• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  • کچھ لوگ مستقل ٹھکانوں، گھروں میں بھی بہت بے چین رہتے ہیں
  • میرے قدم میرے ساتھ جیسے ’’برف پانی‘‘ کا کھیل، کھیل رہے تھے
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

شہریار کی کہی بات میرے ذہن میں گونجی ’’اِس بات کا دھیان رکھیے گا کہ کہیں کوئی آپ کا پیچھا کرتا میرے استاد یا مہرو کے ٹھکانے تک نہ پہنچ جائے۔ اگر اُنہیں کوئی نقصان پہنچا، تو مَیں خود کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔‘‘ مَیں نے کمال صاحب کے گھر سے نکلنے کا وقت بھی آدھی رات کے لگ بھگ اِسی لیے رکھا تھا، تاکہ اگر کوئی میری تاک میں یا میرے پہرے پر بیٹھا ہو، تو اُس کی غفلت کے دوران مَیں نظر بچا کر گھر سے نکل سکوں۔ لیکن نواب تیمور کی یوں آدھی رات کے وقت اسٹیشن پر موجودگی کا یہی مطلب تھا کہ کوئی لگاتار اور مسلسل کمال صاحب کے گھر کے باہر بیٹھا ہماری نگرانی کر رہا تھا اور جیسے ہی مَیں رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلا۔ اس نے نواب کو اطلاع کردی اور میرے پیچھے پیچھے یہاں اسٹیشن تک اُسے میری ہر حرکت کی خبر دی جاتی رہی۔ نواب کو اسٹیشن پر دیکھ کر آس پاس سرکاری اہل کاروں اور عملے کے اندر تھرتھری سی مچی ہوئی تھی اور سبھی چوکنّا، چوکس دکھائی دینے کی کوشش میں مصروف تھے۔ نواب نے میری طرف قدم بڑھائے ’’مَیں جانتا تھا کہ اب آپ مجھ پر اعتبار نہیں کریں گے۔ جب میرے اپنے بیٹے نے مجھ پہ بھروسا نہیں کیا، تو آپ سے کیا گِلہ۔ 

لیکن مجھے میری نظروں میں اتنا نہ گرائیں۔ مانا مَیں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں، مگر شاید اب کفّارے کا وقت آن پہنچا ہے۔ مجھے کفّارہ تو ادا کرلینے دیں۔ عبداللہ صاحب‘‘، ’’آپ کا پچھتاوا ہی آپ کا کفّارہ ہے نواب صاحب… اور رازداری سے مہرو کی تلاش میں نکلنے کی شرط بھی شہریار ہی کی تھی۔ وہ نہیں چاہتا کہ آپ کے غصّے اور غضب کے ہاتھوں اُس کے استاد یا مہرو کو کوئی نقصان پہنچے۔ امید ہے، آپ میری مجبوری سمجھ گئے ہوں گے…‘‘ نواب نے گہری سانس لی ’’مجھے اندازہ ہے … اور مَیں بیان نہیں کرسکتا کہ مَیں کس قدر شرمندہ ہوں۔ کاش، مَیں خود مہرو کو اُس کے گھر والوں کے حوالے کر آتا، تو آج میرے دل پر اتنا بوجھ نہ ہوتا۔ 

ایک باپ کے لیے سب سے بڑا مدّمقابل اِس کا اپنا بیٹا، اُس کا وارث ہوتا ہے۔ شہریار نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ اور جس ہمّت اور بہادری سے اُس نے مہرو کو محل سے آزاد کروایا ہے، اُس نے یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ شہریار سے متعلق میرے سارے خدشات غلط تھے۔ وقت آنےپروہ اپنی ساری ذمّے داریاں احسن طریقے سے نبھائے گا۔ مَیں آج یہاں آپ سے صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ اگر مہرو آپ کو مل جائے، تو میری طرف سے بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیے گا۔ خدا آپ کا سفر بخیر کرے۔ اور آپ کو آپ کے مقصد میں کام یاب کرے۔ ہوسکے تو آپ بھی مجھے معاف کردیجیے گا۔‘‘ نواب نے آگے بڑھ کر مجھے زور سے گلے لگایا اور اپنی نَم آنکھیں چُھپاتے ہوئے وہاں سے پلٹ گیا۔

گاڑی چل پڑی اور مَیں ایک گوشے میں خود کو دوسروں کی نگاہوں سے چُھپائے سمٹ کر بیٹھ گیا۔ مختارپور میری منزل تھا، مگر مختارپور کے قصبے تک ابھی پورے ایک دن اور ایک رات کا سفر باقی تھا۔ مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ نواب پور کے پلیٹ فارم پر جب نواب تیمور مجھ سے مل رہے تھے، تب دُور کھڑا ایک سادہ لباس والا اہل کار مجھے بہت غور اور عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جانے وہ نواب صاحب کے عملے کا فرد تھا یا پولیس کا کوئی اہل کار، مگر اس کی نظریں بڑی چبھنے والی تھیں۔ وہی بندہ مجھے اپنے ڈبّے کے اندر بیٹھا نظر آیا، تو میرا ماتھا ٹھنکا، لیکن وہ لاتعلق سا اخبار سامنے پھیلائے خبریں پڑھنے میں مصروف تھا۔ مَیں نے اپنے ذہن سے وسوسے جھٹکنے کی کوشش کی۔ 

ہوسکتا ہے یہ صرف ایک اتفاق ہو … اور وہ اپنی ہی منزل کی جانب رواں ہو۔ میں نے فیصلہ کرلیاکہ اگلے آنے والے کسی بھی بڑے جنکشن پر اُترکرخود کو پلیٹ فارم کی بھیڑ میں گم کردوں گا اور پھر مختارپور کے لیےکوئی دوسری گاڑی پکڑوں گا۔ پھرمیرےذہن میں شک کا ایک اورسنپولیا کلبلایا۔ کہیں یہ نواب تیمور کی طرف ہی سے مقرر کردہ کوئی مخبر تو نہیں، جسے میرے پیچھے لگا کر وہ مہرو تک پہنچناچاہتاہے۔ نہیں نہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ نواب میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا نہیں کرسکتا۔ مَیں نے بےچینی سے کئی پہلو بدلے، مگر جب تک گاڑی کسی بڑے اسٹیشن پر رُک نہ جاتی، تب تک مَیں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ 

اس لیے مجبوراً منہ سر ڈھانپے وہیں پڑا رہا۔ سامنے والی نشستوں پر چند بوڑھے بیٹھے زور شور سے بڑھتی مہنگائی پر کچھ بحث کررہے تھے۔ ایک بڑے میاں اپنے گھر کی عورتوں اور بچّوں کو بار بار ڈانٹ رہے تھے کہ گھر سےنکلتے وقت قیمہ، پراٹھے ٹھیک سے گرم کرکے ٹفن میں پیک کیوں نہیں کیے، اب وہ کھانا کہاں سےگرم کروائیں گے …؟ ایک طرف چند نوجوانوں نےٹرین چلتے ہی ڈبّے کے فرش پر اپنی چادر بچھائی اور تاش کی بند گڈی کھول کر فوراً تاش کے پتّے بانٹے اور رَمی کھیلنا شروع کردی۔

کچھ حضرات نے جو پہلے سے اپنی اپنی برتھوں پر سوئے خرّاٹے لے رہے تھے، ٹرین کے دوبارہ چلنے پر اٹھ کر دو چار انگڑائیاں لیں اور پھر سے منہ پر چادر ڈال، لمبی تان کر سوگئے … کچھ لوگ کتنی جلدی ٹرین کے عارضی سفر میں بھی اتنی سہولت سے رَچ بس جاتے ہیں اور کچھ تمام عُمر اپنے مستقل ٹھکانوں اور گھروں میں بھی کتنے بے چین رہتے ہیں۔ شاید کہیں بس جانے کا تعلق جگہ اور اس مقام کے عارضی یا مستقل ہونے سےنہیں ہوتا۔ یہ سب ہماری اندرونی بےچینیاں اور مختلف گرہیں ہیں، جو ہمیں تمام عُمر کسی کسک یا بے چینی کے احساس میں جیتے رہنے پرمجبور کرتی ہیں۔ انسان کے اندر سُکون ہو، تو اُسے پلیٹ فارم کے بینچ پر گاڑی کے انتظار کے دوران بھی نیند آجاتی ہے۔ اتنے میں دُور کسی برتھ پر کسی مَن چلے نے اپنے ریڈیو کی سوئی گھمائی اور فضا میں کسی دل جلے نغمہ نگار کے بول گونج اٹھے۔

’’طبیعت ٹھیک تھی اور دل بھی بےقرار نہ تھا..... یہ تب کی بات ہے، جب کسی سے پیار نہ تھا..... جب سے پریت سپنوں میں سمائی مار گئی..... مَن کے میٹھے درد کی گہرائی مار گئی..... نینوں سے یہ نینوں کی سگائی مار گئی.....اور باقی کچھ بچا، تو مہنگائی مار گئی، مہنگائی مار گئی‘‘۔ ایک بڑے میاں بہت جوش سے بولے ’’سچ ہی تو کہا ہے کسی نے۔ اس مہنگائی نے تو کمر توڑ کر رکھ دی ہے ہماری۔ غضب خدا کا، جینا مشکل ہوگیا ہے، سبھی بوکھلائے پِھرتے ہیں، نہ مجنوں کو لیلیٰ کی خبر، نہ زلیخا کو یوسف کی۔ مَیں کہے دیتا ہوں۔ یہ حکومت زیادہ نہیں چلنے کی۔؎ ’’کیسے وقت میں ہائے دل کو دل کی لگی بیماری..... مہنگائی کے دَور میں ہوگئی مہنگی یار کی یاری..... دل کی لگی دل کو جب لگائی، مار گئی..... دل نے دی تو پیار کی دہائی مار گئی..... دل کی بات دنیا کو بتائی مار گئی..... اور دل کی بات دل میں جو چُھپائی مار گئی..... اور باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی… مہنگائی مارگئی‘‘۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے ریڈیو پر بجتے اُس نغمے نےڈبّے کے سب مکینوں کےدل کے تار چھیڑ دیئے ہیں۔ سبھی ٹھنڈی آہیں بھر بھر کے حکومت کو کوسنے، بددعائیں دے رہے تھے۔ انسان ہی انسان کے ہر دُکھ درد کا درماں یا انتظام کب کرسکتا ہے بھلا۔ یہ انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ مگر یہ بات کسی کو کم ہی سمجھ آتی ہے۔

اچانک ٹرین کی رفتار دھیمی ہونے لگی۔ مَیں چوکنّا ہوکر بیٹھ گیا۔ مضافات بتارہے تھے کہ کسی بڑے شہر کا اسٹیشن قریب آرہا ہے۔ میرے لیے یہ بہترین موقع تھا، خود کو غائب کرنے کا۔ ٹرین سیٹیاں بچاتی پلیٹ فارم پر چڑھی اور آگے جاکر رُک گئی۔ مَیں نے اٹھنے کا ارادہ کیا، مگر مجھ سے پہلےہی وہ مشکوک شخص اپنا بریف کیس سنبھالے اُٹھا اور گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے نیچے اُترگیا۔ 

مَیں نے کچھ پَل انتظار کیا اور پھر اُس کے پیچھے اُتر کر اُسے دیکھا، تو وہ پلیٹ فارم سے باہر نکلتےہوئے کسی رکشے والے سے اپنی منزل کے کرائے پر بحث کر رہا تھا۔ مَیں نے ایک گہری سانس لی۔ گویا وہ سب میرا وہم ہی تھا۔ اور جسے میں نواب کا اہل کار سمجھ رہا تھا، وہ بس اتفاقاً ہی میرے ڈبّے میں میرے ساتھ سوار ہوگیا تھا۔ ٹرین نے کچھ دیر بعد سیٹی بجائی اور مَیں اپنی جگہ پر واپس آکر بیٹھ گیا۔ ایک دن یونہی بیت گیا اور پھر اگلے روزعصر کے وقت گاڑی مختارپور کے پلیٹ فارم پر آلگی۔

نواب پور کی طرح یہ بھی ایک پرانی ریاست تھی، جس کے ماحول اور دَرو دیوار پر گلابی رنگ کی آمیزش زیادہ تھی۔ اسٹیشن پرکافی بھیڑ تھی۔ مَیں نے پلیٹ فارم سے نکلنے سے پہلے اچھی طرح اطمینان کیا کہ کہیں کوئی آس پاس میرا پیچھا تو نہیں کر رہا۔ باہر بہت سے سائیکل رکشہ، تانگے اور بگھیوں والے مسافروں کو لےجانے کے لیے کھڑے آوازیں لگارہے تھے۔ اِکّا دُکّا مخصوص 70ماڈل کی پرانی ٹیکسیاں بھی کھڑی تھیں، جن میں زیادہ تر بابو ٹائپ سرکاری ملازم ہی اپنا سامان رکھوارہے تھے۔ مَیں نے ایک تانگے والے سے پوچھا ’’مومن نگر چلو گے…؟‘‘ تانگے والے نے کسی فلمی ہیرو کے انداز میں بیڑی ہونٹوں میں دبائے جواب دیا۔ ’’ضرورچلیں گےصاحب! تبھی توکھڑے ہیں یہاں…‘‘ مختارپور کی شام گلابی تھی اور آسمان پر بھی چند گلابی بادل تیر رہے تھے، مگر جن کے دل غم کے اندھیروں سے تاریک ہوں، اُنہیں باہر کے سارے موسم ایک جیسے لگتے ہیں۔ 

تانگہ مختلف سڑکوں سے ہوتا ہوا ایک پرانے محلّے میں داخل ہوگیا، جس کے باہر پرانی طرز کا لکڑی کا گیٹ ابھی تک قائم تھا اور اندر احاطے میں برطانوی طرز کے لیمپ، پوسٹ اور کھمبے گلیوں کے سرے پر کھڑے نظر آرہے تھے۔ تانگے والے نے مجھ سے پوچھا ’’مومن نگر آگیا ہے جناب … کہیے، کس گلی میں اتاروں۔ کس کے گھر جانا ہے؟‘‘ مَیں نے اپنا عذر پیش کیا، ’’جانا تو مجھے تیسری گلی میں اکبر علی صاحب کے گھر ہے، مگر مَیں یہاں پہلے کبھی آیا نہیں۔ پہلے کسی سے اُن کا پتا پوچھ لو۔ اگر وہ یہاں نہ ہوئے، تو تم ہی مجھے دوبارہ اسٹیشن لے جانا۔ مَیں وہیں آس پاس کسی مسافر خانے میں قیام کرکے ان کے آنے کا انتظار کروں گا۔ تانگے والے نے سر ہلایا اور سامنے کسی پان کی دکان والے سے چلّا کر اکبرعلی کا پتا پوچھا… ’’سنیے جناب! یہ اکبر علی صاحب کا مکان کہاں ہے اور وہ یہیں ہوتے ہیں آج کل کیا…؟‘‘ پنواڑی نے گلوری بنا کر سامنے کھڑے گاہک کے منہ میں رکھی ’’اماں کون سے اکبر صاحب! میاں ہم نے تو نہیں سُنا یہ نام کبھی اس محلے میں۔‘‘ میرا دل ڈوب سا گیا۔ اس کا مطلب ہے، شہریار کے استاد ابھی تک اپنے دیئے ہوئے پتے پرنہیں پہنچے تھے۔ 

تانگے والے نےمایوسی سے میری طرف دیکھا۔ مَیں نے ایک آخری کوشش کی’’معلّم ہیں، پہلےکسی اور ریاست میں تعلیم کے شعبے سے منسلک تھے، پھر وہاں سے نوکری ختم کرکے یہاں چلے آنےکا قصد کیا تھا انہوں نے۔ گھر والے بھی ساتھ ہوں شاید۔ ان کی زوجہ محترمہ اور دو بچّیاں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔‘‘ گلوری چبانے والے گاہک نے چونک کر میری طرف دیکھا ’’ارے ہاں … ایک صاحب ابھی پچھلے ہفتے ہی کوچہ صداقت علی میں منتقل تو ہوئے ہیں۔ سُنا ہے اِتنا ہی خاندان بھی ساتھ ہے اُن کے۔ ابھی کل ہی مولوی صاحب نے مسجد میں اعلان کیا ہے، ان کے لیے کہ محلّے میں اور ارد گرد دیگر گلیوں میں کسی نے اپنے بچّے کو ٹیوشن وغیرہ پڑھانی ہو شام کو تو اُن سے رابطہ کریں۔ بس نام میرے ذہن سے نکل گیا۔ آپ کہیں تو چل کر پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ میری رگوں میں خون کی گردش تیز ہونے لگی۔ ہو نہ ہو، وہ اکبر صاحب ہی ہوں گے۔

مَیں نے جلدی سے تانگے والے کو فارغ کیا اور اُن صاحب کے ساتھ چل پڑا۔ دو تین گلیاں گزر کر ہم ایک کشادہ سے احاطے میں آگئے۔ وہاں بیٹھے کسی بزرگ سے اُن صاحب نے پوچھا ’’چچا! یہ نئے محلّے دار جو آئے ہیں، ان بزرگوار کا نام کیا ہے۔‘‘ بوڑھے نے سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا ’’اکبر علی نام ہے اُن کا … کیوں کیاکسی بچّےکوسپارہ وغیرہ پڑھوانا ہے کیا…؟‘‘ ’’نہیں، اُن کے مہمان آئے ہیں ملنے، چلیں جناب، آپ کا کام تو ہوگیا۔ وہ سامنے تازہ سفید قلعی والا دروازہ ہے اُن کے مکان کا۔‘‘ وہ صاحب مجھ سے ہاتھ ملاکر آگے بڑھ گئے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ مَیں اتنی آسانی سے اکبر صاحب کو ڈھوند نکالوں گا۔ مجھے یہاں تک پہنچانے والے رہبر نے مجھے یہی بتایا تھا کہ اُن اکبر صاحب کی بھی دو بیٹیاں تھیں۔ 

وہ شاید اِسی گلی کے آس پاس کے مکین تھے، تبھی انہیں نئے آنے والے ہم سائے کے بارے میں اتنی زیادہ تفصیلات کا علم تھا۔ اور اگر یہ وہی شہریار کے استاد اکبر تھے، تو اس کا مطلب ہےکہ مہرو ابھی تک ان کےساتھ ہی تھی،کیوں کہ اُن کی اپنی تو ایک ہی بیٹی تھی۔ دوسری لڑکی کے ساتھ ہونے کا یہی مطلب تھا کہ مہرو ابھی تک اسی خاندان کےساتھ رہ رہی ہے۔ مَیں لزرتے قدموں کےساتھ اس سامنےوالے مکان کے دروازے تک پہنچا۔ محلّے کے احاطے میں کچھ بچّے شور مچاتے ’’برف پانی‘‘ کا کھیل کھیل رہے تھے، کوئی بچّہ دوسرے بھاگتے بچّے کو چُھو کر ’’برف‘‘ کہتا اور دوسرا بچّہ برف کی طرح اپنی جگہ اُسی حالت میں ساکت، منجمد ہوجاتا اور پھر کوئی اور بھاگتے ہوئے اُسے چُھو کر ’’پانی‘‘ کہہ کر پھر سے رواں کردیتا۔ میرے قدم بھی اس وقت میرے ساتھ برف، پانی ہی کا کھیل کھیل رہےتھے۔ 

کبھی منجمد، تو کبھی رواں۔ مَیں نے دروازے کے پاس پہنچ کر اپنے حواس یک جا کرنے کی کوشش کی اور دھڑکتے دل سے دروازے پر دستک دی۔ اندر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مَیں نےدوسری بارکنڈی ہلائی۔ اندر سے کسی کے قدموں کی آواز دروازے کی جانب آتی محسوس ہوئی اور پھر کسی لڑکی نے دروازے کے قریب آکر پوچھا ’’جی … کون …؟‘‘ میری سانسیں اٹکنے لگیں۔ میں بہ مشکل اتنا ہی کہہ پایا ’’مَیں … عبداللہ …‘‘ اور ٹھیک اُسی وقت کوئی دُور سے چلّایا ’’وہ رہا … ہاں، وہی ہے۔‘‘

مَیں نے گھبرا کرپلٹ کےدیکھا، تو میرے ہوش اُڑگئے۔ وہی مشکوک شخص، جو نواب پور سے میرے ساتھ ڈبّے میں سوار ہوا تھا۔ چار پانچ مزید لوگوں کے ساتھ دوڑتا ہوا میری طرف آرہا تھا اور اُس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار بھی تھا۔ مَیں نے بوکھلا کر دوسری جانب دیکھا، تو وہاں بھی کچھ لوگ مجھے اپنی جانب لپکتے نظر آئے۔ میرے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ مَیں نے تیزی سے خود کو سمیٹا چوبارے کی جانب سے باہر سڑک پر کُھلتی گلی کی جانب لپکا کہ شاید باہر کی بھیڑ میں خود کو گم کرسکوں، مگروہ لوگ گلی کا سرا پہنچنے سے پہلے ہی میرے سر پہ پہنچ چکے تھے اور تب مجھے احساس ہوا کہ گلی کے سرے پر بھی انہی کے پہرے دار موجود ہیں۔ ٹرین والے بندے نے مجھ پر پستول تان لیا… ’’اب مزید بھاگنا فضول ہے۔ تم چاروں طرف سےگھیرےجاچکے ہو۔ مَیں نے اِسی لیے اسٹیشن کی بھیڑ میں تم پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا، کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ تم ہجوم میں خود کوگم کرلوگے۔ بہت بھگایا ہے تم نے ہمیں اپنے پیچھے۔ 

لیکن بس۔ اب بہت ہوگیا … ہتھیار ڈال دو … ورنہ میں تمہیں گولی مارنے میں ایک پل کی دیر بھی نہیں کروں گا…‘‘ مَیں نے ایک گہری سانس لی۔ ’’میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ تم تلاشی لےسکتے ہو؟‘‘ اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور اپنے کسی نائب کواشارہ کیا۔اُس نےجلدی سےمیرےسارے جسم کو اچھی طرح ٹٹولا۔ میرے جسم کو ڈھانپتی سیاہ چادر بھی اتار کر ایک جانب پھینک دی۔ پھر ان میں سے کسی نے جیب سے ہتھکڑیاں نکالیں اور میرے ہاتھوں میں ڈال دیں۔ ’’تمہیں سزائے موت کے قیدی ہونے کی حیثیت سے اور جیل توڑ کر بھاگنے کے جرم میں گرفتارکیاجاتاہےساحر۔ مَیں تو تمہیں نواب پور کے اسٹیشن پر دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ تم وہی ہو، حالاں کہ تم نے حلیہ خوب بدلہ ہے کسی جوگی فقیر کا۔ 

لیکن میرا نام بھی اسد ہے، اسد۔ انسپکٹرکرائمزبرانچ آف پولیس… تم میری آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ اچھا ہوا تم نے زیادہ مزاحمت نہیں کی، ورنہ ہمیں تمہیں دیکھتے ہی سیدھے گولی مار دینے کا حُکم ملا ہوا ہے۔‘‘ مَیں نے اُسے دیکھا۔ ’’اِس کا مطلب ہے کہ میری قضا اس مومن آباد محلّے کی اس گلی میں نہیں لکھی تھی، ورنہ اس وقت ہم یہ سوال جواب نہ کررہے ہوتے۔‘‘ آس پاس لوگ ہراساں دُور کھڑے یہ سارا منظردیکھ رہے تھے۔ 

مجھے دھکیل کر باہر سڑک پر کھڑی ایک سرکاری جیپ میں بٹھادیا گیا۔ مجھے ایک بات کی تسلّی تھی کہ نواب تیمور نےاپنا وعدہ نبھایا تھا اوراگرمیرا پیچھا کرنےوالے اُس کے ہرکارے ہوتے، تو شاید وہ اب تک استاد اکبر کے دروازے پر کھڑے ہوتے۔ پولیس کی گاڑی مختلف گلیوں سے گزرتی مجھے لے کر تھانے پہنچ گئی، جہاں پولیس کا عملہ ایک سزائے موت کےبھاگے قیدی کو دیکھنے کے لیے امڈ آیا تھا۔ مجھے گرفتار کرنے والے انسپکٹر کانام اسد زمان تھا اوروہ شاید گزشتہ کئی ہفتوں سے ہم سب کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا۔ مجھے حوالات میں بند کر دیا گیا۔

شاید میری کہانی، میرامقصد پورا ہونےسے قبل ہی ختم ہوگئی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ اگلے روز مجھے اُسی جیل سے ایک ٹیم لینے کے لیے یہاں پہنچ جائے گی، جہاں سے ہم سب فرار ہوئے تھے۔ مطلب پھر وہی کال کوٹھری اور پھر وہی بیڑیاں۔ رات کو میرےپہرےکاخصوصی بندوبست کیاگیااور چار چوکنّے سپاہی حوالات کے اردگرد بندوقیں تانیں کھڑے رہے۔ اگلےدن کوئی بڑے افسر تشریف لائے، تو انہیں میری گرفتاری کا قصّہ خوب نمک مرچ لگا کر سُنایا گیا۔ اخبار والے آئے، مجھے پولیس کے قدموں میں بٹھاکر ساری ٹیم کی تصویریں بنائی گئیں۔ اگلے دن مجھے بڑے شہر کی جیل منتقل کیا جانا تھا۔ میں حوالات میں گُھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کہ باہر راہ داری میں کسی کے قدموں کی چاپ سُنائی دی اور آنے والا میری بیرک کی سلاخوں کے پاس آکر رُک گیا۔ مَیں نے سراٹھاکردیکھا، تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ’’آپ… یہاں …؟؟‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین