سندھی ادب، ثقافت اور تاریخ کے حوالے سے خدمات سر انجام دینے والی شخصیات کا جب بھی تذکرہ کیا جائے گا تو ممتاز مرزا کا نام لازمی طور پر سامنے آئے گا ۔انہوں نے سندھی ادب و فنون لطیفہ میں ایک سہ رخی شخصیت کے طور پر اپنا مقام بنایا۔ ممتاز مرزا کی علمی، ادبی اور ثقافتی خدمات کے بارے میں مختصر جائزہ پیش کیا جارہا ۔ممتاز مرز کا تعلق حیدرآباد کے قدیم قصبے ٹنڈو آغا سے تھا۔ ان کے آبا ٔ اجداد اٹھارویں صدی میں سندھ کے تالپور حکمرانوں کے دربار میں امیر، مشیر اور درباری شعراء کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
سندھ کے کئی نام ور شعرائے کرام اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن میں مرزا مراد علی سائل، مرزا فتح علی بیگ، مرزا قاسم علی بیگ، مرزا بڈھل بیگ، مرزا دوست محمد بیگ اور مرزا گل حسن بیگ شامل ہیں۔ مرزا خاندان کے شعرائےکرام کو مرثیہ کی صنف میں شروع سے ہی طبع آزمائی رہی ہے۔انہوں نے سندھی زبان کے علاوہ فارسی میں بھی اپنا کلام پش کیا ہے۔ اسی علمی خانوادے کےچشم وچراغ ممتاز مرزا تھے۔
ممتاز مرزا نے29 نومبر 1939 کونامور شاعر، ادیب، مؤرخ اور نثر نویس مرزا گل حسن بیگ 'احسن کربلائی کے گھر میںجنم لیا۔ انہوں نےابتدائی تعلیم حیدرآباد کے آسودومل حکومتراء اسکول پھلیلی سے حاصل کی، میٹرک نور محمد ہائی اسکول سےپاس کیا۔ انہوں نے انٹرمیڈیٹ سندھ اورینٹل کالج جبکہ ایم اے کی ڈگری سندھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔1951میںحیدرآباد میں ایک کلوواٹ میڈیم ویوٹرانسمیٹر کے ریڈیوا سٹیشن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 17 اگست 1955 ءکوہوم اسٹیڈ ہال کے چار کمروں میں ریڈیوپاکستان حیدرآباد کی نشریات کا آغاز ہوا۔اس کی ابتدئی نشریات میں جن براڈکاسٹرز نے خدمات انجام دیں اس میں ممتاز مرزا کے والدمرزا گل حسن بیگ بھی شامل تھے۔ انہوں نے یہاں پر سندھی کے اسکرپٹ رائٹر کے طور پر فرائض کی انجام دہی شروع کی ۔
ان دنوں ممتاز مرزابھی اپنےوالد کے ہم راہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد جاتے تھے۔اسی زمانے میں ان کے دل میں ریڈیو کےپروگراموں میں حصہ لینے کا شوق پیداہوا۔وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈیوکے لیے مسودے لکھنے لگے جب کہ حیدرآباد کے ادبی پروگراموں کی میزبانی بھی کرنے لگے۔اس دوران وہ سندھ کے ادیبوں کی انجمن 'سندھی ادبی سنگت میں بھی متحرک ہوگئے تھے۔نامور ادیبوں اور افسانہ نگاروں کی صحبت میں بیٹھ کر ان کے دل میں بھی مضامین اور افسانےلکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ انہوں نے لکھنا شروع کیا اور ان کی تحریریں اخبارات میں شامل اشاعت ہونے لگیں۔
اس دور میں الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے ریڈیائی نشریات کا واحد ذریعہ ریڈیو ہی تھااور وہ ریڈیو کے عروج کا زمانہ تھا۔ ممتاز مرزا کو ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی وجہ سے خاصی شہرت ملی ۔ریڈیو سامعین کو تفریح،فلمی گیت خبریںاوردیگر اہم معلومات فراہم کرتا تھااور لوگ بڑے اشتیاق سے پان کے کیبنوں اور ہوٹلوں پر جمگھٹا لگا کر اس کے پروگرام سنتے تھے۔ اس کے بیشتر پروگرام براہ راست نشر ہوتے تھے۔
عوام میں آواز کی دنیا کی شخصیات کو خاصی مقبولیت حاصل تھی۔ ممتاز مرزا ریڈیو پاکستان پر’’ 'آدمی نامہ‘‘ پروگرام پیش کرتے تھے، جس میں سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے انٹرویو نشر کیے جاتے تھے۔ انہوں نے موسیقی کے پروگراموں کی بھی میزبانی کی جبکہ کئی گلوکاروں کوریڈیو کے ذریعے ملک میں متعارف کروایا۔ اس دور میں ان کے ساتھ مصطفیٰ قریشی، ساقی، زرینہ بلوچ، مشتاق مغل اور کئی نامور شخصیات بھی ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن سے وابستہ تھے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار محمد علی نے بھی اپنے فنی کیرئیر کا آغاز یہاں سے ہی کیا تھا۔
ممتاز مرزا نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر جب ڈرامے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا توان کا ہر ڈرامہ مقبولیت اختیار کرتا گیا۔ ان کا سب سے زیادہ مقبول ڈرامہ ' ’’آخری رات‘‘ تھا۔ یہ ڈرامہ 1966ء میں نشر ہوا جو کہ سندھ کی پانچ ہزار سال قدیم تہذیب ،موہن جو دڑو پر لکھا گیا ہے۔ اس ڈرامے کے پروڈیوسر مراد علی مرزا تھے،جبکہ ڈرامے میں حصہ لینے والے صداکاروں میں مہتاب اکبر راشدی، سید صالح محمد شاہ، مشتاق مغل آور دیگر لوگ شامل تھے۔ اس ڈرامے کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ جب ریڈیو کے عالمی ڈراموں کا مقابلہ ہوا تو ’’آخری رات‘‘ کو کولمبیا براڈکاسٹنگ ایوارڈ میں دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا۔ حیدرآباد میں جشن تمثیل منایا گیا تو اسی ڈرامے کو نشر کیا گیا۔
1979ء میں ' ’’آخری رات‘‘ کے نام سے ہی حیدرآباد کے ایک مشہور اشاعتی ادارے نے ان کی پہلی کتاب شائع کی جس میں ممتاز مرزا کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈرامے شامل کیے گئےتھے۔ سندھ کی جامعات میں بھی اس کتاب کو نصاب کے طور پر شامل کیا گیا۔ان کے تحریر کردہ دوسرے ڈراموں میں پنرو بڈام، لاکھو پھلانی، واٹوں ائیں نین، پڑاڈو سو سڈ، ماں ائیں محبت وغیرہ ہیں جو سندھی ڈرامہ نویسی میں اپنا اچھا مقام رکھتے ہیں۔
ممتاز مرزا بحیثیت افسانہ نگار کے طور پہ بھی مقبول رہے۔ انہوں نے چالیس سے زائد افسانے تحریر کیے جو اس وقت کے اخبارات، رسائل اور مخزون کی زینت بنے۔ ان کے ایک افسانے’’ 'پیار ائیں دھکار‘‘ کو انعام یافتہ بھی قرار دیا گیا۔ ان کے دیگر مقبول افسانوں میں چوڑیوں، اندھیر نگری، سندھ رانی، ھاء حیاتی تھوہر جو وںڑ اور پوڑہو شامل ہیں۔ ان کے ڈراموں میں سماجی مسائل اور سندھ کی تاریخ کے موضوعات نظر آتے ہیں۔
ممتاز مرزا نے تحقیق کے زمرے میں بھی کافی کام کیا ہے۔ انہوں سندھ کے معروف عالم، محقق اور ماہرتعلیم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی نگرانی میں لوک ادب اسکیم میں سندھ کے نامور عالم اور ماہر تعلیم شیخ محمد اسماعیل کی شاگردی میں سندھی ادبی بورڈ کے کئی تحقیقی کام کیے جن میں جامع سندھی لغات، لوک ادب، لطیفیات اور تاریخ جیسے موضوعات پر ضخیم کتابیں لکھیں۔ ایسا کام ابھی تک سندھی ادب میں دوبارہ نہیں ہوسکا۔
1976ء میںممتاز مرزا کی تقرری پاکستان ٹیلی ویژن ،کراچی اسٹیشن پر اسکرپٹ ایڈیٹر کے طور پر کردی گئی۔ انہوں نے سندھی ڈراموں سمیت تمام پروگرامزمیں اسلوب بیان پر زیادہ زور دیا۔ کسی پروگرام میں لہجے اور ادائیگی میں کمزوری کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ سندھ کے نامور ادیبوں جن میں نور الہدیٰ شاہ، امر جلیل، عبد القادر جونیجو، شمشیر الحیدری، آغا سلیم، مراد علی مرزا، قمر شہباز، محمود مغل، آغا رفیق جیسے بڑے ڈرامہ نگاروں سے انہوں نے ڈرامے تحریر کروائے۔
ممتاز مرزا نے بحیثیت ایک میزبان کے بھی کئی علمی و ادبی پروگرامز کیے۔ سندھ سینگار، روح رہان، لطیفی لات اور پارکھو پروگرام ان میں سے سرفہرست رہے۔ ان کی پی ٹی وی پردیگر خدمات کے علاوہ ایک یادگار خدمت یہ ہے کہ وہ سندھی پروگراموں کا دورانیہ آدھے گھنٹے سے بڑھا کر ایک گھنٹہ کرانے میں کامیاب رہے۔انہوں نے سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سالانہ عرس کے موقعوںپر سالہاسال میزبانی کی۔ وہ محکمہ ثقافت کی جانب سے دنیا کے کئی ممالک بھی ثقافتی پروگراموں کے حوالے سے بھی میزبانی کرتے رہے۔
ممتاز مرزا 1990ء سے 1996ءتک سندھ حکومت کے محکمہ ثقافت کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ انہوں نے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد محکمے کی جانب سے بڑی تعداد میں کتابوں کی اشاعت کا کام شروع کیا، خاص طور پر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام پر بہت اہم تحقیقی مقالات کی اشاعت کرائی۔ اس دوران انہوں نے خود بھی شاہ صاحب کے کلام پر تحقیق کی۔ انہوں نے شاہ لطیف کے دور میں تحریر کیے ہوئے’’ شاہ جو رسالو‘‘کو جدید رسم الخط میں لکھا۔ یہ بڑا پیچیدہ کام تھا جو ممتاز مرزا نےانتہائی عرق ریزی سے کیا۔
انہوں نے اپنی زندگی میں تین اہم کتابیں لکھیں جو ان زندگی، حالات و واقعات اور یادداشتوں پر مشتمل ہیں۔ وساریاں نہ وسرن، پریاں سندی گالہڑی اور سدا سوئیتا کاپڑی۔ مذکورہ کتب میں کئی گلوکاروں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ 6جنوری 1996 کو وہ اپنے آبائی شہر حیدرآباد میں دل کا دورہ پڑنے کے سبب انتقال کر گئے۔