• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  • انسانی سوچ کی چرخی پہلی سانس کے ساتھ ہی چلنا شروع ہوجاتی ہے
  • وہ میرے شہر سے جا چُکی تھی، تبھی ڈھلتی شاموں کے رنگ پھیکے پڑنےلگے تھے
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

آج کے دن بھی اس سارے ہنگامے اور پولیس کی بھاگ دوڑ میں شام اُتر آئی تھی۔ بہت سے کاغذات بھرنے، مختلف رجسٹرز پر دستخط کروانے اور انگوٹھے لگوانے کے بعد مجھے حوالات میں دھکیل کر باہر سے تالا ڈال دیا گیا، لیکن اےکاش، کسی نے کوئی ایسا تالا بھی ایجاد کیا ہوتا، جو ہماری سوچوں کو بھی کسی جیل یا زنداں میں مقفّل کرسکتا۔ کیا بلا ہے یہ انسانی سوچ بھی، دُنیا میں وارد ہونے کے بعد پہلی سانس کے ساتھ ہی یہ چرخی چلنا شروع ہوجاتی ہے اور سُنا ہے آخری سانس سینے سے نکل جانے کے بعد بھی آٹھ نو منٹ لگتے ہیں، اِس سوچ کو پوری طرح تھمنے میں۔ 

کبھی کسی نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ہم عُمر بھر میں کتنا سوچتے ہیں، شاید تمام عُمر کے منٹ، گھنٹے، دِن، ہفتے، مہینے اور سال مل کر بھی اِس سوچ کا احاطہ نہ کرسکیں۔ انسانی عُمر کی لمبائی کا یہ پیمانہ بہت سطحی لگتا ہے مجھے، کسی بھی انسان کی ساری زندگی کی سوچوں کو ناپنے کے لیے کہ ہر انسان کی سوچ اَزل تا اَبد کے عرصے پر محیط ہوتی ہے۔ 

جو کچھ اس کائنات میں تھا، جو ہے اور جو بھی ہوگا، وہ سب قدرت نے پہلے ہی سے انسانی سوچ کو عطا کر رکھا ہے، البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس سوچ کے خزانے کو صرف اپنی عُمر بھر کی خوشیاں، غم اور پریشانیاں گِننے ہی تک محدود رکھتے ہیں۔ مَیں بھی گُھٹنوں میں سر دیئے اپنی بیرک میں بیٹھا، اسی سوچ کی گہرائیاں ناپ رہا تھا کہ باہر راہ داری میں کسی کے قدموں کی چاپ اُبھری۔ آنے والا حوالات کی سلاخوں کے پاس آکر رُک گیا۔ مَیں نے سر اُٹھا کر دیکھا، تو آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ ’’آپ… یہاں…؟‘‘ مَیں دوڑ کر سلاخوں تک پہنچا، مگر اس سے پہلے ہی میری آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں ہو چُکا تھا۔ ہاں، وہ پاپا ہی تھے۔ 

کم زور، لاغر، پریشان حال سے۔ وہ جن کی ڈریسنگ سینس اور میچنگ کی کبھی سارا زمانہ مثالیں دیتا تھا، آج ایک شِکن زدہ سے کُرتے پاجامے میں بکھرے بالوں اور کئی دنوں کی بڑھی شیو کے ساتھ میرے سامنے کھڑے تھے، لیکن کیسی عجب مجبوری تھی کہ سلاخوں کی دیوار کی وجہ سے مَیں اُنہیں جھپٹ کر گلے بھی نہیں لگا سکتا تھا۔ مَیں نے اُن کے لرزتے کانپتے ہاتھ تھام لیے۔ ’’آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔ 

آپ کی طبیعت مجھے کچھ ٹھیک محسوس نہیں ہورہی؟‘‘ اُن کی آواز میں نقاہت تھی۔ ’’کیسے نہ آتا۔ سارے میڈیا پر تمہاری گرفتاری کی خبر چل رہی ہے، پچھلے تین دن سے۔ مجھ سے رہا نہیں گیا، بڑی مشکل سے تم سے ملنے کی اجازت ملی ہے۔ پھر نہ جانے ملاقات ہو، نہ ہو.....‘‘ اُن کی آواز سے جھلکتی بےبسی نے مجھے بھی اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ اے کاش! قدرت نے انہیں مجھ سا ناخلف بیٹا عطا نہ کیا ہوتا۔ کوئی ایسا وارث دیا ہوتا، جو بڑھاپے میں اُن کا سہارا بنتا، اُن کا بوجھ اُٹھاتا، اُنہیں اُن کے آخری دِنوں میں کوئی سُکھ، کوئی آرام دیتا۔ 

میری جھولی میں تو صرف دُکھ ہی دُکھ بھرے تھے، ہم دونوں بہت دیر چُپ چاپ یونہی سلاخوں کے آر پار کھڑے رہے، تبھی اچانک باہر کی جانب کچھ ہلچل ہوئی۔ ’’ہوشیار، آسان باش....‘‘ کی صدائیں اُبھریں، اور ایک سپاہی راہ داری سے بھاگتا ہوا ہماری طرف آیا۔ ’’ہوشیار ہوجائو۔ بڑے جیلر صاب آرہے ہیں اور بزرگو، آپ یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو۔ 

چلو جلدی خدا حافظ کرو قیدی سے… جیلر صاب کا دورہ آیا ہے اچانک۔ یہ وقت ملاقات کا نہیں ہے۔‘‘ پاپا نے کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن اتنی دیر میں جیلر صاحب اپنے عملے کے ساتھ راہ داری میں داخل ہوچُکے تھے۔ نچلا عملہ گھبرایا ہوا اُن کے پیچھے لپکتا آ رہا تھا،مگر وہ سیدھے میری بیرک کے قریب آکر کھڑے ہوگئے۔ ’’اچھا، تو تم ہو ساحر… بہت بھگایا ہے تم نے ہمیں۔ لیکن دیکھ لو، قیدی کو ایک نہ ایک دن سلاخوں کے پیچھے آنا ہی ہوتاہے۔ چاہے وہ کہیں بھی چلا جائے۔‘‘ مَیں خاموش رہا۔

وہ پاپا کی طرف مُڑے۔ ’’یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میرے پاس آپ دونوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ آج صبح ہی سعد کامران عرف سِڈ نامی لڑکے نے سارے میڈیا اور پریس کےسامنے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے کہ سَنی کی موت ساحر کے ہاتھوں نہیں بلکہ اُس کی چلائی گولی سے ہوئی تھی۔ 

اُس نے خود کو گرفتاری کے لیے بھی پیش کردیا ہے، مگر اُس کی بیماری اور بگڑتی حالت کے پیشِ نظر اُسے فی الحال اُسی اسپتال میں رکھا گیا ہے، جہاں اُس کا علاج جاری تھا پہلے سے۔‘‘ جیلر صاحب کی بات سُن کر پاپا پر شادئٔ مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ ’’کیا… آپ سچ کہہ رہے ہیں جیلر صاحب… یعنی اب میرا ساحر رہا ہوجائے گا؟‘‘ جیلر نے اُن کا شانہ تھپتھپایا۔ 

’’سزائے موت تو عدالت، پہلی پیشی ہی میں ختم کردے گی، کیوں کہ اصل مجرم نے اقبالِ جُرم کرلیا ہے، البتہ جیل توڑ کر بھاگنے کا کیس باقی رہے گا، مگر کوئی بھی اچھا وکیل جُرم اور سزا کی بنیاد ختم ہوجانے کی دلیل پر آپ کے بیٹے کو جلد ضمانت پر رہا کروا لے گا۔ مجھے اُمید ہے ساحر پر قتل کا الزام ختم ہو جانے کے بعد عدالت اس کے ساتھ نرمی کا برتائو کرے گی۔‘‘ پاپا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سارے زمانے میں میری بے گناہی کا ڈھول پیٹ کر مجھے اُسی وقت جیل سے چُھڑوا کر لے جاتے۔ 

جیلر کے جانے کے بعد بھی وہ بہت دیر تک میرا ہاتھ پکڑے روتے رہے، مگر آج اُن کے یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ مَیں نے انہیں سِڈ کی بیماری کے بارے میں بتایا۔ ’’مجھے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کروانا ہوگا پاپا… سِڈ کے ہاتھوں گولی غلطی سے چلی تھی۔ وہ سَنی کو مارنا نہیں چاہتے تھے، یہ قتلِ عمد نہیں، قتلِ خطا کا کیس ہے۔‘‘

اور پھر جیسے جیلر صاحب نے بتایا تھا، ٹھیک تین ہفتے بعد عدالت نےمجھے ضمانت پر رہا کردیا۔ مجھ پر جیل توڑ کر بھاگنے کا الزام ابھی باقی تھا، مگر میرے وکیل کو یقین تھا کہ عدالت میرے جیل میں گزارے سالوں ہی کو میری قید میں شمار کرکے میرے جُرم کی باقی سزا معاف کردے گی۔ پاپا نے سلمان دانش کے گھر جاکر اُن سے سَنی کی موت کی تعزیت کے ساتھ ساتھ یہ درخواست بھی کی کہ وہ سِڈ کو معاف کردیں۔ کوئی بھی اُن کے بیٹے کی جان نہیں لینا چاہتا تھا۔ سِڈ کی بیماری کا سُن کر خود سَنی کے ڈیڈ بھی اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ ایک اندھیری رات میں شروع ہونے والی سِڈ، سَنی اور میری کہانی کا انجام قریب تھا، مگر اُس رات اور بھی بہت سی کہانیوں کا اختتام ہوا۔

مَیں اور پاپا سلمان دانش کے گھر سے واپس آئے، تو وہ چُپ چاپ سے تھے اور مَیں چاہ کر بھی اُن سے زہرا کے بارے میں نہیں پوچھ سکا کہ وہ کیسی ہے، کہاں ہے…؟ آخر انہوں نے رات گئے خود ہی بات چھیڑی۔ ’’وہ لوگ یہ شہر چھوڑ کر جاچُکے ہیں۔ زہرا کے ابّا جانے سے پہلے آخری مرتبہ ملنے آئے تھے مجھ سے۔ بہت پریشان تھے، زہرا کی وجہ سے۔ کہہ رہے تھے کہ جب تک وہ لوگ اِس شہر میں رہیں گے، زہرا کے ذہن سے میرا خیال نہیں نکل پائے گا۔ اس لیے وہ لوگ اپنی ساری جائداد بیچ باچ کر اور کاروبار سمیٹ کر کسی دُوسرے شہر جانے کا سوچ رہے ہیں۔ 

شاید مُلک ہی سے رُخصت ہوگئے ہوں، کیوں کہ زہرا کے ابّا نے خود ایک بار مجھے بتایا تھا کہ امریکا میں کچھ کاروبار شروع کیا ہے انہوں نے، شاید نیویارک میں۔‘‘ کمرے میں کچھ دیر تک خاموشی طاری رہی۔ پھر پاپا نے وہاں سے اُٹھ جانا ہی بہتر سمجھا۔ تو گویا وہ میرے شہر سے جا چُکی تھی۔ تبھی مجھے اِن ڈھلتی شاموں کے رنگ کچھ پھیکے سے محسوس ہوتے تھے۔ ہماری زندگی میں مِلن کے لمحات کتنے مختصر ہوتے ہیں۔ 

باقی تمام عمر تو جُدائی کے غم ڈھوتے ہی گزر جاتی ہے، مگر یہ نادان لوگ بھلا کیا جانیں، جسموں کے دُور جانے سے رُوحیں بھلا کب بچھڑتی ہیں؟ فاصلے اور راستے صرف جسمانی مجبوری ہوتے ہیں، رُوح سے رُوح کے ملن کی پرواز کو کوئی نہیں روک پایا آج تک۔ بس اِک ذرا پلکیں مُوند لینے کی دیر ہوتی ہے، بچھڑا یار سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ مَیں نے بھی تھک کر اپنی پلکیں مُوند لیں۔

اگلے روز پھر صبح سے گھر میں پاپا کے ملاقاتیوں کا ایک ہجوم جمع تھا، اُنہیں مبارک باد دینے کے لیے۔ مگر میرا فیض آباد پہنچنا بہت ضروری تھا۔ مجھے شہریار کے اتالیق، اُستاد اکبر کے گھر پہنچنا تھا تاکہ مہرو کی کہانی کا آخری سِرا جوڑ سکوں۔ پاپا نے میری بےچینی محسوس کرلی تھی اور وہ جانتے تھے کہ میرے پیروں میں قدرت نے ایک ایسا اَن دیکھا چکّر ڈال رکھا ہے، جس سے مَیں خود بھی آزاد نہیں ہونا چاہتا۔ مَیں نے اُنہیں مہرو اور کرمے کی ساری رُوداد پہلے ہی سُنادی تھی، لیکن اُن سے جانے کی اجازت لینے سے کترا رہا تھا۔ مگر وہ بھی میرے ہی پاپا تھے۔ شام کو خود میرے کمرے میں آئے اور مُسکرا کر پوچھا۔ ’’تو پھر کب جا رہے ہو، تم اُس لڑکی کو ڈھونڈنے۔ 

بھئی، وعدہ کیا ہے، تو اب نبھانا تو پڑے گا تمہیں۔‘‘ مَیں بِنا کچھ کہے اُن سے لپٹ گیا۔ ’’آپ پیچھے اُداس تو نہیں ہو جائیں گے، میرا سفر تو لمبا ہے۔‘‘ انہوں نے میرا سَر تھپتھپایا۔ ’’سچ کہوں تو اُداسی تو ہوگی، اور مَیں، ساحر کو تو شاید روک بھی لوں، مگر عبداللہ کو بھلا کیسے روک پائوں گا اُس کا فرض ادا کرنے سے۔ تم جائو اطمینان سے، بس فون کرتے رہنا اور رابطے میں رہنا مجھ سے۔ تاکہ میرا دل بھی مطمئن رہے۔ تب تک مَیں زہرا کےخاندان کا اَتا پتامعلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ وہ مُسکرا دیئے اور مَیں رو پڑا۔ دُنیا میں باپ سے اچھا دوست اور کون ہوسکتا ہے اور باپ بھی میرے پاپا جیسا، غم گسار، ہم درد اور ہم راز۔

اگلی صبح اسٹیشن سے پہلی گاڑی نے لمبی سیٹی کے بعد پلیٹ فارم چھوڑا، تو وہ آخری وقت تک کھڑے ہاتھ ہلا کر مجھے الوداع کہتے رہے۔ پاپا چاہتے تھےکہ میں اُن کی بڑی گاڑی، ڈرائیور سمیت ساتھ لے جائوں، مگر میں نے انہیں سمجھایا کہ اب یہ لوازمات اورتعیّشات میری راہ میں رُکاوٹ بن سکتے ہیں۔ میری صُبحوں اور شاموں کا اب کوئی ٹھکانہ نہیں اور میرا گزر جن تنگ گلیوں اور ویرانوں سے ہوتا ہے، وہاں ایسی کروزنگ گاڑیوں،جدید سواریوں کا کوئی کام نہیں۔ اگلی شام عصر کے بعد گاڑی اُستاد اکبر کے شہر میں داخل ہوئی، تو پچھلی رات کے چند اَدھ برسے بادلوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ پلیٹ فارم کے پکّے اینٹوں والے فرش پر رُکے پانی کےچند عارضی ٹکڑوں میں میرا شکستہ چہرہ نظر آیا، تو گلابی بادل ہنس پڑے۔ 

جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’’یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے عبداللہ؟‘‘ مگر مجھے اپنا حال سنوارنے کی فرصت ہی کب تھی بھلا۔ مَیں نے اُستاد اکبر کے گھر کے دروازے پر ٹھیک چار ہفتوں بعد دوبارہ دستک دی، تو میرا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا، جیسے آج وہ یہ پنجرہ توڑ ہی ڈالے گا۔ کچھ ہی دیر میں دروازہ کُھلا اور ایک پندرہ سولہ سالہ نوجوان نے باہر جھانک کر دیکھا۔ ’’جی… فرمایئے۔‘‘ مَیں نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ ’’اُستاد اکبر صاحب سے ملنا ہے مجھے۔ وہ یہیں رہتے ہیں ناں…؟‘‘

نوجوان نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا۔ ’’آپ کون…؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ میرے الفاظ گڈمڈ سے ہونے لگے۔ اس لڑکے نے انکار نہیں کیا تھا کہ اُستاد اکبر وہاں نہیں رہتے۔ ’’مَیں… عبداللہ۔ اُن کے پاس میری ایک امانت ہے، دراصل… مَیں وہی لینے آیا ہوں۔‘‘ اُس لڑکے کے تنے ہوئے اعصاب معمول پر آنے لگے۔ ’’اچھا… آپ نظام آباد سے آئے ہیں۔ چچا جان نے تو آخری وقت تک آپ کا انتظار کیا… مگر آپ نے دیر کردی، وہ تو نکل پڑے گھنٹہ بھر پہلے، آج شام کی گاڑی سے۔ وہ ابھی نظام آباد ہی جارہے ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ آپ کی امانت بھی وہیں آپ کے سپرد کردیں گے۔‘‘ وہ لڑکا نہ جانے مجھے کون سمجھ رہا تھا، مگر میرے قدموں تلےزمین سرکنے لگی تھی۔ 

مَیں جس گاڑی سے فیض آباد پہنچا تھا، اُسی پلیٹ فارم کے پچھلی جانب پلیٹ فارم نمبر2 سے دُوسری گاڑی نظام آباد جارہی تھی۔ کون جانے اسٹیشن سے نکلتے وقت مَیں اور مہرو ایک دُوسرے کے سامنے سے گزرے ہوں۔ اُستاد اکبر کے گھر سے نکلنے والے لڑکے کا نام جمال تھا اور وہ میری پریشانی دیکھ کر خود بھی پریشان ہوگیا۔ مَیں نے جلدی سے پوچھا۔ ’’اور اُن کے گھر والے… مطلب کیا کوئی پیچھے ہے، اُن کے گھر والوں میں سے، جس سے مَیں کچھ بات کرسکوں؟‘‘ ’’نہیں، وہ سب لوگ چچا کے ساتھ ہی گئے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو ان سے ضروری ملنا ہے، تو آپ کوشش کر دیکھیں۔ 

ابھی شام کی گاڑی نکلنے میں کچھ وقت باقی ہے۔‘‘ مَیں نے جمال سے عجلت میں التجا کی کہ مَیں اس شہر میں نیا ہوں۔ کسی عام رستے سے اسٹیشن پہنچنے کی کوشش کروں گا، تو کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں، لہٰذا وہ بھی میرے ساتھ چلے تو اس کی بڑی مہربانی ہوگی۔ جمال نے کچھ سوچنے کے بعد سر اُٹھایا۔ ’’چلیں ٹھیک ہے۔ مگر ہمیں ٹیکسی لینی ہوگی۔‘‘ مَیں نے تقریباً بھاگتے ہوئے گلی پار کی اور خوش قسمتی سےنکّڑ ہی پر ایک خالی ٹیکسی مل گئی۔ مَیں جمال پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مَیں نے آج تک اُستاد اکبر کو دیکھا ہی نہیں ہے، تو پہچانوں گا کیسے؟ جمال ٹیکسی والے کو مختلف اندرونی گلیوں سے راستہ بتارہا تھا اور مَیں سارے راستے یہ دُعا کرتا رہا کہ کہیں نظام آباد کی گاڑی نکل نہ جائے۔ نظام آباد بہت بڑا شہر تھا اور وہاں اُستاد اکبر کو ڈھونڈنا ناممکن تھا میرے لیے۔ جمال کے بقول چچا نے گھر میں کسی کو اپنے نئے پتے کے بارے میں خبر بھی نہیں کی تھی۔ شاید اُستاد اکبر کو شک ہوچلا تھا کہ کوئی اُن تک پہنچنے کی کوشش میں ہے۔

اسٹیشن پہنچتے ہی ہم یوں پلیٹ فارم کی طرف لپکے، جیسے ہم دونوں کی اپنی آخری گاڑی چُھوٹ رہی ہو۔ پلیٹ فارم نمبر2 سے نظام آباد کی گاڑی کی روانگی کا آخری اعلان ہورہا تھا۔ جمال بے تابی سے مختلف ڈبّوں میں جھانک رہا تھا اور مَیں اُس کا ساتھ دینے کے لیے قدم سے قدم ملائے بھاگتا رہا۔ اچانک جمال زور سے چلّایا۔ ’’وہ رہے…‘‘ گاڑی نے سرکنا شروع کردیا۔ جمال نے زور سے اُن کا نام پکارا ’’اکبر چچا… آپ کے مہمان…‘‘ مَیں نے جمال کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا۔ ایک باریش بزرگ برقعوں میں ملبوس تین عورتوں کے ساتھ عام درجے والی بوگی میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے گھبرا کر جمال کی طرف دیکھا۔ مَیں سرکتی ٹرین کے دروازے سے اندر چڑھ گیا۔ 

جمال نے مُسکرا کر ہاتھ ہلایا۔ اُس کی محنت وصول ہوگئی تھی، مگر اُستاد اکبر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوچُکی تھی، اور اگر گاڑی رفتار نہ پکڑچُکی ہوتی، تو وہ ضرور اپنے اہل خانہ کو لے کر ٹرین سے اُتر جاتے۔ مَیں نے دانستہ اس حصّے میں بیٹھنے سے گریز کیا، جہاں اُستاد نے کمپارٹمنٹ کے ایک کونے میں کوئی کپڑے کی چادر باندھ کر عورتوں کے لیے ایک الگ پردے کی اوٹ بنا رکھی تھی۔ کچھ دیر تک وہ کچھ بدحواس اور نَپی تلی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے، پھر بولے تو آواز بہت دھیمی تھی۔ ’’مَیں نے تمہیں پہچانا نہیں میاں…؟‘‘ مَیں نے براہ راست بات کی۔ 

مجھے نواب شہریار نے آپ کا پتادیا ہے۔ مَیں وہ امانت واپس لینے آیا ہوں، جو شہریار نے آپ کو سونپی تھی۔‘‘ اُستاد اکبر کو جیسے ایک زور کا جھٹکا لگا اور ان کی آواز کپکپا سی گئی۔ ’’تم… کون ہو… کیا نواب تیمور نے تمہیں بھیجا ہے؟‘‘ ’’نہیں… اور خدا کے لیے یہ مت کہیے گا کہ مہرو آپ کے پاس نہیں ہے۔ مَیں صدیوں کی مسافت طے کرکے یہاں تک پہنچا ہوں۔ مہرو کی بوڑھی لاچار ماں اُس کا رستہ دیکھ رہی ہے۔‘‘ میری بات ختم ہوتے ہی بوگی کے درمیان لٹکی چادر کے پیچھے سے کسی کے سِسکنے کی آواز سُنائی دی۔ شاید کسی کے ضبط کا بندھن اُسی لمحے ٹوٹا تھا۔ 

اُستاد اکبر نے بے چینی سے پہلو بدلا ’’کون مہرو… میرا مطلب ہے، اُس کی ماں تو لاپتا ہوگئی تھی اور پھر کسی نے خبر دی کہ وہ قضائے الٰہی سے…‘‘ مَیں نے بات کاٹی ’’نہیں، مہرو کی ماں زندہ ہے۔ البتہ دَربدر اور خوار ہے۔ اپنے حواس کھو کر گاؤں گاؤں بھٹکتی پِھر رہی ہے۔ شاید مہرو کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ لے، تو اُسے بھی قرار آجائے۔‘‘ اُستاد اکبر نے شدید کش مکش کے عالم میں میری طرف دیکھا۔ مجھے یوں لگا، جیسے پردے کے پیچھے سے ابھی کوئی نکل آئے گا۔ 

پھر وہ ایک لمبی گہری سانس لے کر بولے۔ ’’ہاں… مہرو میرے پاس ہی ہے… اب وہ میری دُوسری بیٹی ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ تم واقعی دوست ہو یا کوئی دُشمن… لیکن اتنا یاد رکھو کہ میری بوڑھی ہڈّیوں میں ابھی اتنا دَم باقی ہے کہ مَیں اپنی جان جانے تک اپنی بیٹی کی حفاظت کرسکوں۔ اگر تمہاری نیّت غلط ہے، تو تم مجھے مار کر ہی مہرو تک پہنچ سکتے ہو۔‘‘ مَیں نے عقیدت مندانہ نظروں سے اس باہمّت بزرگ کی طرف دیکھا۔ 

’’میرا نام عبداللہ ہے… اور چند روز پہلے تک میں سزائے موت کا ایک مفرور قیدی تھا…‘‘ پھر مَیں نے اپنی ساری داستان اُستاد اکبر کو چلتی گاڑی کے شور میں سُنادی۔ میری ساری کہانی کے دوران وہ دَم سادھے بیٹھے رہے۔ میری بات ختم ہوئی، تو اُن کی زبان سے صرف اتنا ہی نکلا۔ ’’جزاک اللہ…‘‘ ہم گاڑی کے جس حصّے میں بیٹھےتھے، وہاں اِکّا دُکّا مسافر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اپنی نشستوں پر بیٹھے اُونگھ رہے تھے۔ اُستاد اکبر نے مجھے بتایا کہ وہ مہرو کو نواب تیمور کے چنگل سے نکالنے کے بعد کبھی ٹِک کر ایک جگہ نہیں بیٹھے، مستقل اپنے ٹھکانے بدلتے ہی رہے۔ 

انہیں یہ اندازہ تھا کہ نواب سب سے پہلے مہرو کے گھر اور گائوں پر پہرے بٹھائے گا، اِس لیے انہوں نے دانستہ مہرو کے گائوں کا رُخ نہیں کیا اور مہرو کو اپنے خاندان سمیت لےکر مستقل روپوشی اختیار کیے رہے۔ آٹھ، نو ماہ بعد ڈرتے ڈرتے اپنے کسی دوست کو مہرو کے گائوں اُس کے گھر والوں کی خبر لینے بھیجا، تو باپ کی پھانسی اور ماں کے صدمے میں چل بسنے کی اطلاع ملی۔ اَدھ موئی مہرو یہ سُن کر بالکل ہی بستر سے جالگی اور اُستاد اکبر کی ذمّے داری بڑھتی چلی گئی۔ 

نظام آباد کے سفر کا بھی یہی مقصد تھا کہ شہر کے کسی بڑے اسپتال اور قابل ڈاکٹر تک اُس کے علاج کے لیے رسائی ہوجائے۔ اُستاد اکبر کچھ دیر اپنے لفظ جوڑتے رہے اور پھر کم زور سے لہجے میں پردے کی طرف منہ کر کے بولے ’’لے آئو بھئی مہرو کو… یہ تو محسن ہیں ہمارے…‘‘ میری نظریں جُھک گئیں اور کسی برقع پوش خاتون نے بوگی کے درمیان لٹکی پردے کی دیوار ہٹادی۔ میرے اندر سلطان بابا کی آواز گونجی ’’جب جب جو جو ہونا ہے، تب تب سو سو ہوتا ہے…‘‘ میری اور مہرو کی ملاقات ٹرین کےاِسی ڈبّے میں طے تھی۔ پردہ ہٹا اور سارے ڈبّے میں جیسے زردی سی پھیل گئی۔ دفعتاً کوئی وجود لڑکھڑایا اور پردہ ہٹانے والی خاتون کے ہاتھوں سے پھسل کر کسی بے جان لاشے کی طرح نیچے گرگیا۔ اُستاد اکبر کے منہ سے بے اختیار نکلا… ’’خدایا خیر…‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین