• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر اچھے انسان کی طرح میرے ابوبھی بہت شفیق انسان تھے، لیکن اگر انہیں کسی بات پر غصّہ آجاتا، توپھر وہ کنٹرول نہیں کرپاتے تھے۔مگر اس کےباوجود وہ ایک بہترین شوہر اوربہترین باپ تھے۔ بچپن میں ایک دفعہ رمضان المبارک کے موقعے پر امّی شدید بیمار پڑگئیں، تو ابو نے سحری کا سارا انتظام خود کیااور میری بڑی باجی کوثر کو بھی سحری بنا کر دی۔

مَیں چھوٹی تھی، روزے نہیں رکھتی تھی،مگر مجھے بھی شوق ہوا کہ میں بھی روزہ رکھوں، تو ابّو نے سختی سے منع کردیا۔ پھر انہوں نے نیّت کرکے باجی کو روزے کی نیّت کروائی، تو میں نے بھی دعا پڑھ لی اور بغیر سحری کے روزہ رکھ لیا۔ صبح معمول کے مطابق اسکول گئی، واپس آئی، تو امّی نے کھانے کو کہا، تو میں نے بہانہ بنادیا کہ ابھی بھوک نہیں ہے۔ 

کچھ دیر بعد امّی نے دوبارہ کہا، تو میں نے پھر ٹال دیا، حالاں کہ بھوک اور پیاس سے میری حالت غیر ہورہی تھی۔ پھر جب امّی نے سختی سے کہا، تو میں نے بتادیا کہ میرا روزہ ہے۔ یہ سن کر وہ تڑپ گئیں اور مجھے خوب ڈانٹا، پھر اپنے پاس لٹالیا۔ شام کو ابّو آفس سے آئے، تو امّی نے انہیں میرے بغیر سحری روزہ رکھنے کا بتایا، تو چند ثانیے وہ مجھے گھورتے رہے، پھر بے ساختہ مسکرادیئے اور بغیر آرام کیے، اسی وقت شہر چلے گئے۔

اُن دنوں ہم نواب شاہ ائرپورٹ کے نزدیک رہتے تھے۔ ہمارے علاقے میں کوئی بازار تھا، نہ کوئی دکان۔ تین چار کلو میٹر دور شہر جانے کے لیے آسانی سے کوئی سواری بھی میسّر نہیں تھی۔ ابّو پیدل ہی چلے گئے اور دوڈھائی گھنٹے بعد افطاری کے مختلف لوازمات سے لدے پھندے ٹانگے سے اترے۔ پھل، مٹھائی، سموسوں سمیت میرے لیے خُوب صُورت سا سوٹ اور پھولوں کا ہار بھی لائے۔ اچانک میری روزہ کشائی کا اہتمام دیکھ کر امّی بھی اپنی بیماری بھول گئیں۔ 

میری آئو بھگت کے ساتھ ساتھ انہوں نے گھر کو خوب صاف کیا۔ پڑوس سے بچّوں کو بھی مدعو کرلیا اور پکوڑے، دہی بڑے گھر ہی میں تیار کرلیے۔ میں نیا سُوٹ پہنے، گلے میں ہار ڈالے خوشی خوشی اِدھر سے اُدھر گھوم رہی تھی۔ یوں میری اچھی سی روزہ کشائی ہوگئی، اور وہ خوشی میں آج بھی دل میں محسوس کرتی ہوں۔ یہ میرے والدین کی اولاد سے محبت ہی تھی کہ وہ اپنی بیماری اور تھکن بھلا بیٹھے۔ 

اس ہنگامی روزہ کشائی کا چرچا کئی دنوں تک میری سہیلیوں اور پاس پڑوس میں ہوتا رہا۔ بعدازاں، یکے بعد دیگرے شاہد بھائی اور چھوٹی بہن شاہین کی بھی روزہ کشائی دھوم دھام سےکی گئی۔ کسی کو شاید اپنی روزہ کشائی یاد ہو یا نہ ہو، لیکن مجھے آج بھی وہ دن اور اس سے جڑی محبت و الفت پورے جذبات کے ساتھ یاد ہے۔ آج اگرچہ ابّو ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن ان کی محبت و شفقت اب بھی دل پہ نقش ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔ (صبا آصف)

تازہ ترین