• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 میرپورخاص کی تحصیل جھڈو کی سرزمین رب تعالی کے مقربین کا مسکن رہی ہے، جن میں حضرت بابا نور الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ایک معروف و مشہور اور نمایاں مقام و مرتبہ کی حامل ہستی ہیں۔ آپ کا نسبی تعلق اہل بیت عظام سے تھا، خدمت خلق کے جذبہ سے سرشارحکمت کے پیشہ سے وابستہ تھے،۔ آپ کے کچھ مقربین آپ کے روحانی منصب کے بارے میں مختلف روایات بیان کرتے ہیں ، جس کی تصدیق ممکن نہیں ہے ۔ آپ کا مرقد جھڈو ٹائون کمیٹی سے متصل ایک سڑک پر ہے۔

نورالدین اجمیری کے والد کا نام سید امیر احمد تھا جو کہ اپنے خاندانی پیشے حکمت سے وابستہ تھے، اس وجہ سے انہیں حکیم امیر احمد بھی کہا جاتا تھا۔سید امیر احمد طویل عرصہ تک راجستھان کے قصبے پالی کی ناڈی مسجد میں پیش امام بھی رہے۔ پالی نام کا قصبہ راجستھان میں جود ھپور سے 40کلو میٹر دور واقع ہے۔ انہوں نے پہلی شادی پالی میں ہی کی،جس سے ان کے تین بیٹے پیدا ہوئے، جب کہ دوسری شادی اجمیر شریف کے ایک نیک نام سید گھرانے کی خاتون چاند بی بی کے ساتھ ہوئی جن سےدو بیٹیاں اور دو بیٹے سید نور الدین اور سید ظہور الدین پیدا ہوئے۔ اس وقت حکیم سید امیر احمد کے پانچ بیٹوں میں سے صرف ایک صاحبزادے حیات ہیں جو کہ راجستھان میں ہی رہائش پذیر ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت سید امیر احمد کے چچا زاد بھائی سید احمد علی محکمہ ریلوے کے ملازم اور میرپورخاص میں مقیم تھے۔ 1951میں سید نورالدین اجمیری نے بھی شہر پالی کو خیر باد کہا اور ہجرت کر کے میرپورخاص آگئے، جہاں ان کے رشتہ کے چچا سید احمد علی ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر جوتوں کی دوکان کھول چکے تھے۔ سید احمد علی نے سید نور الدین کو میرپورخاص کے قدیم صرافہ بازار تین پتھر والی گلی میں حکیم نظام الدین کے حکمت خانہ پر بٹھا دیا جہاں سید نور الدین نے حکمت شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد سید نورالدین کے والد سید امیر احمد اپنے صاحبزادے کو واپس ہندوستان لے جانے کے لیے میرپورخاص آئے تاہم سید نور الدین نے واپس جانے کی بجائے اپنے والد کو بھی میرپورخاص میں روک لیا اور تقریباََ ایک سال تک سید امیر احمد میرپورخاص کی ایک مسجد میں پیش امام رہے۔بعد ازاںوہ واپس ہندوستان لوٹ گئے۔ 

سید احمد علی نے نورالدین کا اپنی بڑی صاحبزادی زیب النساءکے ساتھ نکاح کر دیا اورانہیں جھڈو میں جامع مسجد کے شمال مشرقی کونے والی دوکان میں حکمت شروع کرنے کی ہدایت کی۔حکیم سید نور الدین نے جھڈو میں حکمت کا کام شروع کیا تومریضوںسے دوا کا معاوضہ طلب نہیں کرتے تھے، پوچھنے پر کہتے تھے "دے دو جو دل چاہے" بعض مریض دوا کی قیمت سے نصف رقم بھی دے جاتے تو بابا جی چپ چاپ رکھ لیتے، جس کی وجہ سے حکمت کی دوکان نہ چل سکی۔ان کی اہلیہ نے اپنے والد کو معاشی حالات بتائے تو سید احمد علی اپنے داماد سید نور الدین کو دوبارہ میرپورخاص لے گئے۔

1956میں سید بابا نورالدین کے دو بھائیوں ظہور الدین اور مشتاق احمد کی شادی کی وجہ سے ان کے والد سید امیر علی نے پاکستان میں مقیم اپنے بیٹے، بھائی اور رشتے داروں کو مدعو کیا، شادی میں شرکت کے بعد بابا نور الدین نے اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز کے مزار پر حاضری دی اور پھر پاکستان واپس لوٹ آئے اور سید نظام الدین کے مطب پر حکمت شروع کر دی۔ انہی دنوں بابا نور الدین کے مزاج میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور آنکھوں میں اس قدر مقناطیسی قوت پیدا ہوئی کہ کسی بھی قسم کے جسمانی درد کے مریض دوا لینے آتے تو بابا نور الدین دوا دینے کی بجائے درد والی جگہ پر چند منٹ نظر جما کر دیکھتے اور مریض صحت یاب ہو جاتا، چند روز یہ معاملہ چلا تو گھر میں پھر سے مسائل نے جنم لیا جس پر بابا نور الدین کے سسر سید احمد علی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح مفت میں علاج کرتے رہے تو بچے کیسے پالو گے۔ ایک دن وہ ایک ننگ دھڑنگ اور میلے کچیلےمجذوب کو گھرلے آئے۔ اس پرجب چچا نے اعتراض کیا تو فرمایا "اللہ کا بندہ ہے خود ہی آیا ہے خود ہی چلا جائے گا"۔ 

لیکن جب اہلیہ نے دیکھا کہ بابا نورالدین مجذوب کا جھوٹا کھا رہے ہیں تو معاملہ ان کی برداشت سے باہر ہو گیا۔ اہلیہ کے غصہ پر بابا نورالدین اس مجذوب شخص سمیت لاپتہ ہو گئے۔ سالوں کی تلاش کے بعد کسی نے بتایا کہ نورالدین کو بابا فرید گنج شکر کے مزار پر دیکھا گیا ہے۔ورثاء وہاں پہنچے توپتا لگا کہ ایک روز پہلے تک وہیں تھے پھر نہ جانے کہاںچلے گئے۔ پانچ سال کا عرصہ گزر گیا اور بابا نورالدین ایک بار پھر میرپورخاص میں اس حالت میں نظر آئے کہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا اور بچے پتھر مار رہے تھے۔ اطلاع ملنے پر ان کے چچا سید احمد علی، اظام الدین کے ساتھ وہاں پہنچے تو بابا نور الدین نے انہیں نہیں پہچانا، پیچھے۔ انہوں نے بابا نور الدین کو سید احمد علی کے گھر پہنچایا لیکن بابا نور الدین دوبارہ لاپتہ ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ وہ جھڈومیں سخی تاج محمد کے مزار پرمجذوبوں جیسی حالت میں ہیں اور کسی کو پہچان نہیں رہے۔

جھڈو میں عبدالرحمن مغل نام کے ایک بڑھئی تھے، جن کا بیل گاڑیاں بنانے کا کام تھا۔ عبدالرحمن نے بابا نور الدین کی خدمت شروع کی۔ وہ بابا نور الدین کی ٹانگیں دباتے اور صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے اور ساتھ ہی ساتھ بابا نور الدین سے مار بھی کھاتے رہتے۔ رفتہ رفتہ بابا نور الدین نے قمیص پہننا شروع کر دی لیکن شلوار یا پاجامہ تب بھی نہیں پہنا تاہم کچھ عرصہ بعد تہبند باندھنا شروع کیا۔ عبدالرحمن مغل نے اپنا کاروبار بیٹوں کے حوالے کیا اور اپنے آپ کو بابا نور الدین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ان دنوں بابا نور الدین مبہم فقرے کہتے جن کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا، ان فقروں میں اکثر "پہلوانی" کا ذکر ہوتاتھا۔ 

مزید کچھ عرصے میں جنون کی کیفیت کم ہوئی تو پاس بیٹھنے والے عقیدت مندوں کو نماز اور درود شریف پڑھنے کی تاکید کرتے اور زانی و نشہ کے عادی شخص کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔جلال کی کیفیت میں آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور بازوؤں کے بال کھڑے ہو جاتے تھے۔ ایک بارعقیدت مندوں کو نماز مغرب کی ادائیگی کے لئے مسجد بھیجا لیکن خود مضطرب حالت میں آستانہ کے آگے ٹہلتے رہے۔ اگلے روز ایک عقیدت مند پر غصہ ہورہے تھے کہ "کل ہم نے تمہیں مسجد میں نہیں دیکھا"۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص نے واقعی مغرب کی نماز ادا نہیں کی تھی۔ بابا نورالدین نے زندگی بھر کسی کو بیعت نہیں کی ۔ خود کے لئے "ہم، ہمیں اور ہمارے" کا صیغہ استعمال کرتے تھے۔ اکثرفرماتے، ہمیں خواجہ غریب نواز نے بھیجا ہے۔ 

اکثر فرماتے ہمیں 25 سال تک لکھنے کا چلہ کاٹنا ہے اس مقصد کے لئے چھوٹے چھوٹے گول و بیضوی پتھروںسے شروعات کیں جن پر لفظ "نورالدین" لکھتے، عقیدت مند ان پتھروں کو تھیلوں، بوریوں اور چوبی بکسوں میں جمع کرتے اور جب یہ پتھر منوں کے حساب سے جمع ہو گئے تو ان پتھروں کو زمین میں دبایا جانے لگا، اب نورالدین کے علاوہ لفظ "مہاجر" اور "مہاجرین" بھی لکھنے لگے اس کےلیےفرماتے کہ "ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ لکھ رہے ہیں"۔ عقیدت مند بھی باپ جی کے ساتھ لکھنے میں شامل ہوگئے تو کاغذ کی شیٹوں، ماربل، لوہے کی چادروں لکڑی کے تختے تختیوں، پلائی ووڈ کی شیٹوں پر لکھنے کا عمل پھیلتا چلا گیا ۔ 

بابا نورالدین کی یہ تحریری یادگارہیںجو ان کے آستانے اور عقیدت مندوں کے گھروں اور دکانوں میں موجود ہیں ۔ ان تحریروں میں اسم اللہ، اسم محمد، مسلم بن عقیل، حضرت ضرار کے نام لکھے گئے ہیں۔ انہیں پہلوانی کے کھیل سے خاص عقیدت تھی، ان کی بیشتر تحریروں میں فن "پہلوانی" پر مختلف انداز میں زور دیا گیا ہے ۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ عقیدت مند باپ جی کے ہاتھوں بازؤوں پر زخم اور چوٹوں کے نشانات دیکھ کر استفسار کرتے تو باپ جی فرماتے "رات ہماری ہندو پہلوانوں کے ساتھ کشتی ہوئی تھی"۔ وصال سے چند روز قبل اس بات کی تکرار کرنے لگے کہ "ہم دولہا بننے والے ہیں۔" اور وصال کے روز بھی اپنے خادم عبدالرحمن کو کہا "چاچا جی ہم نے کہا تھا کہ ہم دولہا بننے والے ہیں، آو ہمیں دولہا بنائو "۔5 فروری 2000 اتوار کے دن نیا سفید کرتا پہنا اور جناح کیپ پہن کر اپنی مخصوص کرسی پر تشریف فرما ہوکر چائے نوش کی اور فرمایا "ہمیں لینے کے لئے آ گئے ہیں"۔ اور دوپہر پونے ایک بجے آنکھیں بند کرلیں۔ اس وقت باپ جی کی عمر تقریبا" 80 برس تھی۔

بابا نورالدین کی وصیت کے مطابق انہیں ان کے آستانے میں ہی دفن کیا گیا ۔ بابا نورالدین کی نماز جنازہ ریلوے گراؤنڈ میں ادا کی گئی جہاں ان کے عقیدت مندوں کی بڑ ی تعدادرموجود تھی۔ وصال کے چھ ماہ بعد خادم خاص عبدالرحمن کے خواب میں آکر انہوں نے کہا کہ ہماری قبر میں پانی آگیا ہے۔ ان کے عقیدت مندوں اور رشتہ داروں کی مشاورت سے رات کے وقت قبر کشائی کی گئی،لیکن قبر میں حضرت کا جسم موجود نہ تھا ۔ 

عقیدت مندوں نے کھدائی جاری رکھی تو دس فٹ کی گہرائی میں خوشبو میں بسا ہوا جسم پایا گیا ، لیکن قبر میں پانی نہیں تھا، لیکن جیسے ہی جسم مبارک باہر نکالا گیا تو قبر کے چاروں طرف سے پانی امڈ آیا اور قبر میں کھڑے ہوئے خادم شہزاد علی اجمیری کے سینے تک پہنچ گیا ۔ آخر فجر کی اذان کے وقت تک بغلی قبر بنا کر جسم مبارک دوبارہ رکھا گیا تو باپ جی نے خود ہی قبلہ رخ کروٹ بدل لی۔ اہر سال 27 ذوالقعد کو باپ جی کا سالانہ عرس منایا جاتا ہے جس میں محفل سماع منعقد کی جاتی ہے ۔عرس پر کئے جانے والے تمام اخراجات باپ جی کے عقیدت مند اپنے پاس سے کرتے ہیں۔ باپ جی کے مزار کے قدموں کی طرف ان کے خادم عبدالرحمن مغل اور ایک علیحدہ حصہ میں عبدالرحمن کی اہلیہ کی قبر بھی بنائی گئی ہے۔

تازہ ترین