• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • کمزور کو بس ایک آسرا ہے، یومِ حساب کا آسرا
  • انسان زیادہ مجبور ہوجائے تو خود اپنے آپ سے انتقام لینے لگتا ہے
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

اگرچہ آواز اتنی بلند نہیں تھی، مگر پھر بھی اس خاموشی، تاریکی میں ایسے گونجی کہ مَیں یک لخت ڈگمگا سا گیا۔ گھبرا کر اندھیرے میں جھانکنے کی ناکام کوشش کی ’’کون ہو تم، مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا…‘‘ دوسری جانب سے کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی۔ ’’کوشش بے کار ہے۔ اندھیرے کی بصارت سے ہمیشہ جنگ رہی ہے۔ ویسے سوچو تو ایسی نِکمّی بصارت بھی بھلا کس کام کی، جسے دیکھنے کےلیےہمیشہ روشنی کی ضرورت پڑے۔ اب تو دن نکلنے کے بعد ہی اس قیدخانے میں روشنی کی کوئی کرن جھانکے گی۔ مغرب ڈھل چُکی ہے اور یہاں اس قفس میں قیدیوں کو چراغ کی سہولت مہیّا نہیں کی گئی۔‘‘ میرے حواس دھیرے دھیرے بحال ہونے لگے۔ ’’آپ کون ہیں… اور یہاں کیا کر رہے ہیں … ؟‘‘ دوسری جانب سے پھر ہنسی کی آواز اُبھری ’’قیدی ہوں تمہاری طرح… کسی دعوت پر تو آیا نہیں یہاں۔ نام مدّثر ہے، شعبہ مائنڈ سائنس۔ پچھلے کئی سال سے اس شعبے سے منسلک تھا، البتہ گزشتہ تین ماہ سے اس تہہ خانے کا مہمان ہوں اور… تم کون ہو… کیا تمہیں بھی علاقے کے جاگیردار نے کسی حُکم عدولی کی سزا کے طور پر یہاں لا پھینکا ہے؟‘‘ مَیں نے ایک گہری سانس لی۔ گویا دوسرا قیدی بھی سکندر کے عتاب کا شکار بنا تھا۔ مَیں نے مختصراً مدثر صاحب کو اپنی روُداد سُنادی۔ تہہ خانے میں ڈھلتی رات کے ساتھ مزید تاریکی چھاتی گئی۔ 

مدثر کی کہانی بھی مختصر تھی۔ وہ اپنی ٹیم کے ہم راہ اس صحرا میں سُکون کی تلاش اور کسی ریسرچ کے سلسلے میں آیا تھا، مگر غلطی سے ٹیم سے بچھڑ کر سکندر کےممنوعہ علاقے کی طرف آنکلا۔ سکندر کے محافظوں نے پکڑ کر اُسے سکندر کے دربار میں پیش کردیا اور اس پر مخالف جاگیردار کے لیے جاسوسی کا الزام بھی لگادیا۔ شقی القلب سکندر کے لیے اتناہی کافی تھا۔ اس نے مدثر کو قید میں ڈلوا دیا اور کئی بار تشدّد کروا کے مدثر سے اس کی حقیقت جاننے کی کوششیں جاری رکھیں۔ مگر مدثر کے پاس بتانے کے لیے صرف ایک سچ ہی تھا، جسےسکندر قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ان چھوٹے علاقوں میں اقتدار آج بھی اِنہی جاگیرداروں اور طاقت ور امراء کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ سیکڑوں، ہزاروں میل دُور کسی دارالحکومت میں کون حکمران ہے یا مُلک اور صوبے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں، یہ سب باتیں یہاں فضول اور بے معنی سمجھی جاتی ہیں۔ جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس والا کلیہ یہیں آکر صحیح طور پر سمجھ آتا ہے۔ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک یہ نظام ایسے ہی چلے گا۔ کم زور کو بس ایک آسرا ہے، یومِ حساب کا آسرا۔

ساری رات انہی سوچوں میں گزرگئی۔ فجر کی اذانوں کے بعد دھیرے دھیرے جب روشنی پھیلنے لگی تو میرا اپنے قفس اور ہم قفس کی صُورت سے بھی تعارف ہونے لگا۔ یہ کسی قدیم حویلی کا زندان خانہ یا بڑا سا تہہ خانہ تھا، جسے شاید کبھی خاص اِسی مقصد کے لیے تعمیر کیا گیا ہوگا، کیوں کہ دیواروں میں فولادی کنڈے اور اُن میں نصب لوہے کی مضبوط زنجیریں لگی دکھائی دے رہی تھیں۔ انسان کو انسان قید کرنے کا شوق جانے کب پیدا ہوا ہوگا؟ قید کا تعلق تو سرکشی سے ہے اور شاید ’’حاکم‘‘ کو ’’سرکش‘‘ کبھی نہیں بھاتے۔ تہہ خان کے کمرے میں ایک جانب غسل خانہ بنا ہوا تھا۔ پرلی دیوار کی جانب ایک ادھیڑ عُمر شخص کسی پرانے بوسیدہ بستر پر لیٹا بے فکر سو رہا تھا۔ قریب ہی کھانے کے کچھ برتن پڑے تھے۔ تہہ خانے میں قدرتی روشنی بھی بمشکل چند درزوں اور ایک بند چھوٹے روشن دان کی بدولت جھلکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ 

کچھ دیر میں مدثر صاحب بھی جاگ گئے۔ ’’صبح بخیر، قید خانے کی پہلی صبح مبارک۔‘‘ مَیں نے مُسکرا کر اُن کی طرف دیکھا ’’اچھی بات یہ ہے کہ قید اور حالات نے آپ کی حِس مزاح پر کچھ زیادہ اثر نہیں کیا۔ آپ کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا، تو اب تک یقیناً اپنے حواس کھو چُکا ہوتا۔‘‘ وہ بھی دھیرے سے مُسکرا دیئے ’’سچ پوچھو تو یہ بھی حواس باختگی کی ایک نشانی ہے۔ انسان بہت زیادہ مجبور ہوجائے، تو خود اپنے آپ سے انتقام لینے لگتا ہے۔ میری یہ حِس مزاح بھی میرا اپنی بےبسی سے ایک بدلہ ہی تو ہے۔ خود اپنا مذاق اُڑاتا ہوں اور خود ہی خود پر ہنستا ہوں۔ ہاں البتہ، اس قید نے تنہا بیٹھ کر سوچنے اور ذہن کی اُلجھی گتھیوں پر ارتکاز کا اچھا خاصا موقع فراہم کردیا ہے۔ آزاد دنیا کی بھاگ دوڑ اور نفسانفسی میں بہت سے اہم منظرسامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے یا ہم اُنہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مجھے یہ قید بھی اب کسی جوگی کے جوگ کی طرح لگتی ہے، جیسے کوئی سادھو سنت دنیا کی بھیڑ سے کٹ کر دُور کسی جنگل بیابان میں تنہا بیٹھا اپنے اندر خود ہی کو تلاش کر رہا ہو۔‘‘ مَیں غور سے اُن کی بات سُن رہا تھا، تبھی اچانک انہوں نے مجھ پر ایک نظر ڈالی ’’تم بھی مجھے کوئی سادھو، کوئی جوگی ہی لگتے ہو۔ 

کس کی تلاش میں ہو…؟‘‘ مَیں ان کی بات کا جواب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اوپر سے دروازہ کُھلنے کی اواز آئی اور دو سخت گیر، خرانٹ قسم کے محافظ سیڑھیاں اُتر کر نیچے آگئے ’’چلو… تمہیں سکندر سائیں نے یاد کیا ہے۔‘‘ اُن کی گرفت مضبوط اور انداز ظالمانہ تھا۔ اوپر آ کر کمرے سے باہر نکلنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ تو وہی حویلی ہے، جہاں میں دوسرے فقیروں کے ساتھ پہلے بھی آچُکا تھا دَم کیا پانی دینے کے لے۔ دُور ایک چھوٹے کھلے دروازے سے وہی اصطبل نظر آرہا تھا۔ مطلب یہ سکندر کی حویلی ہی کا کوئی پچھلا صحن تھا، جہاں تہہ خانے میں اُس نے اپنا زندان آباد کر رکھا تھا۔ 

اچانک مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ وہ بھی تو اس حویلی کے کسی زنان خانے میں چند دیواروں کے فاصلے پر یہیں کہیں موجود ہوگی۔ یہ سوچ کر ہی میرے سارے جسم میں ایک جھنجھناہٹ سی پیدا ہوگئی۔ یہ دیواریں کتنی بے رحم اور ظالم ہوتی ہیں، اِس کا صحیح اندازہ مجھے اِسی ایک پَل میں ہوا۔ جانے دنیا کی پہلی دیوار کب اور کس نےاٹھائی ہوگی؟ پھر وہی میری ضعیف بصارت…جوکچھ معمولی ریت اور سیمنٹ کی دیواروں کو چھید کر اُس تک نہیں پہنچ پائی۔ کہنے کو ہم انسان کتنے بڑے دعوے کرتے ہیں، مگر اوقات صرف اتنی کہ کوئی کُھلی آنکھ پر ہاتھ کا پردہ بھی رکھ دے، تو ہم نابینا ہوجاتے ہیں۔

سکندر دوسری جانب والے صحن میں شان سے کرسی ڈالے بیٹھا اپنےمحبوب کتّوں کو سہلا رہا تھا۔ چند محافظ اور نوکر آس پاس چوکنّا کھڑے تھے۔ کتّوں نے مجھے دیکھا، تو ناپسندیدگی سے غرّائے۔ جانے ان جانوروں کو اپنے مالک کی پسند، ناپسند کا اتنی جلدی کیسے پتا چل جاتا ہے؟ سکندر کے ایک اشارے پر وہ میری تِکّا بوٹی کرنے کے لیے سنبھل کر بیٹھ گئے۔ سکندر نے غور سے میری طرف دیکھا۔ ’’ہاں…اب بولو… کون ہو تم… اصلیت کیا ہے تمہاری اور وہاں اس خطرناک علاقے میں کیا کر رہے تھے؟ کتنے بندے سرحد پار کروانے کے لیے لائے ہو تم اپنے ساتھ اس فقیر کے بھیس میں…؟‘‘ سکندر نے ایک ہی سانس میں اپنے سارے خدشات بیان کردیئے۔ ’’مَیں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ مَیں اُس سرحدی بازار میں اپنے ایک دوست کی تلاش میں گیا تھا۔ میرا نام عبداللہ ہے اور مَیں کسی غلط ارادے سے یہاں نہیں آیا… نہ ہی میرا انسانی اسمگلروں کے کسی گروہ سے کوئی تعلق ہے۔ تم چاہو تو اپنے ذرائع سے تصدیق کرواسکتے ہو…‘‘ سکندر کو ایک فقیر کی زبان سےاتنے سیدھے جواب کی توقع نہیں تھی۔ شاید وہ یہ اُمید لگائے بیٹھا تھا کہ مَیں اُس کے آگے کوئی منّت زاری کروں گا، یا معافی اور آزادی کی درخواست پیش کروں گا۔ وہ اس لہجے کا عادی نہیں تھا۔ 

غلام اور کمی کمین ہمیشہ ہاتھ جوڑے اور جُھکے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں۔ سیدھی کمر تو بس حاکموں کو جچتی ہے۔ کم زور ہمیشہ کمر میں خم کے ساتھ ہی پیدا ہوتے اور اِسی خم کے ساتھ مرجاتے ہیں۔ ورنہ یہی حاکم اُن کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ سکندر کو بھی میری سیدھی کمر برداشت نہ ہوئی۔ وہ غصّے میں کڑک کر بولا ’’تصدیق تو مَیں ضرور کروائوں گا۔ اور یاد رکھو اگر میرا شک صحیح نکلا تو تمہارا نام و نشان بھی نہیں ملے گا کسی کو۔ یہ کتّے دیکھ رہے ہو ناں… ایک ساتھ یہ چاروں تم پر چھوڑ دوں گا، تو چند منٹوں میں تمہاری ہستی ایسے فنا ہوجائے گی کہ جسم سے بہتا خون بھی زمین پر نظر نہیں آئےگا، اُسے بھی یہ چاٹ جائیں گے۔ لہٰذا تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنی اصلیت خود مجھے صاف صاف بتادو… شاید تمہیں معافی مل جائے۔ پرسوں رات میرے گودام میں آگ لگانے والے دشمن وہاں سے سرحد کی طرف ہی بھاگے تھے، مگر مَیں اُنہیں اتنی آسانی سے اپنے علاقے سے نکلنے نہیں دوں گا۔ 

سب کی قبریں یہیں بنیں گی، تم سمیت…‘‘ سکندر کی بات پوری ہونے سے پہلے باہر سے کوئی مُنشی دوڑتا ہوا آیا ’’سائیں جی! مہمان پہنچ گئےہیں۔ ابھی قادر ڈرائیور لے کرآیا ہے۔‘‘ سکندر اُس کی بات سن کر جلدی سے کھڑا ہوگیا اور جاتے جاتے جلدی میں بولا ’’اس بہروپیے کو ابھی اُس پاگل سائنس دان کے ساتھ بند رکھو۔ اُسے بھی ہماری روٹیاں توڑتے بہت دن ہوگئے ہیں۔ کل ایک ساتھ اِن دونوں کا فیصلہ کردیں گے۔ اچھا ہے، میرے مہمانوں کو بھی تھوڑی تفریح سے لُطف اندوز ہونے کا موقع مل جائے گا… پچھلے قبرستان میں دو قبریں تیار کروالو…‘‘ سکندر کا لہجہ قطعی تھا اور اُس کے محافظوں کا ردّعمل بھی ایسا تھا، جیسے یہ اُن کے لیے معمول کی بات ہو۔

مجھے دُور حویلی کی منڈیر پر موت کی دیوی بال کھولے بیٹھی مُسکاتی نظر آئی، جیسے مجھ سے کہہ رہی ہو ’’تمہیں اِس صحرا کا بلاوا مَیں نے ہی تو بھیجا تھا۔ ٹھیک وقت پر آئے ہو عبداللہ…‘‘ محافظ مجھے کھینچتے ہوئے دوبارہ اُسی تہہ خانے تک لائے اور اندر دھکیل کر دروازہ بند کردیا گیا۔ مدثر صاحب کسی بڑی دَرز سے اندر آئی دھوپ کے ٹکڑے کو اپنے ہاتھ کی پَوروں سے پکڑنے کی کوشش کررہے تھے۔ ’’بڑی جلدی تمہاری جان چُھٹ گئی، اس جاہل کے دربار سے۔ مجھے تو وہ گھنٹوں ایک پیر پر کھڑا رکھتا ہے، جب بھی پیشی پر بلاتا ہے۔ جانے اُسے میری بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ مَیں وہ نہیں ہوں، جو وہ مجھے سمجھ رہا ہے۔‘‘ مَیں چُپ رہا، کیوں کہ مدثر صاحب کویہ بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا کہ سکندر نے آنے والے روز ہماری قضا کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ کبھی کبھی ’’ہونی‘‘ سے اچانک اور ’’اَن ہونی‘‘ کا واقع ہونا بہتر ہوتا ہے۔ مَیں نے اُن کا دھیان بٹانے کے لیے اُن سے پوچھا ’’آپ نے کل رات ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ کیا یہ بھی ذہنی سائنس (Mind Sciences) کی کوئی کڑی ہے؟‘‘ مدثر صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا ’’گویا پڑھے لکھے ہو… چلو اچھا ہے، اب تم سے بات کرنے میں لُطف رہے گا۔ دراصل میرا ماننا تویہی ہے کہ اِس صدی کا نصف یا اِس کا ایک آدھ عشرہ مزید گزرنے کے بعد مصنوعی ذہانت یا روبوٹ انسانی ذہانت پر فتح حاصل کر لے گا۔ انسان کا المیہ یہی ہے کہ اُسے بے پناہ صلاحیت دے کر دنیا میں بھیجا گیا تھا، مگر گمان یہ ہے کہ عام انسان نے آج تک اپنےدماغ کا کچھ فی صد ہی اِن صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ 

آئن اسٹائن اور شاید کوئی ایک آدھ اور ایساہوگا، جن کےمتعلق یہ مفروضہ مشہور ہے کہ انہوں نے دیگر کے مقابلے میں دوچار فی صد زیادہ اپنے دماغ کی دُنیا کو کھنگالنے کی کوشش کی، مگر بات آٹھ دس فی صد سے زیادہ بڑھ نہیں پائی اور اگر یہ تھیوری سچ ہے، تو گویا ہم سب اپنے اندر بسی دنیائوں کا 95 فی صد سے زیادہ بِنا جانے، بِنا کھوجے اور بِنا دریافت یا تسخیر کیے ہی اس جہانِ فانی سے کُوچ کرجاتے ہیں۔ حالاں کہ سائنس یہ بھی کہتی ہے کہ قریباً سارا انسانی دماغ ہی روزمرّہ کےمعمولات میں متحرک رہتاہے، مگر صرف جاگنے میں اور ذہن کےاصل استعمال میں بہت فرق ہے۔ ہم اِس جہاں سے بس سرسری گزر جاتے ہیں۔ دھیان سےسوچو تو یہ کتنا بڑا خسارہ ہے۔ ہم قدرت کے دیئے گئے اتنے عظیم خزانے میں سے ڈھنگ کا ایک موتی بھی نہیں چُن پاتے اور واپس لوٹ جاتے ہیں اور رہی سہی کسر یہ مصنوعی ذہانت کا عفریت پوری کردےگا۔ انسان پھر سے ایک ابدی غلامی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اور اس بار یہ غلامی خود اِس کی اپنی بنائی ہوئی مشینوں کے زیرِاثر ہوگی، جو بہت جلد اس دنیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں گی۔‘‘ بختیار آباد کے اس ویران صحرا میں مدثر صاحب کی بات بہت دُور کی کوڑی دکھائی دے رہی تھی، لیکن میں اُن سے پوچھے بِنا نہیں رہ پایا۔ ’’فرض کریں اگر انسانی ذہن پر عام آدمی کی پوری رسائی ہو جائے اور وہ اپنے سو فی صد ذہن کو استعمال کرنے کے قابل بھی ہو جائے تو بدلے میں وہ کیا پاسکے گا… خاص طور پر وہ لوگ، جن کی دنیا ہی اتنی محدود ہے، جیسے اِسی صحرا کے یہ غلام باسی… جن کا جینا مرنا برابر ہے۔‘‘ مدثر صاحب پُرجوش آواز میں بولے۔ ’’مَیں کسی مادّی شئے کےحصول کی بات نہیں کررہا کہ وہ تو انسان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوجائے گا۔ 

زمین کے اندر جو خزانے دفن ہیں اور دریائوں اور سمندروں کی گہرائی میں کیا کیا چُھپا ہے، اس کا اندازہ تو وہ سطح پر کھڑے ہی لگا لے گا۔ مگر اس صُورت میں انسان کے لیے یہ سب خزانے اپنی اہمیت کھو چُکے ہوں گے۔ تب معاش کی فکر سے اَن جان ہوگا یہ انسان۔ حیثیت، رُتبے کی دوڑ ہی ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ تب اس کے سامنے کہکشائوں اور دیگر جہانوں کی سیر، کھوج ایک مشغلہ ہوگا۔ یاد رکھو، قدرت نے اس کائنات کی ہر حقیقت کا راز اس انسانی ذہن کی بھول بھلیّوں میں چُھپا رکھا ہے۔ ازل سے لے کر ابد تک جو کچھ بھی ہے، اِسی دماغ میں قید ہے، جن باتوں کو کبھی الف لیلوی داستان کہا جاتا تھا، وہ اِسی دماغ کے ذرا سے استعمال کی بدولت آج کے انسان کا معمول بن چُکی ہیں۔ 

مثلاً وہ جادوئی آئینہ، جو دوسرے جہانوں کی سیر کرواتا تھا، وہ اُڑن قالین، جوپل بھر میں دوسری دنیا میں پہنچا دیتا تھا۔ وہ طلسمی چادر، جسےاوڑھ کرعمرو عیار اپنے دشمن کی آنکھوں سے اوجھل ہوجایا کرتا تھا۔ وہ جن یا دیو، جو کسی کے سینے میں ہاتھ ڈال کر اُس کا دل نکال کر کسی دوسرے کے سینے میں ڈال دیا کرتا تھا۔ یہ سب اور اِس جیسی اور کئی اَن ہونیاں، جنہیں ہوش رُبا کہا جاتا تھا، آج کے انسان کے لیے بچّوں کا کھیل ہی تو ہیں اور اگر انسان کبھی اپنے ذہن کی پوری دنیا تسخیر کر پایا، تو اُسے اِن سارے لوازمات کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ بات کرنے کا سوچے گا، تو لاکھوں میل دُور بیٹھے انسان کے دماغ میں اُس کی آواز بِنا کسی آلے کے صرف سوچ کی لہروں کی مدد سے گونجنے لگے گی۔ زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر پلک جھپکتے ہی طے کرلے گا۔ اور وہ بھی بِنا کسی سواری کے، ذائقہ یا لذّت محسوس کرنے کے لیے اُسے زبان یا لمس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہر ذائقہ اور ہر انسانی لذّت صرف اُس کی سوچ کے تابع ہوگی۔ 

طب اور اس جیسے بے شمار شعبے ختم ہو جائیں گے، کیوں کہ ہر انسان خود ہی بہترین ڈاکٹر، انجینئر، فزیشن، ریاضی دان، کیمسٹ اور سائنس دان ہوگا۔ سارے علم اس کے اندر موجود ہوں گے، زندگی سیکڑوں یا شاید ہزار برس تک تجاوز کر جائے گی۔ دوسرے سیّارے انسان کی کالونیاں بن چُکی ہوں گی، جہاں چاند، مریخ یا زہرہ پر اُس کے رشتےدار رہتے ہوں گے۔ انسان تمام حیوانات اور جان داروں کی بولی بول اور سمجھ سکے گا اور شاید نباتات کی زبان بھی… بس، مَیں بیان نہیں کرسکتا کہ کیا سے کیا ہو جائے گا۔ اور یہ جو کچھ مَیں نے تمہیں ابھی بتایا ہے، یہ بھی صرف دس فی صد ہے یا شاید اِس سے بھی کم۔ مگر کیا ستم ہے کہ انسان اپنی اس معراج کو پہنچنے سے قبل ہی خود اپنی سہولت اور آرام کی غرض سے اپنی یہ ساری صلاحیتیں مصنوعی ذہانت کی شکل میں مختلف مشینوں کو منتقل کردے گا اور پھر وہی مشینیں اس عروج کو پہنچ کر ہمیشہ کے لیے انسانوں پر راج کیا کریں گی۔‘‘ مدثر صاحب بولتے رہے اور مَیں سُنتا رہا۔

صبح سےدوپہر اور شام سےرات ہوگئی، مگر ہماری باتیں ختم نہ ہوئیں۔ کبھی کبھی کچھ اجنبی ہمیں اجنبی نہیں لگتے۔ بس یوں لگتا ہے کہ ہماری ان سے ملاقات ذرا دیر سے ہوئی ہے۔ رات ہوئی، تو اُسی گھپ اندھیرے نے تہہ خانے میں ڈیرے ڈال لیے۔ مجھے مدثر صاحب کی بات یاد آئی کہ یہ اندھیرے بھی ہماری اپنی بصارت کی کم زوری کی وجہ ہی سے ہم پرحاوی ہیں، ورنہ یہ لیزر اور نائٹ ویژن ڈیوائسز بھی تو اِسی انسانی ذہن کی ایجادات ہیں۔ اور اِن دونوں میں استعمال ہونے والے لینز بھی تو انسانی آنکھ کے قرنیے کی ساخت اور نقل پر بنائے جاتے ہیں۔

اگلی صبح ہمارے جلّاد روشنی ہوتے ہی ہمارے سَروں پر موجود تھے۔ مجھے اور مدثر صاحب کو اُسی میدان میں پہنچادیا گیا، جہاں کل سکندر نے مجھے دھمکی دی تھی۔ سکندر اپنے خوں خوار شکاری کتّوں کے ساتھ وہیں موجود تھا۔ اُس نے ایک اچٹتی سی نگاہ ہم پر ڈالی اور اپنے محافظوں سے پوچھا ’’کچھ بتایا نہیں ابھی تک اِن دونوں نے…؟‘‘ محافظ ِ خاص نے نفی میں سر ہلایا ’’نہ سائیں…‘‘ سکندر نے کتّوں کی زنجیر ڈھیلی کردی۔ ’’کتّے چھوڑ دو ان دونوں پر…‘‘ کتّے ہمیں دیکھ کر غُرّائے اور ہم پر جست لگانے کے لیے تیار ہوگئے۔ مدثر صاحب نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین