پاکستان میں سرمایہ کاری، اب نہ تو خواب و خیال رہا اور نہ ہی ناممکنات میں سے ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ گزشتہ 70 برسوں کے دوران سرمایہ کاروں کو خصوصاً بیرون ملک کے محنت کش اور محب وطن سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کیلئے کیا کیا سہولتیں دی گئیں ہیں، گزشتہ 42سالہ مملکت میں قیام کے دوران راقم الحروف نے ہر آنے والے حکومتی رہنماؤں کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا، لیکن افسوس وہ وزراء یا حکومتی ارکان عمرہ کی ادائیگی اور آخری دعوت کھانے، فوٹو سیشن کے بعد جدہ ائیرپورٹ سے روانگی کے ساتھ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
دیار غیر سے پیسہ کما کر قانونی طریقے سے پاکستان لاتا ہوں
حد تو یہ ہے کہ اپنے معاملے کے فالو اپ کیلئے اگر کوئی پاکستان جاتا اور ملاقات کیلئے اس وزیر، مشیر یا حکومتی رکن سے ملاقات کی کوشش کرتا تو وہ اسےوقت دینے سے بھی گریزاں ہوجاتے ہیں، بعض تو ملتے بھی تھے اور چائے پیش کرنے کے بعد فائل آگے کسی محکمہ کو بھیج کر اپنی ذمے داری سے فارغ ہوجاتے اور فائل یا درخواست کسی سردخانے کی نذر ہوجاتی، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے تو ہر بار اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی بات کی ہے اور ون ونڈو سہولتیں فراہم کرنے کی باتیں بھی کیں۔یوکے، امریکا، کنیڈا اور سعودی عرب میں برسوں رہنےبوالے ایسے پاکستانی ہنرمند بھی ہیں جو جہاں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہوتے ہیں، وہیں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو تعلیمی اداروں کے قیام اور اس کےچلانے کی حکمت عملی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ماضی کی طرح موجودہ حکومت میں بھی بیوروکریسی ،سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے
سعودی عرب میں درجنوں ایسے پاکستانی ہیں جو ملک میں کرپشن سے پاک محفوظ سرمایہ کاری اور اپنے تحفظ کے خواہاں ہیں، لیکن اگر انہیں بنیادی سہولتیں اور سرمایہ کاری کو یقینی بنا تے ہوئے خوف سا آتا ہو تو وہ پھر کہاں جائیں۔ ایک طرف گزشتہ حکومتیں بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کی باتیں کرتی رہیں، ادارے قائم ہوتے ہیں اور اقرباپروری کےساتھ افسران تعینات کئے جاتے ہیں ،جن پہ کروڑوں روپے حکومتی خزانے سے صرف کئے جاتے رہے۔
ان کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ملک میں آنے والے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچائی جائیں ، سرمایہ دیکھ کر افسران کے منہ میں پانی بھر آتاہے اور ہرقدم پررکاوٹیں آنے لگتی ہیں، جس کے نتیجے میں سرمایہ کار اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر الٹے پاؤ ں ملک سے بھاگ آتا ہے اور حکومت رونا روتی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری خاطر خواہ نہیں ہورہی ۔چلیں گزشتہ حکومتیں تو بقول موجودہ حکومت ”کرپٹ “تھیں، مگر اب جب ملک میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے اور بقول تحریک انصاف حکومت کے تمام اداروں میں ”فرشتہ صفت لوگ براجمان ہیں‘‘ تو پھر کیوں ان محب وطن پاکستانیوں کو جو ملک میں آکر اپنی نہ صرف سرمایہ کاری کے خواہش مندہیں اور نہ صرف سرمایہ کاری بلکہ ملک میں تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ انہیں لوہے کے چنے کیوں چبوائے جارہے ہیں ؟ یہ مسئلہ کسی فردواحد کا تو ہوسکتا ہے مگر اس طرح کے درجنوں اوور سیز پاکستانی ایسے ہیں جو وطن کی محبت میں پاکستان میں اپنی جمع پونجی سرمائے کی صورت میں لگانے اور ملک کے اندر ہی قیام کے خواہشمند تو ہوتے ہیں۔
مگر وہاں بیٹھی نوکر شاہی انہیں سرمایہ کرنے سے توبہ کروادیتی ہے اور کم از کم ملک عزیز میں سرمایہ لگانے سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔جدہ میں برسوں سےرہنے والے سرمایہ کار جوپاکستان میں اپنے ہی علاقے میں تعلیم کو فروغ دینے کی تمنا میں ایک بڑی رقم لگا بیٹھا اور نتیجے میں 2019 کا پورا عرصہ کبھی لاہور اور کبھی کسی شہرکےدفتروں کے چکر کاٹتے تھک گئے، دوسری جانب ان کا جدہ میں اصل سیٹ اپ بھی متاثر ہورہا ہے۔ جہاں ساڑھے تین سوسے زائد پاکستانیوں کا روزگار منسلک ہے ، سعودی کفیل ان حالات میں بھی ان سےہرممکن تعاون کرتارہا ہے۔
ملک کے معروف سرمایہ کار اور سعودی عرب میں کنسٹر کشن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سردار عبد الکریم کھوسہ پنجاب کی بیورو کریسی کے ہاتھوں خوار ہو گئے،ڈی جی خان میں تین سال قبل ایک ارب کی سرمایہ کاری سے شروع کی گئی غازی نیشنل انسٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ سائنسز یونیورسٹی تاحال آپریشنل نہ ہو سکی ،پنجاب کی بیورو کریسی نےعبد الکریم کھوسہ کے صبر کا امتحان لینا شروع کر دیا،وزیر اعظم پورٹل پر شکایت کے باوجود بیوروکریسی رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہے، اطلاعات کے مطابق ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والےتعمیراتی شعبے میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے سردار عبد الکریم خان کھوسہ30سال سےسعودی عرب میں اس شعبے سے وابستہ ہیں جنہوں نے سعودی عرب میں بزنس کے ساتھ اپنے آبائی علاقے کے بچوں کے لئے معیاری تعلیمی ادارے بنائے اور بعد ازاں تین سال قبل ڈی جی خان میں طلباءطالبات کے لئے اعلیٰ معیار کی نجی یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے دیار غیر میں محنت کے ساتھ کمایا جانے والا سرمایہ اپنے وطن قانونی ذرائع سے واپس لائے اور 51 کینال رقبہ خرید کر یونیورسٹی کی تعمیر شروع کر دی۔
اس دوران اُنہوں نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے تمام تقاضے پورے کرنا شروع کر دیئے۔2018 ء میں یونیورسٹی کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد سردار عبد الکریم نے سرکاری دفاتر کے چکر لگانا شروع کر دیئے تاہم ڈیڑھ سال گذرنے کے باوجود حائل رکاوٹیں دور نہ ہو سکیں،ڈی جی خان کے طلباءو طالبات کا اپنے ہی ضلع میں قائم ہونے والی تعلیمی درسگاہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب تا حال ادھورا ہے۔اس حوالے سے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو ”بزنس فرینڈلی“ یا سرمایہ کار دوست ہونے کے زبانی دعوو ں کی بجائے ایسی قابلِ عمل پالیسیاں متعارف کرانا ہوں گی جو حقیقت میں اوور سیز پاکستانی سرمایہ کاروں کا اپنے وطن پر اعتماد بحال کرسکیں، بیورو کریسی کی جانب سے اوور سیز پاکستانی سرمایہ کاروں کے ساتھ روا رکھی جانے والی غیر ضروری پالیسیوں کی حوصلہ شکنی کے دعوے زبانی نہیں عملی طور پر ہوں گے تو ملک کی معاشی حالت بہتر ہو گی۔
اُنہوں نے کہا کہ بد قسمتی ہے کہ اس حکومت میں بھی ماضی کی طرح بیوروکریسی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے، جس سے متعدد پروجیکٹس تعطل کا شکار ہیں،میں نے ساری زندگی سعودی عرب میں ایمانداری کے ساتھ محنت کی اور ملک کا نام روشن کیا،ڈی جی خان میں اسکول قائم کیا اور پھر کالج بنایا جس نے پسماندہ ضلع میں تعلیم کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا،میرا مشن ڈی جی خان کے بچوں کو کم فیس میں جدید، اعلیٰ اور معیاری تعلیم دینا ہے،اسی مشن کی تکمیل کے لئے غازی نیشنل انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی اور جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وسیع و عریض رقبے پر تمام سہولتوں سے آراستہ یونیورسٹی کا مرکزی کیمپس تعمیر کیا گیا،پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے گذشتہ سال اپریل میں یونیورسٹی کا دورہ کیا لیکن تاحال مجھے ایک لیٹر بھی نہیں دیا گیا،بیوروکریسی کی روایتی سست رفتاری کی وجہ سے ہزاروں بچوں کا ایک قیمتی سال بھی ضائع ہو چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ میرا سارا بزنس سعودی عرب میں ہے،میں دیار غیر سے پیسہ کما کر قانونی طریقے سے پاکستان لاتا ہوں اور اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں لیکن بیورو کریسی کے رویے نے مجھے سخت مایوس کیا ہے،میں نے بیورو کریسی کی روایتی سست روی پر وزیر اعظم سٹیزن پورٹل میں بھی درخواست دی لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اُنہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم راجہ یاسر ہمایوں سرفراز بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور وہ بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے صوبے میں ایسا کام کرنا چاہتے ہیں۔
جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیمی میدان میں فائدہ ہوگا ،میری اُن سے یونیورسٹی کے حوالے سےکئی بار رابطے ہوئے ،وہ بھی صورتحال کو جان کر پریشانی ظاہر کرتے رہے ہیں، کیونکہ اُن کی جانب سے کروائی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجود بیوروکریسی میں بیٹھے افسران کبھی کوئی رکاوٹ ڈال دیتے ہیں اور کبھی کوئی۔سردار عبد الکریم کھوسہ نے کہاکہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو چاہئے کہ اوورسیز پاکستانی جو دیار غیر میں پیسہ کما کر اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اُنہیں وی وی آئی پی کا درجہ دیا جائےاور پروجیکٹس میں رکاوٹ ڈالنے والے بیوروکریسی کے صوابدیدی اختیارات ختم کرکے قوانین کو آسان بنایا جائے،حکومت کو چاہئے کہ کاروبار سے متعلق قوانین اور ریگولیٹری فریم ورک کو صحیح خطوط پر استوار اور آسان بنانے کیلئے متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورتی عمل جلد مکمل کریں، جبکہ غیر ضروری ضابطوں کو کم کرنے کا عمل بھی جتنی جلدی ممکن ہو مکمل کیا جائے۔
اُنہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت سرمایہ کاری کی راہ میں حائل سرخ فیتے کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے اور سرمایہ کاروں کو درکار این او سی تین ماہ میں فراہم کرے اور ون ونڈو آپریشن پر عملی کام شروع کیا جائے۔اُنہوں نے کہا کہ ایماندار اور محب وطن اوور سیز پاکستانی مدتوں سے بیورو کریسی اور ظالمانہ نظام کی وجہ سے آج بھی ملک میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں، ڈیرہ غازی خان وہ علاقہ ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا علاقہ ہے ،وہاں تعلیمی شعبے پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ انہوں نے تعلیم کے شعبے میں کیوں، کسی اور شعبے میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کی، عبدالکریم کھوسہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کیلئے سب سے کم بجٹ رکھنے کی بات اک عرصہ دراز سے سن رہے ہیں، دنیا کی کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ تعلیم کے شعبے کو بہتر نہ کرلے تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ صرف وہی اقوام دنیا میں اپنا وجود بر قرار رکھ سکی ہیں جنہوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا ہے اور اپنی نئی نسل کو اس زیور سے آراستہ کیا ہے ۔
چین، جاپان، کوریا، ملیشیا، فلپائن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کسی بھی فلاحی مملکت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے معماروں کو بہترین تعلیمی سہولت فراہم کرے ،بد قسمتی سے آج پاکستان تعلیم کے شعبے میں دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے اور اس شعبے کو تجارت بنانے کی وجہ سے عام لوگوں کو اس طرف توجہ کرنے میں مشکلات ہیں، ملک میں نظام تعلیم انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ اپنے علاقے سے شروعات کی جائے، میں اور بھی دوستوں کو مشورہ دیناچاہوں گاکہ ملک میں سستی اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لیےسرمایہ کاری کریں۔
فوٹو... عبدالکریم خاں..