ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کو مذہبی تہوار کی طرح منایا جاتا ہے
یکم دسمبرکو کراچی سمیت سندھ بھر میں یوم ثقافت روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ اس روز طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سندھ کا پورا خطہ دھنک کے رنگوں سے سج گیا۔ ہر طرف ٹوپی اور اجرکوںکی بہار نظر آرہی تھی۔ کراچی سمیت صوبے بھر کے شہر شہراور قریہ قریہ میں عید کا سا سماں تھا۔ بچے ، بڑے، بزرگ اور خواتین نئے ملبوسات زیب تن کیے ، کاندھے پر اجرک اور سر پر ٹوپی پہن کر ایک دوسرے سے بغل گیر نظر آئے۔ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کو سندھ کےباسی’’ سندھی یوم ثقافت‘‘ کو عید کے تہوار کی طرح مناتے ہیں۔
اس روز مختلف علاقوں میںتقاریب منعقد ہوتی ہیں، جن میں سندھ دھرتی کی قدیم ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے ٹیبلو زپیش کیے جاتے ہیں۔ شہنائی اور طنبورے کے ساز پر گائے جانے والے لوک گیتوں پرشرکاء والہانہ انداز میں سر دھنتے ہوئے سندھ دھرتی کی ثقافت سے اپنی محبت اور عشق کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سال کراچی میں یوم ثقافت کی مرکزی تقریب کراچی پریس کلب کے سامنے منعقد ہوئی۔ فوارہ چوک اور گورنر ہاؤس سے کراچی پریس کلب تک لوگوں کا ہجوم نظر آرہا تھا۔ اس موقع پر سندھی ٹوپی اور اجرک پہنے مرد، خواتین، بچے بزرگ روایتی انداز میں رقص کرتےنظر آئے۔
کراچی کے مختلف مقامات پر ہونے والی تقریبات میں بچوں، بڑوں اور نوجوانوں نے روایتی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ نوجوانوں نے سندھی نغموں اور لوک دھنوں پر رقص کیا جب کہ بچوں نے ٹیبلو پیش کرکے سندھ کی ثقافت کے حسین رنگ اجاگر کئے۔ نوجوان، بچے اور بوڑھے ان تقریبات میں شرکت کے لئے سندھی اجرک، ٹوپی اور لباس میں ملبوس ہوکر گھروں سے نکلے۔
ٹولیوں کی صورت میں نوجوان اجرک اور ٹوپی پہنے گشت کرتے رہے۔ یوم ثقافت کے سلسلے میں صوبے بھر میں روایتی’’مچھ کچہریاں‘‘ منعقد کی گئیں، جن میں مقامی فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئےموٹر سائیکل ریلیاں بھی نکالی گئیں جن پر سندھی ٹوپی، اجرک اور پگڑیوں میں ملبوس نوجوان سندھ کے لوک گیتوںکی دھنوں پر رقص کرتے ہوئے گزرتے رہے۔ قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کی قیادت میں میٹرو پول ہوٹل سے کراچی پریس کلب تک ثقافتی ریلی نکالی گئی۔
سندھ کے ثقافتی تہوار کے موقع پر گورنر سندھ، جناب عمران اسماعیل نے سندھ دھرتی کے عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا سندھ کی ثقافتی پہچان سندھی ٹوپی اور اجرک ہے۔ بھائی چارے، باہمی رواداری، اخوت، ایک دوسرے کی خدمت کا جذبہ صوبہ کے عوام کا طرہ امتیاز ہے۔ صوفیائے کرام کی سرزمین سندھ، اپنی قدیم تہذیب اور ثقافت کے حوالے سے منفرد اہمیت کی حامل ہے۔
یوم ثقافت کے سلسلے میں تھر کے ریگستانی خطے میں عمرکوٹ سے چالیس کلومیٹر دور ایک دشوار گزارعلاقے اور مٹی کے بلند و بالا ٹیلوں کے دامن میں واقع خوبصورت ’’کلانکر جھیل‘‘ پر عمرکوٹ کے نوجوانوں کی جانب سے ایک رنگا رنگ تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت سردار شاہ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
غروب آفتاب کے ساتھ ہی یہاں ثقافتی تقریبات کا آغاز ہوگیا جس میں اسکول کے بچوں نے ٹیبلوزاورتھر کے نامور شعراء، حاجی ساند، ہر چند ساگر،سائیں داد منگریو،قاصر اکبر منگریو نے اپنا کلام پیش کیا۔ معروف سندھی گلوکار رفیق فقیر ،فقیر اللہ بچایو و دیگر نے سندھ کے روایتی سازوں کی دھن پر سندھ کے لوک گیت اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام گاکر شرکائے تقریب کو محظوظ کیا جب کہ معروف رقاص منور بجیر نے سندھ کی خواتین کاروایتی لباس پہن کر سندھی موسیقی پر رقص کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان کے دیگر صوبوں میں ثقافتی دنوں اور علاقائی تہواروں کا انعقاد عرصہ دراز سےہوتا آرہاہے۔مارچ کے مہینے میں بلوچ ثقافت کا دن منایا جاتا ہے جب کہ اگست میں ’’پشتوفیملی کلچر شو اینڈ لٹریچر ڈے‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے صوبے کا کوئی مخصوص ثقافتی تہوار تو نہیں البتہ وہاں بسنت سمیت نصف درجن سے زائد تہوار انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ سندھ کی تہذیب انتہائی قدیم ہونے کے باوجودیہاں کے باسی اپنی تہذیب و ثقافت سے ناآشنا رہے۔
رواں صدی کے سال 2009 میں ایک افسوس ناک واقعے کی بنا پر سندھ کے باسیوں میں اپنی تہذیب و ثقافت کوعالمی سطح پر وشناس کرانے کا شعور اجاگر ہوا۔ دسمبر 2009ء میں صدر آصف علی زرداری افغانستان کے دورے پر گئے، اس موقع پر انہوں نے سندھ کی روایتی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ ایک ٹی وی نیوز چینل کے اینکر نے صحافتی اخلاقی حدود و قیود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے پروگرام میں صدر زرداری کے سندھی ٹوپی پہن کر جانےکا تمسخر اڑایا۔
مذکورہ ٹی وی اینکر کے اس غیر ذمہ دارانہ طرزعمل پر سندھ کے عوام میں بے چینی پھیل گئی۔ اس موقع پر ایک سندھی نیوز چینل سے تعلق رکھنے والے صحافی، علی قاضی نے 6 دسمبر کو ’’سندھ کے یوم ثقافت ‘‘کے طور پر منانے کا اعلان کیا جس پر صوبے بھرکے تمام مکاتب فکر کے افراد نے لبیک کہا۔6 دسمبر 2009 کو سندھ کے پہلے کلچرل ڈے اور سندھی ٹوپی اور اجرک کی تقریبات کا انعقاد رات بارہ بجے کے بعد کراچی پریس کلب کے سامنے شمعیں روشن کرکے کیا گیا۔
اس موقع پر صوبائی وزیراطلاعات شازیہ مری، سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور دیگر اکابرین نے سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ہمراہ نعرے لگائے اور سندھی ٹوپی کے حق میں تقاریر کیں۔اس موقع پر، ’’جئے سندھ‘‘ ، ’’جئے سندھ وارا جیئن‘‘ ، ’’سندھی ٹوپی اجرک وارار جیئن‘‘ ، جیسے نغموں پر رقص بھی کیا گیا۔
بدین میں صوبائی وزیرداخلہ ذوالفقار علی مرزا، دادو میں صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہرالحق، لاڑکانہ میں صوبائی وزیر ایاز سومرو، قمبر شہدادکوٹ میں صوبائی وزیر نادر مگسی کی قیادت میں ٹوپی ریلی نکالی گئی۔متحدہ قومی مومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے بھی کراچی میں سندھی ٹوپیاں پہن کر ریلیاں نکالیں۔
دوسرے روزکراچی سمیت سندھ کی تمام سڑکوں پر سارا دن لوگ اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر جلوس اور ریلیوں کی صورت میں گشت کرتے رہے جن میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک تھیں۔ اس روز صوبہ سندھ کے چپےچپے پر رنگ و نور کی بہار نظر آرہی تھی اور عید کا سا سماں تھا۔
2009کے بعد سے سندھ کا یوم ثقافت ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کو انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔اسے ایکتادیھاژو( یوم یکجہتی ) کا نام بھی دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں کراچی کے مختلف علاقوں سمیت کراچی پریس کلب پر سندھ کی ثقافتی تنظیموں کی جانب سے رات گئے’’ مچھ کچہری ‘‘کے ذریعے تقریبات کا آغاز کر دیا جاتا ہے جس کے تحت اسٹیج کے سامنے اس کچہری کی مناسبت سے آگ جلائی جاتی ہے اور سندھ بھر سے آئے ہوئے شعرائے کرام اپنے کلام کے ذریعے سندھ کی قدیم تاریخ اور ثقافت کی عظمت بیان کرتے ہیں۔
جبکہ دوسرے روز نجی چینلز اور ثقافتی تنظیموں کی جانب سے شہر میں جا بجا کنٹینر پر اسٹیج سجانے کے ساتھ ساتھ شہر کی اہم شاہراہوں پر بھی اسٹیج بنائے جاتے ہیں۔ن اسٹیجوں پر سندھ کےمعروف لوک فنکار اپنی گائیکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محفلوں کو گرماتے ہیں۔
اس موقع پر عوام کا جوش و خروش بھی قابل دید ہوتا ہے ،مرد، خواتین اور بچے جو رنگ برنگے کپڑوں، اجرک اور سندھی ٹوپی میں ملبوس ہوکر جگہ جگہ محو رقص نظر آتے ہیں۔سندھی ثقافتی دن کے موقع پر کراچی، حیدرآباد، میرپوخاص، سکھر، نواب شاہ، خیرپور، لاڑکانہ، شکارپور، دادو، ٹھٹہ، گھوٹکی اور تھرپارکر سمیت صوبے کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے پریس کلب اور آرٹس کونسل سمیت دیگر ثقافتی مراکز میں خصوصی تقاریب کا انعقاد کیا جاتاہے۔
دسمبر 2010میں سندھ کا دوسرا ’’یوم ثقافت‘‘ سرکاری سطح پر منایا گیا اور وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ کی طرف سے اس روز عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ 2011اور 2012میں بھی اس کا انعقادہوا ۔2013میںاس دن کی مناسبت سے مختلف علاقوں میں دیگر تقریبات کےعلاوہ قوالی کی محافل کا بھی انعقاد کیا گیا جن میں قوالوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور دیگر سندھی شعراء کاصوفیانہ کلام قوالی کی صورت میں پیش کرکے داد و تحسین حاصل کی۔
اس روز کراچی میں امریکی قونصلیٹ جنرل میں بھی سندھ کا ثقافتی دن انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیاجس میں خصوصی تقریب منعقد کی گئی۔ اس موقع پر امریکہ سے آئے ہوئے قوالوں کے طائفے نے شرکاء کے سامنے صوفیانہ کلام پیش کیے۔
اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ امریکی قونصل جنرل ،مائیکل ڈاڈمین اور ان کی اہلیہ نے روایتی سندھی لباس زیب تن کیا ہواتھا۔ 2014میں سندھی ثقافت کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں ایک رنگارنگ تقریب کا انعقادکیا گیا جس میں کثیر تعداد میں عمائدین شہر نے شرکت کی۔2015میںاس یوم کو منانے کے لیے امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ پر محفل موسیقی کا انعقاد کیا گیا جس میں سندھ کے لوک فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔4دسمبر 2016کودو سندھی چینلز کے اشتراک سے سندھ کے ثقافتی تہوار کے موقع پر کراچی پریس کلب میں ایک رنگا رنگ تقریب منعقد ہوئی۔
اس یوم کے حوالے سے امریکی قونصل جنرل کی جانب سے بھی قونصل خانے میں ثقافتی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔2017میں اس دن کو سندھ کے علاوہ دنیاکے متعدد ممالک میں شایان شان طریقے سے منایا گیا۔2دسمبر 2018 کو یہ دن ’ ’ایکتادیھاژو‘‘یعنی یوم یکجہتی کے طور پر منایا گیا۔ اس سلسلے میں پورے سندھ میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیاجب کہ یوم ثقافت کا مرکزی پروگرام حیدرآباد کے سندھ میوزیم میں منعقد ہوا۔
سندھ کے یوم ثقافت کو ’’اجرک اور ٹوپی کا تہوار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس روز سندھ کے لاکھوں باشندے جن میں خواتین و مرد دونوں شامل ہیں، رنگ برنگی اجرکیں کاندھے پر ڈالے نظر آتے ہیں۔ سندھ کےصحرا کے باسیوں نے دھنک کے سارے ہی رنگ اپنی اجرکوں میں سمو دیئے ہیں۔ سندھی ٹوپی اور اجرک کا شمار قدیم نوادرات میں بھی ہوتا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق موئن جو دڑوکی کھدائی کے دوران اس دور کے پروہت ’’کنگ پریسٹ ‘‘ کی مورتی کے کاندھوں پرمختلف رنگوں سے مزین جو چادر ڈلی ہوئی تھی وہ اجرک ہی کی طرح کی تھی جب کہ اس کے سر پر سندھی ٹوپی منقش تھی۔
اس سے اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ ساڑھے پانچ ہزار سال قبل موئن جو دڑو کے باشندوں میں اجرک کا استعمال عام تھاور اس کا ڈیزائن آج کے دور میں تیار کی جانی والی "ککر والی اجرک" سے ملتا جلتا ہے۔ایک روایت کے مطابق موئن جو دڑو کے پروہت روزانہ صبح نہانے کےبعدچادر اوڑھا کرتے تھے۔ ایک روز انہیں چادر کی بجائےاجرک اوڑھنے کو ملی جو کہ انہیں بے حد بھلی لگی، اس وقت سے وہ اجرک استعمال کرنے لگے۔
قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق اس دور کے دست کار ہاتھ کی کھڈیوں پر بنے کپڑےکو 100 جڑی بوٹیوں سے رنگنے کے بعد انہی جڑی بوٹیوں کے ذریعے خاص رنگ تیار کر کے ٹھپے لگا کر اجرکیں بناتے تھے جو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی تھیں۔ اسے استعمال کرنے والے لوگ سانس سمیت مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے۔ آج اجرک صرف سندھی ثقافت ہی نہیں بلکہ ملک کے معاشرتی تہذب و تمدن کی علامت بن چکی ہے اور لوگ سیاسی و سماجی تقاریب میں شرکاء اور معزز مہمانوں کوتحفے کے طور پراسے پیش کرتے ہیں۔