فارم بنا کر ’’لارپاگاؤں‘‘ بسایا گیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدویت نام میں خلیج ’’ہالانگ‘‘بڑی بڑی کشتیوں پربانس اور کھپریل کی مدد سے گھر بنائےتھے جو بعد میں ’’محّلّوں‘‘ کی شکل اختیار کرگئے۔ تھائی لینڈ کےصوبے’’پھانگ نگا‘‘ کے ضلع ’’ موئنگ ‘‘میں’’کوپانی گاؤں‘‘ واقع ہے۔360 گھروں پر مشتمل یہ گاؤں بھی کشتیوں پر بسایا گیا ہے ، جس میں 1500 سے 2000 تک نفوس زندگی گزار رہے ہیں۔
18ویں صدی کے آخر میں ملائشین مسلمانوں کے’’ نومیڈک ‘‘قبیلے کے کچھ خاندان ملائشیا سے ہجرت کرکے تھائی لینڈ کے اس ضلع میں آباد ہوگئے اور بعض وجوہات کی بنا پر وہ سطح آب پرکشتیوں میں گھر بنا کر رہنے لگے۔200 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں 1500 سے 2000 تک نفوس رہائش پذیر ہیں۔
ملائشیا کی مقامی زبان میں اسے ’’پالاؤچی‘‘ گاؤں بھی کہا جاتا ہے جس میں کشتیوں پر ہی ایک بازار بنایا گیا ہے جس میں کپڑے ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ دستیاب ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ جنوبی امریکا کی ریاست پیرو میں ’’پونو‘‘ شہر کے قریب جھیل ’’ٹی ٹی کاکا‘‘میں یورو قبیلہ کے افراد نے کشتیوں پر ایک گاؤں بسایا تھا، جو آج بھی آباد ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی ایسا گاؤں موجود ہے جو ایک جھیل کے وسط میں سطح آب پر کشتیوں پر آباد ہے اور اس میں درجنوں خاندان زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر محکمہ سیاحت دل چسی لے تو اس گاؤں کو پرکشش سیاحتی مقام بناکر ملک کو خطیر زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔کراچی سے اگر ضلع دادوکی جانب سفر کریں تو جوہی تعلقہ میں کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
سیہون شریف سے 18کلومیٹر اور کراچی سے 280کلومیٹر کے فاصلے پردنیا کی قدیم ترین منچھر جھیل واقع ہے۔ اسے ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل کہا جاتا ہے اور پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔ یہ کب وجود میں آئی، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جھیل موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی زیادہ قدیم ہے لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1930میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت یہ جھیل بنائی گئی تھی۔
اس میں پانی کا منبع بلوچستان کی کیرتھر پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والا پانی ہے لیکن بارش کا پانی بھی جھیل کی سطح آب میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا رقبہ موسم کے اعتبار سے گھٹتا بڑھتا رہتاہے، جو عموماً 350سے 520رقبے پر مشتمل رہتا ہے اور یہ جھانگارہ سے شاہ حسن بوبک تک پھیلی ہوئی ہے ۔ اس کا شمار سندھ کے دلکش تفریحی مقامات میں ہوتا ہے اور ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ چھٹیوں کے دنوں میں یہاں تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔
ویسے تو قدرتی مناظر اور جنگلی حیات کی وجہ سے یہ جھیل دنیا بھر میں معروف ہے لیکن اس کا اصل حسن سطح آب پر لکڑیوں کی کشتیوں پر آبادگاؤںہے، جسے دیکھنے کے لیے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔وہ منچھر جھیل کے کنارےبنے گھاٹ سےکشتی کرائے پر لے کر اس بستی میں جاتے ہیں ،اور اس کے باسیوں کے طرز زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔سطح آب پر قائم اس گاؤں میں ’’موہانا‘‘ قبیلے کے افراد رہتے ہیں، جنہیں’’ میر بحر ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔
یہ لوگ کئی نسلوں سے کشتیوں پربنی جھونپڑیوں میں خالص قدرتی ماحو ل میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کی کشتیوں پر نہ تو برقی روشنی کا نظام ہے ، نہ پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی کی آسانی ہے لیکن کشتیوں کے باسی اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔سطح آب پر تیرتے ہوئے اس گاؤں کے باسیوں کے مطابق چند عشرے قبل تک یہاں 400 کے قریب کشتیاں موجود تھیں جن پرسیکڑوں خاندان آباد تھےجن کی گزر اوقات کا ذریعہ ماہی گیری تھا۔
ان لوگوں کا کھانا پینا، سونا، حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقریبات بھی انہی کشتیوں پرمنعقد ہوتی تھیں۔ دو کشتیاں ملا کر ان پر چھپر ڈال دیاجاتا ہے، جو جھونپڑے کی مانند معلوم ہوتا ، یہ سطح آب پر رہنے والے باسیوں کو دھوپ، سردیوں کی یخ بستہ ہواؤں اور بارش سے محفوظ رکھتا ہے۔ برسات کے دنوں میں جب جھیل میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے توان کشتیوں کو کنارے پر لگادیا جاتا ہے۔
سطح آب پر بنے ان گھروں کےاندرکمروں کی صورت میں بانس اور چٹائیوں کی مدد سے کمپارٹمنٹ بنے ہوتے ہیں، جن میں چارپائیاں بچھی ہوتی ہیں۔ پانی کی ٹنکیاں،اشیائے ضروریہ، باہر رسی پر لٹکےرنگ برنگے کپڑے،اس تیرتی ہوئی بستی کے رہائشیوں کا کل اثاثہ ہے۔
اس جھیل میں اب ایسی چند ہی رہائش گاہیں رہ گئی ہیں، ورنہ کسی دور میں یہاں پورا ’’محلہ‘‘ آباد تھا۔ کشتیوں کے ساتھ جھیل میں بنے خشکی کے چھوٹے چھوٹے قطعات یا تقریباً 50مربع گز رقبے پر مشتمل چھوٹے چھوٹے جزائر بھی ماہی گیروں کا مسکن رہے ہیں، جو اب جھیل سے نکل کر کنارے پر بس گئے ہیں۔
ان ننھے منے جزیروں میں سے ایک پر بنا بڑا سا مٹی کا چولہا اور دوسرے پر عمارت کے آثار اب بھی موجود ہیں، انہیں دیکھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ کبھی یہ بھی ہنستے کھلتے لوگوں کی بستی رہی ہوگی۔ بیشتر کشتیوں کے گھروں میں جھولے بھی موجود ہیں، جن میں یا توکشتیوں کے باسی اپنے بچوں کو سلاتے ہیں یا خود ان پر جھولتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں۔
کشتی پر بنے گھروں میں ان کا بچھونارنگ برنگی رلیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو انتہائی خوب صورت لگتی ہیں۔ دن کے اوقات میں ان رلیوں کو کشتی کے چھپرو ں پر ڈال دیا جاتا ہے جس سے اس تیرتے گاؤں کا منظر اور بھی زیادہ دل فریب ہوجاتا ہے۔ ان کشتیوں میں سے ہر ایک میں آٹھ سے دس افراد رہتے ہیں۔ ان لوگوں کا پیشہ ماہی گیری ہے اور اس تیرتے ہوئے گاؤں کے ہر خاندان کے پاس ایک چھوٹی کشتی بھی ہوتی ہے جس پر بیٹھ کر یہ لوگ جھیل میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔
اس گاؤں کے باسیوں کا رہن سہن خالص قدرتی ماحول پر مبنی ہے، موم بتی یا لالٹین جلا کر رات کی تاریکی میں اجالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ایک حصےمیںانہوں نے مٹی کے چولہے بنائے ہوئے ہیں جن میں آبی پودے اور جھاڑیوں کو خشک کرکے آگ جلانے کا سامان کیا جاتا ہے، جن پر خواتین کھانا پکاتی ہیں۔ جھیل میں کنول کی بیلوں کی بہتات ہے، موہانا قبیلے کے زیادہ تر افراد، کنول کے بیجوں، کلیوں اور اس کی جڑوں کو بطور سبزی پکا کر کھاتے ہیں، جو ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ان کی خواتین کشتیوں پر ہی کپڑے دھوتی ہیں اور بانسوں پر بندھی رسیوں پر سکھاتی ہیں۔
سائبریا اور دیگر ٹھنڈے ممالک سے پرندے منچھر جھیل کی طرف ہجرت کرکے آتے ہیں۔ ان پرندوں میں ہنس لاکو جانی، راج ہنس، آڑی (آری جل مرغی) نیگری ( نیل سر) کا نیرو (چونچ بزا) ڈگوش ( چھوٹی بطخ) کنگھا ( لنگور) چنچلوں (چکیکلو بطخ) گنگ مرغیاں اور مختلف اقسام کی بطخیںجب کہ مقامی پرندے جن میں کلغی والے ہنس شامل ہیں ۔ وہ طویل پرواز کے بعدتھک کران کشتیوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں جنہیں کشتی پر رہنے والے لوگ ہاتھ سے پکڑلیتے ہیں۔ بعد ازاں ان پرندوں کوبازار میں فروخت کرکے انہیں گزراوقات کے لیے چند روپے مل جاتے ہیں۔ جھیل کے وسط میں ایک مزار ہے جو دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سےجھیل میں اگنے والی خودرو جھاڑیوں کی آڑ میں چھپ گیا ہے۔
ڈیڑھ عشرے قبل تک منچھر جھیل میں 400 اقسام کی مچھلیاں آبی حیات کی صورت میں موجود تھیں جس کی وجہ سے قبیلے کے افرادخوش حال زندگی گزارتے تھےلیکن اب یہاں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور پاکستان کا یہ تیرتا ہوا گاؤں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ قریبی علاقوں میں صنعتوں کے قیام کی وجہ سے فیکٹریوں کا سارا فضلا اور کیمیائی مادہ بہہ کر جھیل میں آتا ہے جس کی وجہ سے اس کا پانی زہریلا ہوگیا ہے اور مچھلیوں کی صرف 40 اقسام باقی رہ گئی ہیں جبکہ پرندوں کی آمد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔
بستی کے لوگ جو مچھلی پکڑتے ہیں۔ انھیں ایجنٹ کم قیمت میں خریدتا ہے اور خود بازار میں چار گنا زیادہ نرخ پر فروخت کردیتا ہے۔ ان وجوہات سے یہاں کےزیادہ تر باسی نقل مکانی کرچکے ہیں اور اب اس میں موہانہ قبیلے کے افراد کی انتہائی قلیل تعداد بچی ہے ، جو معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر کسی وقت بھی نقل مکانی پر مجبور ہوسکتے ہیں جس کے بعد پاکستان کے اس واحد ’’تیرتے ہوئے گاؤں‘‘ کا نام و نشان مٹ جائے گا۔