• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • راہِ عشق پر اُٹھے قدموں کے لیے واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
  • یہ مجذوبیت، مجاوری، جوگ ایک بہروپ، ایک سوانگ ہی تو تھا
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

مجھے اُس کا نام سُن کر ایک زودار جھٹکا لگا۔ میرے سامنے ایک اور عبداللہ کھڑا تھا۔ ایک پَل میں مجھے اپنے ساحر سے لے کر عبداللہ بننے اور یہاں تک پہنچنے کی ساری داستان اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتی محسوس ہوئی۔ وہ ابھی تک میرے سامنے کھڑا میرے جواب کا انتظار کررہا تھا۔ ’’تم نے اپنا نام نہیں بتایا، اس علاقے میں نئے ہو شاید۔ مَیں نے تمہیں پہلے یہاں نہیں دیکھا…؟‘‘ مَیں نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ ’’میرا نام… میرا نام ساحر ہے۔ مَیں سلطان بابا سے ملنے یہاں آیا ہوں۔ کیا تم بتاسکتے ہو، اُن کی واپسی کب تک ہوگی؟‘‘ عبداللہ نے لمبی سانس بھری ’’اُن کا انتظار تو مَیں بھی جانے کتنے دِنوں سے کر رہا ہوں۔ 

مگر اس بار انہوں نے آنے میں دیر کردی۔ اوپر سے وہ مزار کی اتنی بہت سی ذمّے داریاں مجھ پر ڈال گئے ہیں کہ مجھے ہر ہر قدم پر اُن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‘‘ مَیں نے اُسے غور سے دیکھا ’’اگر تم چاہو تو مَیں تمہاری کچھ مدد کرسکتا ہوں۔ مجھے تجربہ ہے ایسے معاملات کا۔ بہت پرانا مجاور ہوں مَیں بھی…‘‘ عبداللہ کی آنکھیں یہ سُن کر خوشی سے چمک اٹھیں۔ ’’اچھا! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ مجھے واقعی کسی مددگار کی ضرورت تھی دراصل سالانہ عرس ہےاگلے ہفتے اور تمام انتظامات میرے ہی سپرد ہیں۔ اور تمہیں سچ بتائوں، مجھے کچھ زیادہ تجربہ بھی نہیں ہے ایسے معاملات کا۔ مَیں نے ابھی کچھ ماہ قبل ہی اس مزار کی ذمّے داری سنبھالی ہے۔‘‘ مَیں نے اسے تسلّی دی ’’تم فکر نہ کرو۔ 

ہم دونوں مل کر سارا انتظام سنبھال لیں گے۔ ویسے تم یہاں آنےسےپہلے کیا کرتے تھے؟‘‘ ’’فائن آرٹس پڑھ رہا تھا۔ ڈگری مکمل کرلی تھی اور ایک بڑا پینٹر آرٹسٹ بننا چاہتا تھا، مگر نہ جانے میرے اندر کی بے چینی ختم ہی نہیں ہوتی تھی اور پھر اچانک میری سلطان بابا سے ملاقات ہوگئی۔ اُن کے پاس آ کر مجھے بہت سُکون ملا۔ انہوں نے مجھے پیش کش کی کہ میں چاہوں تو تجرباتی بنیادوں پر کچھ عرصہ مزار کی خدمت کرکے دیکھ لوں۔ دل لگ جائے، تو ٹھیک، ورنہ واپسی کے راستے کُھلے رہیں گے ہمیشہ۔ تو اس طرح میں یہاں تک پہنچ گیا۔‘‘ اس کی داستان سُن کر میرے ہونٹوں پر مُسکراہٹ ابھر آئی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ راہِ عشق پر اُٹھے قدموں کے لیے پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

کچھ دیر میں سارا مزار جاگ گیا اور دھوپ نکلنے تک خُوب چہل پہل شروع ہوگئی۔ واقعی کام بہت زیادہ تھا اور آنےوالےعرس کی وجہ سے ہر شخص مصروف دکھائی دے رہا تھا۔ سارا دن اِسی بھاگ دوڑ میں گزر کیا۔ عصر کے بعد مزار کے باہر چند بڑی گاڑیاں آکر رُکیں اورپیچھے ایک صحرائی ٹرک، جسے یہاں کی مقامی بولی میں ’’کیکڑا‘‘ کہا جاتا تھا۔ عملے نے باہر والے مزدوروں کی مدد سے پلائو، زردے اور قورمے کی دیگیں اتار کر مزار کے لنگر خانے میں پہنچانا شروع کردیں۔ عبداللہ نے مجھے بتایا کہ یہ سارا انتظام اور روزانہ کے لنگر کا اہتمام بڑی سرکار کی حویلی کےنوکرکرتے ہیں۔ 

بڑی سرکار خود بھی وقتاً فوقتاً حاضری دیتی ہیں اور خود تمام کاموں کی نگرانی کرتی ہیں۔ مجھے فقیرے کی بات یاد آگئی ’’مگر مجھے تو پتا چلا تھا کہ اُن کا کوئی بیٹا بھی ہے۔ کیا وہ یہ انتظامات سنبھالنے میں اپنی ماں کا ہاتھ نہیں بٹاتا؟‘‘ ’’کون… سکندر سائیں… نہیں، اُسے ان مزاروں اور درگاہوں سے کوئی دل چسپی نہیں۔ بلکہ میں نے سُنا ہے کہ وہ ان سب چیزوں کو وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔ 

اس کا بس چلے تو وہ اپنی ماں کو بھی کبھی یہاں نہ آنے دے، مگر تابع دار بیٹا ہے۔ ماں کے سامنے بولتا نہیں، کیوں کہ شاید اُسے ماں کے دُکھ کا اندازہ ہے اور وہ جانتا ہےکہ چھوٹے بیٹے کی موت کے بعد اُس کی ماں اندر سے بالکل ہی ٹُوٹ چُکی ہے۔‘‘ مغرب سے پہلے مزار پر چراغاں شروع ہوگیا۔ سیکڑوں دِیے اور جلتے بجھتے برقی قمقمے روشن ہوئے، تو صحرا کی ریتیلی لہروں پر دُور سے یہ مزار پانی پر بہتا کوئی شکارہ دکھائی دینے لگا۔ 

مجھے عبداللہ کو عبداللہ کہنے میں جانے کیوں جھجھک محسوس ہو رہی تھی۔ مَیں اُس سے اجازت لے کر مزار سے باہر نکل آیا، جہاں فقیرا تانگے والا پہلے سے میرے صبح کےبلاوے کی وجہ سے کھڑا انتظار کررہا تھا۔ ’’کہاں جائوگے سائیں لوکو… بازار سے کچھ لانا ہو تو مجھےبتادیا کرو۔ میرا ایک آدھ پھیرا تو لگ ہی جاتا ہے دن میں یہاں، تو میں لادیا کروں گا سامان۔ اس طرح تمہارا کرایہ بھی بچ جائے گا۔‘‘ مَیں مُسکرا دیا ’’نہیں، تمہیں کرایہ دینے کے لیے ہی تو بلایا ہے یہاں۔ اب تو میں تمہارے تانگے ہی پر جایا کروں گا شہر۔‘‘ فقیرا میری بات سُن کر خوش ہوگیا۔ ’’واہ! دل کےبادشاہ لگے ہو سائیں جی۔ چلو، پھر ایک نرخ طےرہا۔ میری یہ تانگے کی سواری آج سے تمہاری… اور تمہاری دُعائیں میری۔ بولو، کیا کہتے ہو؟‘‘

تانگہ سڑک پر دوڑتا رہا۔ کچھ ہی دیر میں ہم شہر کی فصیل سے اندر داخل ہو رہے تھے۔ مَیں نے فقیرے سے ’’گُل مہر‘‘ نامی ہوٹل چلنے کا کہا، مگر وہ اس نام کی کسی جگہ سے واقف نہیں تھا۔ مَیں نے ذہن پر زور دیا، مگر مجھے ظہیر کی زبان سے نکلا یہی نام یاد آرہا تھا۔ فقیرے نے بازار میں ایک آدھ جگہ رُک کر دکان داروں اور راہ گیروں سے بھی پوچھا اور پھر ہلکا سا اشارہ مل ہی گیا، مگر بتانے والے کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر ابھرتی حیرت کےآثار مَیں نے دُور ہی سے نوٹ کرلیے تھے۔ فقیرا بھی کچھ عجیب سی شکل بنائے تانگے پر سوار ہوا۔ ’’پرانے شہر کی طرف گلی میں تھا یہ ہوٹل۔ پراب سُنا ہےکہ بند ہوگیا۔مگروہ تو بڑا فسادی علاقہ ہے سائیں لوکو۔ ذرا ذرا سی بات پر چاقو چُھریاں چل جاتی ہیں وہاں۔ 

اُدھر تو دن میں بھی شریف آدمی جانے سے ڈرتا ہے۔ تمہیں یقین تو ہے ناں تمہارے دوست نے اِسی جگہ کا پتا دیا تھا؟‘‘ مَیں نےفقیرےکوپیش کش کی کہ وہ چاہے تو مجھے دُور سڑک کنارے ہی اتار دے۔ مَیں آگے جاکر جگہ خود تلاش کرلوں گا، مگر فقیرے نے میری بات اَن سُنی کردی۔ وہ قصبے کا ایسا علاقہ تھا، جہاں سرحد پار لے جانے والے انسانی اسمگلروں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے تھے اور انتہائی شدید خطرہ مول لےکر بھی غیرقانونی طور پر لوگوں کو سرحد پار کروایا کرتے تھے۔ جن میں سے پچانوے فی صد لوگ تو سرحدی باڑ کے قریب ہی دوسری جانب سے کی گئی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوجاتے تھے اور جو پانچ فی صد بمشکل بارڈر پار بھی کرپاتے، تو اُن کا انجام بھی سدا گم نام ہی رہتا۔ 

فقیرا مجھے یہ ساری اطلاعات دیتے ہوئے ’’تڑی پار‘‘ نامی اس علاقے میں داخل ہوگیا، جہاں کبھی گل مہر نام کا ہوٹل موجود تھا۔ مجھے اب سمجھ آرہا تھا کہ ظہیر نےخاص طور پر اس جگہ کا انتخاب کیوں کیا تھا ملنے کے لیے۔ شاید اُس کے ذہن میں بھی کچھ ایسا ہی خیال ہوگا۔ گلی سنسان پڑی ہوئی تھی اور کچھ آورہ کتّے دونوں طرف بنی دکانوں کے نیچے بنے لکڑی کے تھڑوں تلے لیٹے اونگھ رہے تھے۔ تانگے کی ٹخ ٹخ سُن کر اُن میں سے ایک دو نے سر اٹھا کر بے زاری سے ہماری طرف دیکھا۔ اور کچھ نے رسمِ ملاقات کے طور پر بھونک کر ہمارا استقبال کیا۔ سڑک پر لگے اِکا دُکا لیمپ پوسٹ حیرت انگیز طور پر ابھی تک روشن تھے۔ 

کبھی کبھی کسی علاقے کا نظام بگڑتے بگڑتے بھی کافی وقت لیتا ہے۔ شاید انسان کو ماضی اس لیے بھی سنہرا دَور محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ اُس دور میں کم آباد علاقوں کے لیے بھی بہترین انتظامات کا سسٹم موجود تھا۔ گلی کے بیچوں بیچ ایک سال خوردہ اور زنگ زدہ سا بورڈ لگا ہوا تھا، جس سے اَدھ مٹے سے ’’ہوٹل گل مہر‘‘ کے الفاظ جھلک رہے تھے۔ اس ویران صحرائی شہر میں ایسا نام جانے کس نےاورکیا سوچ کر رکھا ہوگا۔ شاید ہمارے رکھے گئے نام بھی کہیں نہ کہیں ہماری ناکام حسرتوں کا عکس ہوتے ہیں۔

مَیں نے فقیرے کو وہیں ٹھہرنے کا کہا اور خود آگے بڑھ کر عمارت کےقدیم دروازے پر دستک دی، جس کی کھڑکیوں کے شیشے اخباری کاغذ لگا کر اندھے کیے جاچُکے تھے۔ تیسری دستک پر کچھ ہلچل ہوئی اور کسی نے اندر سے پھٹے ہوئے اخبار کی درز سے باہر جھانکا۔ ’’کون ہو تم…؟‘‘ ’’میرا نام عبداللہ ہے۔ مجھے ظہیر نے یہاں کاپتا دیا ہے۔‘‘ ظہیر کا نام سُنتے ہی اندر سنّاٹا سا چھا گیا اور پھر کسی نے عجلت میں لکڑی کا بنا پھاٹک نما دروازہ کھول دیا۔ ’’اندر آجائو…‘‘ مَیں اندر داخل ہوا، تو ایک ہال نما کمرے میں گول میزوں پر بہت سی کرسیاں اوندھی پڑی تھیں۔ 

کائونٹر پر لٹکےجالےاور چاروں طرف مٹّی اور ریت میں اٹی چیزیں اپنا فسانہ خود سُنارہی تھیں۔ اندر صرف وہی ایک شخص تھا، جس نے دروازہ کھولا تھا، پکّی عُمر اور پکّے رنگ کا وہ شخص جس کے چہرے پر زخم کا ایک بڑا سا نشان تھا۔ ابھی تک مشکوک نظروں سےمیراجائزہ لے رہا تھا۔ ’’تم ظہیر کو کیسےجانتے ہو…؟‘‘ ’’ہم دونوں سینٹرل جیل میں سزائے موت کے قیدی تھے۔ فرار ہوتے وقت ظہیر نے اس جگہ کاپتا دیا تھا۔ اور تاریخ کے حساب سے اُسے آج کی رات یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔‘‘ ہوٹل والے نے گہری سانس لی، جیسے اس کی الجھن دُور ہوگئی ہو۔ ’’اچھا… تم اُن میں سے ایک ہو۔ میرا نام سارنگا ہے۔ ظہیر سے بہت پرانی یاری ہے۔ دُعا کرو وہ خیریت سے ہو۔‘‘ مَیں نے گھبرا کر سارنگا کی طرف دیکھا ’’مگر وہ ہےکہاں، آیا کیوں نہیں…؟‘‘ ’’مَیں خود بھی پچھلے تین دن سے ظہیر کا انتظار کررہا ہوں یہاں۔ ورنہ یہ ٹھکانہ تو کب کا چھوڑ دیا ہے میں نے۔ 

مخبری کردی تھی کسی نے اور ایف۔آئی۔اے والے پیچھے پڑگئےتھے۔‘‘ سارنگا اپنی دُھن میں بولتا رہا۔ میری توقعات کے مطابق وہ انسانوں کا اسمگلر ہی نکلا، جسے وہ اپنا دھندا کہتا تھا۔ ظہیر سے اُس کی ملاقات ایسے ہی ایک جرم کی پاداش میں کسی جیل یاترا کے دوران ہوئی تھی، جو رفتہ رفتہ دوستی میں بدل گئی۔ ظہیر، سارنگا کے ذریعے ہی اپنی تنظیم کے مفرور کارندوں اور ساتھیوں کو سرحد پار بھجوایا کرتا تھا۔ سارنگا نے مجھے بتایا کہ ظہیر کئی مہینوں سے پولیس سے چُھپتا پھر رہا ہے اور اس کے جرائم کی فہرست میں ایک اور قتل کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ 

ظہیر نے جیل سے فرار کے بعد اپنے شہر پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنی تنظیم کے باس کے معمولات کی خفیہ نگرانی شروع کروا دی، جس کی وجہ سے خود ظہیر اور اُس جیسے کئی دوسرے نوجوان قوم پرستی کے نام پر جرم کی دنیا میں دھکیل دئیے گئے تھے۔ ظہیر اپنے گھر واپس تو نہیں جا پایا، کیوں کہ اُس طرف دن رات پولیس کا پہرہ لگا ہوا تھا، مگر اُس نے اپنے گھر والوں کے لیے گزر بسر کا مستقل انتظام کروا دیا ہے اور اب اُس کی زندگی کا واحد مقصد، تنظیم کے باس کو ٹھکانے لگا کر اپنے جیسے اور کئی گھرانوں کے چراغ بجھنے سے بچانا ہے۔ تنظیم میں ظہیر کے وفاداروں کی اب بھی کوئی کمی نہیں تھی، جو اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے۔ ظہیر یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں اور جلد یا بدیر تنظیم کے بڑے یا پولیس کے اہل کار اُس کے خفیہ ٹھکانے تک پہنچ جائیں گے، لہٰذا اُس کے لیےاپنا کام ختم کر کےجلد از جلد اس شہر سے نکل جانا بھی ضروری تھا۔

آخرکار، ہفتوں نگرانی کے بعد ظہیر کے لیے چوبیس گھنٹوں میں سے اُس لمحے کا انتخاب آسان ہوگیا، جب وہ موت بن کر اپنے پرانے باس کے سر پر نازل ہوسکتا تھا۔ ظہیر کےساتھیوں نے بڑی ہوش یاری سے اُس کے گھر صبح منہ اندھیرے دودھ پہنچانے والے گوالے کے بھیس میں ظہیر کو بنگلے کےاندر تک جانے کاراستہ دےدیا۔ اصل گوالا اپنی موٹر سائیکل سمیت اُس وقت تک ان کی تحویل میں رہا، جب تک ظہیر اپناکام ختم کرکےگھر سےنکل نہیں گیا۔ چند گھنٹوں ہی میں شہر میں کہرام مچ گیا کہ لسانی تنظیم کے عظیم لیڈر کو صبح سویرے کسی نے اُسی کے گھر کی خواب گاہ میں گھس کر گولیاں مار کر موت کےگھاٹ اتار دیا۔ 

ظہیر کے وفاداروں نے اُسی شام اُسے شہر سے کسی اور جانب نکالنے کا پورا بندوبست کررکھا تھا۔ ظہیر نےسارنگا کو قریباً ایک ماہ قبل اطلاع دے دی تھی کہ وہ سرحد پار کرنے سے قبل اپنے جیل کے ساتھیوں سے سارنگا کے ہوٹل پر آکر ملے گا، مگر وہ اب تک یہاں نہیں پہنچا تھا۔ سارنگا کو بھی ظہیر کی فکر سَتا رہی تھی، مگر میرا دل ظہیر کے کھاتے میں ایک اور جرم کا بوجھ لکھے جانے پر بُجھ سا گیا۔ کسی ایک بڑے کو ختم کردینے سے تنظیمیں بھلا کب ختم ہوتی ہیں۔ 

پہلے کی جگہ دوسرا باس آجاتا ہے اور اُن کا شیطانی کاروبار چلتا رہتا ہے۔ ظہیر نے اپنا بدلہ تو لے لیا تھا، مگر اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ انہی گلی محلوں کی فیکٹری سے تنظیم کو اس جیسے مزید کئی ظہیر نہیں مل جائیں گے، کسی نئی آگ میں جھونکنے کے لیے۔ مَیں نے بھاری دل سے سارنگا کو اپنا پتا ازبر کروادیا کہ وہ ظہیر یا کندن کسی کے بھی یہاں پہنچنے کی صُورت میں مجھے اطلاع کردے۔ سارنگا مزار کا پتا سُن کر ہنس پڑا۔ ’’اچھا، تو مجذوب کا بہروپ بھر کر چُھپتے پھر رہے ہو؟ چلو اچھا ہے، یہاں شہر میں ویسے ہی ملنگوں، مجاوروں کی بھرمار ہے، تم پر کسی کو شک نہیں ہوگا۔‘‘ مَیں جواب میں چُپ رہا۔ 

سارنگا کو یہ بتاکر حاصل بھی کیا ہوتا کہ قانون نے مجھے بَری کردیا ہے۔ اور وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔ یہ مجذوبیت، مجاوری اور یہ جوگ ایک بہروپ ایک سوانگ ہی تو تھا، جو مَیں اپنے وجود پر طاری کیے نہ جانے کب سے بھٹک رہا تھا۔ اگر میرے اس حُلیے میں ذرا بھی سچائی ہوتی، تو مجھےکب کا دائمی سکون نصیب ہوچُکا ہوتا، مگر مَیں تو آج بھی اُتنا ہی دربدر اور خاک بسر تھا۔ 

فقیرے نے مجھے واپس مزار کے مرکزی دروازے پر اتارا تو نصف شب ڈھلنے کو تھی۔ حجرے میں میرا ہم نام میرے لیے پریشان سا بیٹھا تھا ’’کہاں رہ گئے تھے۔ مَیں تو تمہاری تلاش میں خود شہر کی طرف نکلنے والا تھا۔ سب خیر تو ہے ناں ساحر۔ تمہاری ملاقات ہوگئی تمہارے دوست سے…؟‘‘ مَیں نے اسے تسلّی دی۔ ’’نہیں، وہ ابھی یہاں نہیں پہنچا۔ تم آرام کرو۔ رات بہت ہوگئی ہے۔‘‘ وہ سمجھ گیا کہ مَیں اس وقت زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ ہم دونوں کروٹ بدل کر لیٹ گئے۔

صبح سویرے پھر سے وہی بھاگ دوڑ اور چہل پہل شروع ہوگئی، مگر آج مجاوروں کے انداز میں کچھ افراتفری سی تھی۔ پتا چلا کہ حویلی سے بڑی سرکار خود آرہی ہیں انتظامات دیکھنے کے لیے۔ اس لیےمحکمہ اوقاف کے سرکاری ملازم بھی بڑھ چڑھ کر ہر کام میں حصّہ لے رہے تھے۔ عصر سے پہلے باہر سے کوئی اہل کار بھاگتا ہوا آیا اور اُس نے اطلاع دی کہ بڑی سرکار کی سواری آچکی ہے۔ مَیں بھی دوسرے مجاوروں کے ساتھ ایک قطار میں بیٹھا یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ آنے والی کی شخصیت کا رُعب دبدبہ اُس سے پہلے مزار کے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ نذر و نیاز کا سلسلہ بھی شروع ہوچُکا تھا اور مختلف خادم اِدھر اُدھر لنگر بانٹتے پھر رہے تھے۔ 

بڑی سرکار نے خود کو ایک بڑی سی روایتی کڑھائی والی سیاہ چادر میں ڈھانپ رکھا تھا۔ اُن کے ساتھ شاید اُن کے کچھ منشی بھی تھے، جو رجسٹر پکڑے پیچھے بھاگے چلے آرہے تھے اور بڑی سرکار کی ہدایات نوٹ کررہے تھے۔ وہ میرے پاس بیٹھے عبداللہ کے قریب پہنچیں اور سلام دُعا کےبعدپہلا سوال یہی کیا ’’بڑے سائیں جی کب واپس لوٹیں گے جوگیو… وہ مجھ سے وعدہ کرگئے ہیں کہ ایک بار میر ے غریب خانے ضرور آئیں گے میری بہو کو دُعا دینے… ‘‘ عبداللہ نے انہیں تسلّی دی ’’جی… اگر سلطان بابا نے وعدہ کیا ہے، تو پھر وہ ضرور آئیں گے۔‘‘ بڑی سرکار مطمئن ہوکر پلٹنے لگیں، تبھی اُن کی نظر مجھ پر پڑی۔ ’’نئے لگتے ہو یہاں…پہلے کبھی دیکھا نہیں؟‘‘ مَیں نے جُھکی نظروں سے جواب دیا ’’جی… قسمت یہاں لے آئی ہے۔ شاید یہیں کا دانہ پانی لکھاہے لکھنے والے نے کچھ دن کے لیے۔‘‘ بڑی سرکار کی زبان سے بے ساختہ نکلا ’’بسم اللہ‘‘ اور پھر وہ آگے بڑھ گئیں۔ جس طرح پَل بھر میں وہ میرے اَن جان چہرے سے پہچان گئیں کہ مَیں اس علاقے میں نووارد ہوں، اس سے یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ مزارات اور درگاہوں کے عملے، انتظامات سے بہت اچھی طرح واقف تھیں۔ اوریہی ایک اچھے منتظم کی نشانی ہوتی ہے۔

شام ڈھلنے سے پہلے سارا لنگر تقسیم ہوچُکا تھا۔ تبھی عبداللہ میرے پاس آیا ’’ساحر، تم بھی دو گھڑی کہیں بیٹھ کر چند لقمے حلق سے نیچے اتارلو۔ مَیں دیکھ رہا تھا، تم نے سارا دن کچھ نہیں کھایا۔‘‘ ’’مَیں کھالوں گا، تم فکر نہ کرو، ویسے ایک بات پوچھوں، اگر تمہیں بُرا نہ لگے؟‘‘ اُس نے چونک کرمیری طرف دیکھا ’’ہاں پوچھو…؟‘‘ مَیں نے اُس کی گہری آنکھوں میں جھانکا ’’یہاں آنے سے پہلے تمہارا نام کیا تھا؟‘‘ عبداللہ کو حیرت کا جھٹکا لگا ’’تمیں کیسے پتا کہ عبداللہ سے پہلے بھی میرا کوئی اور نام رکھا تھا ماں باپ نے؟‘‘ ’’بس یونہی، ایک خیال سا آیا کہ جب سلطان بابا نے تمہیں اس نئی دنیا میں داخل ہونے کی دعوت دی، تو ضرور تمہارا نام بھی بدل دیا ہوگا؟‘‘ وہ ابھی تک مجھےکھوجتی نظروں سےدیکھ رہا تھا۔ ’’ہاں، تم ٹھیک سمجھے ہو۔ یہاں آنے سے پہلے میرا نام وقاص تھا، مگر اب عبداللہ ہی میرا نام ہے۔‘‘ اتنے میں بیرونی دروازے کی طرف شور سا مچ گیا۔ 

مجذوب اور ملنگ تیزی سےباہر کی طرف لپکے۔ ’’کیا ہوا، سب خیر تو ہے۔ یہ شور شرابا کیسا ہے…؟‘‘ تبھی کسی نے دُور سے نعرہ لگایا ’’مبارک ہو، سلطان بابا لوٹ آئے ہیں واپس۔‘‘ سبھی کے چہروں پر رونق سی پھیل گئی اور سبھی مرکزی دروازے کی طرف استقبال کے لیے لپکے۔ میرا دل اتنی زور سے دھڑکا، جیسےابھی پسلیوں کا پنجر توڑ کر سینے سے باہرنکل آئےگا۔ اورپھرکسی کی مانوس آواز سُنائی دی۔ ’’آگئے تم، اس بار بہت انتظار کروایا تم نے عبداللہ میاں…‘‘ مَیں نے گھبرا کر اُدھر دیکھا یہ آواز تو میں پہلے بھی کئی بار سُن چُکا تھا۔ بھیڑ چَھٹی تو وہ میری نظروں کے سامنے کھڑے تھے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین