• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • جہاں کسی کا ناحق خون گرے، پھر وہاں سبزہ نہیں اُگا کرتا
  • آدھے قد کے دروازوں کی رمز مجھے سلطان بابا ہی نے سمجھائی تھی
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

میرے پیچھے ملک اسفندیار کھڑا تھا۔ ’’صبر کرو عبداللہ خان، بخت کا بس اتنا ہی وقت لکھا تھا۔‘‘ ٹھیک کہہ رہا تھا ملک، اگر نام رکھ لینے سے کسی کے بخت سنور جاتے، تو کیا بات تھی۔ سوئم کے بعد مَیں نے بوجھل دل سے اپنے میزبانوں سے اجازت چاہی، تو وہ بھی جذباتی ہوگئے۔ مَیں نے چلتے وقت اسفندیار سے درخواست کی کہ ہوسکے، تو وہ خون ریزی کے اِس کھیل کو یہیں ختم کردے، کیوں کہ بخت خان زندہ ہوتا، تو اُس کی بھی یہی خواہش ہوتی۔ پرانی مَزدا بس گہری کھائیوں اور اونچی گھاٹیوں کے بیچوں بیچ بنی سانپ سی بَل کھاتی کچّی پکّی سڑک پر رواں تھی۔ ہم چھے قیدی جیل سے فرار ہوئے تھے۔ سنتوش کو سنتری کی گولی جیل کے اندر ہی کھا گئی۔ 

بخت خان بھی جُدا ہوگیا۔ بگّھے کو پولیس نے گرفتار کرکے پھر سے پھانسی گھاٹ پہنچادیا، میری قید معاف ہوگئی اور باقی رہ گئے کُندن اور ظہیر، جانے وہ کہاں بھٹک رہے ہوں گے، کیسے ہوں گے۔ شاید اُنہیں میری رہائی کی خبر بھی مل گئی ہو۔ وہ چاہے قانون کی نظر میں مجرم ہی کیوں نہ سہی، مگر میرے ساتھ اُن کا ایک ایسا اَن مٹ رشتہ تھا، جسے یہ دُنیا والے شاید کبھی نہیں سمجھ پائیں۔ مَیں اپنی سوچوں میں گُم تھا کہ اچانک ایک زوردار جھٹکا لگا اور بس زور سے لہرائی۔ کم زور دل مسافروں کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ شاید بس کا ٹائر برسٹ ہوگیا تھا۔ مگر ڈرائیور اِن راستوں کا ماہر تھا۔ اُس نے چابک دستی سے بس کو کنارے لگا کر روک لیا۔ 

سب مسافر نیچے اُترگئے۔ سامنے ہی ایک چائے کا ڈھابا تھا۔ ہمارے ہاں جب کوئی کام نہ ہو، تو چائے پینا سب سے ضروری کام ہو جاتا ہے۔ سبھی کو چائے کی طلب ستانے لگی۔ مَیں سڑک کی دوسری طرف دھوپ میں بِچھے چند لکڑی کے بینچز میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گیا۔ بخت خان کے جانے کے بعد میرا دماغ بالکل ہی سُن سا تھا۔ دھیان ہر وقت پلوشہ اور بخت خان کی نامکمل محبت کے انجام کو سوچ کر بٹا سا رہتا۔ اِسی بے خیالی میں میری نظر مرکزی سڑک سے نیچے نکلتی ایک دوسری سڑک کے کنارے نصب کیے گئے ایک سنگ ِ میل پر پڑی، جس کے اوپر پیلی روشنائی سے لکھے نام قریباً مِٹ چکے تھے۔ کوٹ امداد300 کلو میٹر، جھوک فقیراں 450 کلو میٹر، بختیار آباد630 کلو میٹر، مَیں نے بے خیالی میں دوبارہ نام پڑھے۔ بختیار آباد چھے سو تیس کلو میٹر..... بختیار آباد۔

دفعتاً میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ بختیار آباد، یہ نام تو میں نے ظہیر کی زبانی سُنا تھا۔ ہاں، جیل سے فرار ہونے کے بعد جب ہم بچھڑ رہے تھے، تب ظہیر نے اِسی جگہ کا نام لے کر کہا تھا کہ اگر زندگی رہی، تو ٹھیک چھے ماہ بعد ہم سب بختیار آباد میں کسی جگہ ملیں گے۔ شاید کسی ہوٹل کا نام لیا تھا اُس نے۔ ہمیں جیل سے بھاگے قریباً چھے ماہ ہی تو ہونے کو آئے تھے، مگر اس بس کا ٹائر ٹھیک اِسی سنگِ میل کے سامنے ہی کیوں برسٹ ہوا؟ ’’جب جب جو جو ہونا ہے، تب تب، سو سو ہوتا ہے…‘‘ مَیں نے چائے والے سے پوچھا کہ بختیار آباد جانے والی بس یہاں سےکب گزرے گی۔ وہ بڑے پتیلے میں کھولتی چائے شیشے کے گلاسوں میں انڈیلتا رہا۔ ’’اب تو جی بہت کم سواری جاتی ہے اُس طرف، کبھی بڑا رَش ہوتا تھا اس میدانی علاقے کی جانب۔ مسافر ٹوٹ گئے ہیں اُس جگہ کے، اور پھر وہاں اب دھرا ہی کیا ہے۔ 

چند پرانے مزار، ایک صدیوں پرانا شہر اور چھوٹا سا بازار، جنوبی علاقے کا آخری اسٹاپ ہے بختیار آباد۔ اِس کی بس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ دو چار دن میں ایک دفعہ گزرتی ہے یہاں سے۔ کبھی کبھی تو پورا ہفتہ گزر جاتا ہے، سواری نہیں ملتی۔ اب دیکھو، کب جاتی ہے اگلی بس؟‘‘ مَیں چُپ چاپ دوبارہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ مَیں نے اپنے سامان کی پوٹلی بس سے اُتار کر اپنے پاس رکھ لی۔ بس کے کنڈکٹر نے چلنے سے پہلے مجھے آواز لگائی ’’آجائو صوفی صاحب! بس جارہی ہے۔‘‘ مَیں نے مُسکرا کر اُسے دیکھا ’’نہیں، تم جائو۔ میری منزل بدل گئی ہے۔‘‘ چائے والے نے چونک کر مجھے دیکھا۔ بس آگے بڑھ گئی۔ مَیں نے اُس سے پوچھا، یہاں رات گزارنے کے لیے کوئی جگہ مل جائے گی… مَیں مسافر ہوں۔‘‘ ’’چاہو تو میرے ڈھابے ہی پر رات گزار لینا۔ میرے ساتھ صرف کام کرنے والا ایک لڑکا رہتا ہے یہاں۔ 

مگر تم چلتی بس سے کیوں اُتر گئے۔ کون رہتا ہے تمہارا بختیار آباد میں؟‘‘ ’’کوئی نہیں، مگر کسی اپنے سے ملنے کی آس میں جارہا ہوں۔‘‘ چائے والا ہنس پڑا۔ ’’سُنا ہے وہاں چند بڑے جاگیرداروں کی آبائی حویلیاں ہی باقی بچی ہیں اب تو۔ اُن کی نئی نسل بڑے شہروں کو کُوچ کرگئی۔ ضرور تم وہاں کسی مزار کی مجاوری کرنے جارہے ہوگے۔ میرے لیے بھی دُعا کرنا۔ کاروبار بڑا مندا جارہا ہے میرا آج کل، چینی، پتّی کی قیمتیں تو آسمان کو چڑھی ہی تھیں، اب تو دودھ بھی سونے کے بھائو بِکنے لگا ہے۔ جانے کہاں جا کر رُکے گی یہ منہگائی۔‘‘ مَیں نے غور سے چائے والے کی طرف دیکھا ’’تم نے یہ کیوں کہا کہ اب بختیار آباد کی طرف سے برکت اُٹھ گئی ہے۔ 

ایسا کیا ہوا تھا وہاں کہ رونق ہی ختم ہوگئی اُس علاقے کی۔‘‘ چائے والے رحمت اللہ نے گہری سانس لی۔ ’’بھائی! کبھی بڑا بارونق علاقہ ہوا کرتا تھا وہ۔ میرے بڑے بھائی سیف اللہ کی نوکری تھی وہاں بڑے جاگیردار صاحب کی حویلی میں۔ سب خوش حال تھے، مگر پھر حویلی میں کسی کا قتل ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب اُجڑگیا ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں جس زمین پر ناحق کسی کا خون گرے، تو پھر وہاں کبھی سبزہ نہیں اُگا کرتا۔ شاید بختیار آباد کی ہریالی کو بھی کسی کی آہ کھا گئی…‘‘ چائے والا اپنی دُھن میں اس علاقے کے قصّے سُناتا رہا۔ دھیرے دھیرے شام ڈھلنے لگی۔ 

سڑک پر اب ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ رحمت اللہ نے ایک بڑی سی لالٹین روشن کی اور ہوٹل کے باہر ایک اونچی جگہ پر ٹانگ دی۔ ’’تم نے بتایا نہیں، تم کس سے ملنے جا رہے ہو بختیار آباد۔ جب میرا بھائی وہاں نوکری کرتا تھا، تو میرا آنا جانالگا رہتا تھا۔ کافی جان پہچان ہے وہاں میری۔ کچھ کام ہے تو بتائو؟‘‘ ’’نہیں، میرے کچھ دوستوں کا عارضی گزر ہو گا وہاں سے۔ بس اُنہی سے ملنے جا رہا ہوں۔ 

کوئی خاص کام نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے رحمت اللہ کو رات کے کھانے کے پیسے دینا چاہے، مگر اُس نے انکار کر دیا، ’’تمہارے حصّے کا کچھ رزق یہاں میرے پاس لکھا تھا۔ اِس کے پیسے نہیں لوں گا مَیں۔ ویسے بھی یہاں ہفتوں، مہینوں کوئی نہیں آتا مجھ سے ملنے۔ اچھا، ایک بات بتائو، تم تو مجھے کوئی جوگی لگتے ہو، کیا نام بدلنے سے کبھی تقدیریں بھی بدل جایا کرتی ہیں؟‘‘ مَیں نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔ ’’یہ تم سے کس نے کہا…؟‘‘ ’’بڑے سیانوں سے یہی سُنا ہے صوفی صاحب کہ نام کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ 

اب دیکھو ناں، بختیار آباد کے لیے بھی سب یہی کہتے ہیں کہ اُس پر پرانا نام ہی سجتا تھا۔ جب سے علاقے کے نواب، سرداروں نے اُسے بدل کر اپنے باپ، دادا کے نام پر دوسرا نام رکھا، علاقہ ویران ہو گیا۔ مَیں سوچ رہا ہوں، مَیں بھی اپنے ہوٹل کا نام ’’کڑک چائے والا‘‘ سے بدل کر ’’رحمت چائے والا‘‘ رکھ لوں، تم کیا کہتے ہو؟‘‘ میرا ذہن ابھی تک رحمت اللہ کی پچھلی بات ہی میں اٹکا ہوا تھا۔ ’’اچھا خیال ہے، مگر تم بختیار آباد کے بارے میں کچھ بتا رہے تھے، کیا پہلے اُس علاقے کا کچھ اور نام تھا؟‘‘ ’’ہاں جی… ہمارے بچپن میں کچھ اور بھلا سا نام تھا۔‘‘ رحمت اللہ نے ذہن پر زور دیا اور پھر یاد آنے پر جھٹ سے بولا ’’ہاں، یاد آیا سلطان پور… ہاں، یہی نام تھا… سلطان پور کہتے تھے اُس علاقے کو پہلے۔‘‘ مَیں سلطان پور کا نام سُنتے ہی گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ ’’کیا… سلطان پور… کیا تمہیں پورا یقین ہے۔ 

سلطان پور ہی کہا ناں تم نے…؟‘‘ رحمت میری حالت دیکھ کر پریشان سا ہوگیا۔ ’’ہاں ہاں، مجھے اچھی طرح یاد ہے، پر تمہارا رنگ کیوں اُڑ گیا اچانک یہ نام سُن کر…؟‘‘ اب میں اُسے کیا بتاتا کہ کمال صاحب اور مَیں ساری رات شمالی اور جنوبی علاقوں کے نقشے کھول کر سلطان پور نام کا علاقہ کیوں تلاش کرتے رہے تھے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ چھے ماہ پہلے ظہیر نے جس علاقے میں ملنے کا پلان بنایا تھا، کمال صاحب کے ہاں آنے والے بزرگ نے بھی مجھے وہیں ملاقات کا پیغام دیا۔ 

گویا یہ سب بھی پہلے سے طے شدہ تھا کہ میرا ایک بار بختیار آباد پہنچنا ضروری تھا۔ کمال صاحب کے بقول سلطان بابا نے مجھے سلطان پور یا بختیار آباد نامی قصبے ہی میں ملنے کی نوید سُنائی تھی۔ ظہیر کے ذہن میں اِس علاقے کا نام کیوں آیا۔ یہ سب کڑیاں کہاں جا کر ملتی تھیں۔ ساری رات میں اِسی اُدھیڑ بن میں رہا اور رات کی سیاہی میری آنکھوں کے سامنے صبح کی سپیدی میں ڈھل گئی۔

تبھی رحمت میرے پاس دوڑتا ہوا آیا ’’چلو، تیار ہو جائو۔ تمہاری قسمت اچھی ہے۔ ڈاک والوں کی گاڑی گزری ہے ابھی یہاں سے، بتا رہے تھے کہ بختیار آباد جانے والی بس بھی پیچھے آرہی ہے۔‘‘ مَیں نے جلدی سے چہرے پر پانی کے دو چھینٹے مارے اور کچھ ہی دیر بعد مَیں اپنی منزل کی طرف رواں تھا۔ اِس بس کی حالت پچھلی بس سے بھی زیادہ خراب تھی۔ مجھے نیویارک اور لندن کی بسیں، سب ویز اور ٹرامیں یاد آگئی۔ ایک ہی طرح کے گوشت پوست سے بنے انسان بہ یک وقت کتنی مختلف دُنیائوں میں جیتے ہیں۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہوگئی۔ 

بس پہاڑی علاقوں سے نکل کر اب ریت کے میدانوں میں دوڑ رہی تھی۔ چاروں طرف حدِ نگاہ تک ایک وسیع ریگستان پھیلا ہوا تھا۔ مجھے جبروت کا علاقہ جبل پور یاد آیا۔ وہیں پر تو سلطان بابا کو سر میں چوٹ آئی تھی، جو آخر کار جان لیوا ثابت ہوئی۔ مگر کمال صاحب کا کہنا تھا کہ وہی سلطان بابا میری تلاش میں نواب پور تک آئے تھے۔ رات ڈھلے، بس ایک صحرائی شہر کی فصیل سے اندر داخل ہوئی، تو کنڈکٹر نے آواز لگائی، ’’چلو بھئی، آخری اسٹاپ آگیا ہے۔ بختیار آباد… بختیار آباد… بختیار آباد…‘‘ اونگھتے ہوئے مسافر اپنے سامان کی تلاش میں اُٹھے اور کچھ دیر بعد مَیں بس اڈے کے وسیع پکّی اینٹ والے احاطے میں تنہا کھڑا تھا۔ ’’رات آئی، تو وہ جِن کے گھر تھے، وہ گھر کو گئے، سوگئے‘‘۔ مگر مَیں کہاں جاتا، اڈّے کے بکنگ کلرک نے ٹکٹ گھر کی کھڑکی بند کی اور بتّی بجھا کر اپنا مفلر کانوں سے لپیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آیا،،۔ ’’تم کہاں جائو گے، یہاں بس اسٹینڈ پر رات گزارنے کی اجازت نہیں ہے کسی کو۔ اب صبح چھے بجے یہ اسٹینڈ کُھلے گا۔‘‘ مَیں بھی کلرک کے ساتھ ہی باہر نکل آیا۔ 

کلرک نے میرے حُلیے کی طرف غور سے دیکھا اور پھر خود ہی دُور کھڑے تانگہ بانوں میں سے ایک کو آواز لگائی ’’اوئے فقیرے! بات سُن ذرا…‘‘ فقیرا تیزی سے ہماری طرف لپکا۔ ’’حُکم جناب؟‘‘ کلرک نے میری طرف اشارہ کیا۔ ’’مجاور لگتا ہے کوئی، اِسے شہر سے باہر والے بڑے مزار پر چھوڑ آ، اور وہاں کا منشی اگر جاگ رہا ہو، تو کہنا کہ لنگر سے کھانا بھی کِھلا دے، کیا سمجھا…؟‘‘ فقیرے نے ہاتھ جوڑے‘‘ سمجھ گیا سرکار…‘‘ کلرک نے پھر میری طرف دیکھا۔ ’’فیض محمّد نام ہے میرا۔ تانگے کے کرائے کے پیسے ہیں تمہارے پاس یا میں دے دوں…؟‘‘ مَیں نے اُس نیک شخص کا شُکریہ ادا کیا۔ ’’نہیں،پیسے ہیں میرے پاس۔ رہنمائی کا شُکریہ۔‘‘ فیض محمّد نے چونک کر میری طرف دیکھا اور مجھے اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا۔ میرا لہجہ اور لفظ شاید میرے حلیے کے اعتبار سے شستہ تھے۔ کبھی کبھی اپنے ہی بھیس کا بھید رکھنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 

مَیں جلدی سے تانگے میں سوار ہوگیا اور فقیرے نے چھانٹا ہوا میں لہرا کر ایک مخصوص آواز نکالی۔ تانگہ شہر کی گلیوں سے ہوتا ہوا باہر جانے والی سڑک کی طرف بڑھنے لگا۔ بختیار آباد ایک سرحدی شہر تھا، جس کے چند کلو میٹر بعد دشمن مُلک کی سرحد شروع ہوجاتی تھی۔ ہم سایہ اگر دشمن ہو جائے، تو زندگی کتنی اجیرن ہوجاتی ہے۔ شہر کا بازار قدیم طرز کا تھا اور دکانوں کے باہر لکڑی کے پرت دَر پرت کُھلنے والے بڑے بڑے دروازے نصب تھے۔ جن کی کنڈیاں بھی قدیم طرز کی زنجیر سے لٹکنے والی تھیں۔ 

تیز ہوا سے ریت، شہر کے باہر والے ریگستان سے اُڑ اُڑ کر شہر کی گلیوں میں بکھری پڑی تھی۔ میری نظریں ’’ گُل مہر‘‘ نامی ہوٹل کا بورڈ ڈھونڈتی رہیں، جس کا نام ظہیر نے ہمیں ازبر کروایا تھا۔ فقیرے نے مجھے خاموش دیکھ کر خود ہی بات کرنے کی کوشش کی ’’آپ ضرور بڑے مزار کے سالانہ عرس میں شریک ہونے کے لیے آئے ہوگے جوگیو… بہت دُور دُور سے لوگ آتے ہیں اِس عُرس میں شامل ہو کر برکت سمیٹنے کے لیے۔ آہ، اب تو بس یہ سالانہ عرس ہی باقی رہ گیا ہے، ورنہ تو سارا سال یہ شہر سائیں سائیں کرتا رہتا ہے۔‘‘

مَیں نے چونک کر تانگے والے کی طرف دیکھا۔ وہ بھی وہی بات کہہ رہا تھا، جو مَیں پہلے رحمت اللہ کی زبانی سُن چکا تھا۔ ’’کیوں، ایسی کیا اَن ہونی بیتی ہے اِس علاقے پر…؟‘‘ تانگے والے نے تانگہ مرکزی سڑک پر ڈال دیا اور انہماک سے مجھے بتانے لگا کہ یہ شہر اِس علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار سائیں سکندر کے آبائو اجداد نے بسایا تھا۔ پہلے اس کا نام سلطان پور تھا، مگر پھر سکندر کے باپ سائیں معظم خان نے نام بدل کر اپنے دادا سردار بختیار کے نام پر رکھ دیا۔ مگر شاید یہ نام علاقے کو راس نہیں آیا اور اب کئی سالوں سے علاقے میں خون ریزی جاری تھی۔ صدیوں پرانی دشمنیاں پھر سے تازہ ہو کر کئی زندگیاں نکل چُکی تھیں۔ 

اِس وقت ساری جاگیر کا کرتا دھرتا سردار سکندر ہی ہے، مگر اِس خاندان پر پڑی نحوست کا سایہ پہلے اس کی جوان بیوی کو کھا گیا، جو دو چھوٹے بچّے چھوڑ کر چند دن کے اندر ہی کسی موذی بیماری کی شکار ہو کر چلتی بنی۔ سکندر کی بیوہ ماں، جسے علاقے میں سارے مکین ’’بڑی سرکار‘‘ کے نام سے جانتے تھے، اپنی حویلی کی یہ ویرانی زیادہ دیر نہ دیکھ پائی۔ اُس نے بڑی چاہ سے اپنے چھوٹے بیٹے سجاول کی کہیں بات چلائی۔ بڑی منّتوں مُرادوں سے اُس کا رشتہ طے ہوا، مگر تقدیر کے کالے سائے شاید ابھی بڑی سرکار کی حویلی کے تعاقب میں تھے۔ 

بارات دوسرے شہر سے سجاول کی جاگیر کی طرف آرہی تھی کہ راستے میں گھات لگائے دشمنوں نے فائر کھول دیا اور گولی سیدھی سجاول کے دل کے پار ہوگئی۔ پَل بھر ہی میں بارات کا جشن، موت کے ماتم میں بدل گیا۔ نئی نویلی دلہن حُجلۂ عروسی میں پہنچنے سے قبل ہی بیوہ ہوگئی۔ تب سے لے کر آج تک پورا سال گزرنے کے باوجود کسی نے کبھی بڑی سرکار کی حویلی سے ہنسی کی آواز نہیں سُنی، البتہ بڑی سرکار کی حویلی سے ہر برس علاقے کے سب سے بڑے مزار کی عرس کی تقریبات کا انتظام آج بھی پورے اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے اور سارا خرچہ بڑی سرکار خود اٹھاتی ہیں۔ سارا مہینہ لنگر جاری رہتا ہے اور شام کو میلاد اور قوالی کی محفل بھی سجتی ہے۔

تانگے والے فقیرے کی باتوں میں سفر کا پتا بھی نہیں چلا اور جانے کب ہم شہر سے باہر ریگستان میں کھڑے اونچے بُرجوں اور فصیلوں والے مزار کے مرکزی دروازے تک پہنچ گئے۔ آدھی رات کے وقت مزار کے اندر سنّاٹا چھایا ہوا تھا اور دن بھر کی مشقّت سے تھکے مجذوب، مجاور اور خدمت گار صحن میں لمبے کھیس اور کمبل اوڑھے سو رہے تھے۔ ایک جانب درگاہ کا مرکزی ہال تھا، دوسری جانب صحن کے ایک سِرے پر خدمت گاروں اور مزار کی سرائے کے بہت سے چھوٹے، دروازوں والے کمرے ایک قطار میں بنے ہوئے تھے۔ 

مجھے یاد آیا کہ کبھی مجھے سلطان بابا نے ایسی ہی کسی درگاہ کے آدھےقد کےدروازوں کے بارے میں یہ رمز سمجھائی تھی کہ جُھکنے والے ہی آگے چل کر سرفراز ہوتے ہیں۔ شاید یہ بھی ادب کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا تھا کہ جُھک کر اندر داخل ہوا جائے۔ فقیرے نے لنگر کے منتظم کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں، مگر مَیں نےاُسےمنع کردیا کہ مجھے بھوک نہیں ہے، لہٰذا وہ بھی جاکر آرام کرے۔ ’’اب اتنی رات کو واپس جا کر گھر والوں کی نیند کیا خراب کروں سائیں جی۔ مَیں یہیں کہیں پڑ کر سو جاتا ہوں۔ ہوسکتا ہے صبح یہاں سے بازار جانے والی کوئی سواری بھی مل جائے۔‘‘ فقیرے نے اپنی چادر سے درخت کے گرد بنا ایک پکّا چوبارہ صاف کیا اور چند لمحوں بعد ہی اُس کے بلند خرّاٹے فضا میں گونجنے لگے۔ 

سُنا ہے، جِن کے دلوں میں زیادہ گرہیں نہیں پڑی ہوتیں، نیند سے اُن کی گہری دوستی ہوتی ہے، جو پلکیں موندتے ہی اُنہیں گلے لگا لیتی ہے اور کچھ مجھ جیسے دشمن بھی ہوتے ہیں۔ جن سے اس رقیب کی کبھی نہیں بنتی۔ آنکھوں آنکھوں ہی میں صبح کی اذان ہوئی اور مزار کے باہر والے صحن میں بنی چھوٹی سی مسجد میں فجر کی جماعت بھی کھڑی ہوگئی۔ مَیں نے سلام پھیر کر امام صاحب کی اقتداء میں دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، تو پیچھے سے کسی مقتدی نے صدا لگائی ’’مولوی صاحب! سلطان بابا کے لیے بھی دعا کیجیے، اِس بار انہیں گئے بہت دن ہوگئے۔ اللہ اُنہیں سلامت رکھے اور اُن کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رہے۔‘‘ سب نمازیوں نے زور سے ’’آمین‘‘ کہا، مگر میرا ذہن جھنجھنا اُٹھا۔ مَیں نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ وہ ایک نوجوان لڑکا تھا، جس نے دُعا کی درخواست کی تھی۔ 

دُعا ختم ہوئی، تو مَیں اُس کے پیچھے باہر لپکا اور اُسے آواز دے کر روکا ’’سنو۔ تم سلطان بابا کو جانتے ہو… وہ کہاں ہیں اس وقت…؟‘‘ لڑکے نے غور سے میری طرف دیکھا۔ ’’سلطان بابا استاد ہیں میرے، کیا تمہیں کچھ کام ہے، اُن سے…؟‘‘ مَیں نے شدید الجھن میں لڑکے کی طرف دیکھ کر دوبارہ سوال کیا۔ ’’مگر تم کون ہو، تمہاری تعریف…؟‘‘ لڑکے نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولا ’’تعریف کے قابل تو کچھ خاص نہیں ہے میرے پاس… ہاں البتہ تعارف کے لیے نام ’’عبداللہ‘‘ ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین