• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • کبھی دل سے دل کا دھاگا پَل بھر میں جُڑ جاتا ہے، تو کبھی عُمر بھر نہیں
  • میرے پاس دو خبریں ہیں، ایک اچھّی، ایک بُری، پہلے کون سی سُنو گے…؟؟
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

کتّے زور زور سے غرّا رہے تھے۔ ہم پر لپکنے کے لیے بس تیار ہی تھے۔ ہماری شہ رگ اور اُن کے خوں خوار جبڑوں کے درمیان صرف ایک جست ہی کا فاصلہ تھا۔ مدثر صاحب دھیرے سے بڑبڑائے ’’کلمہ پڑھ لو عبداللہ… ہمارا اس دنیا کا سفر بس یہیں تک کا تھا۔‘‘ مَیں نے آخری مرتبہ سکندر کے چہرے کی طرف دیکھا، جہاں اُس کی آنکھوں میں مجھے قضا تیرتی نظر آرہی تھی۔ دفعتاً باہر کچھ ہلچل ہوئی اور کسی محافظ نے دُور سے اطلاع دی۔ ’’سائیں کے مہمان اِسی طرف آرہے ہیں…‘‘ سکندر نے بھی وہیں سے چلّا کر کہا ’’ہاں ہاں… آنے دو انہیں … مَیں نے ہی بلایا ہے۔ اچھا تماشا رہے گا اُن کے لیے بھی۔‘‘ اُسی لمحے ایک جیپ دُھول اُڑاتی احاطے کے اندر داخل ہوئی۔ ریت کے طوفان میں کچھ دیر کے لیے سب اوجھل ہوگیا۔ میری نظر سب سے اگلے شکاری بل ٹیریل کتّے کی خوں خوار سُرخ نظروں پر جَمی ہوئی تھیں۔ اِس سے پہلے بھی ایک ایسے ہی صحرا میں چند ایسے ہی کتّوں سے پالا پڑچُکا تھا، جن کا زہر مہینوں میری شریانوں میں خون کےساتھ مِل کر دوڑتا رہا۔ اور مَیں نے جنون اور دیوانگی کے جانے کتنے دریا سَر کیے تھے، لیکن اُس وقت میرے ہاتھ کُھلے اور میرے ساتھ میرا ایک ساتھی کالا بھی تھا، مگر آج مَیں تنِ تنہا یہاں کھڑا ایک ظالم کا اسیر تھا۔ جو ہمارے تڑپ تڑپ کر مرنے اور ہماری زبان سے بخشش اور معافی کی دہائیاں سُننے کے انتظار میں یہ تماشا لگائے بیٹھا ہنس رہا تھا۔ سکندر کی توجّہ ذرا دیر کے لیے اپنے آنے والے مہمانوں کی طرف منتقل ہوئی اور تبھی کوئی حیرت سے چلّایا ’’ارے مولانا … تم یہاں کھڑے ہو… اور ہم تمہارے انتظار میں وہاں تین دن سے بیٹھے ہیں، کہاں رہ گئے تھے عبداللہ …‘‘ سکندر کے ساتھ ساتھ مَیں نے اور مدثرصاحب نے بھی چونک کر آنے والے دو افراد کی طرف دیکھا۔ وہ ظہیر اور سارنگا تھے۔ ظہیر تیزی سے میری طرف لپکا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’عبداللہ… میر ے یار… کتنا یاد کیا ہے، مَیں نے تمہیں اِن چھے مہینوں میں۔ تمہیں بتا نہیں سکتا۔‘‘ سکندر ابھی تک حیرت کے سمندر میں غرق تھا۔ ’’تم اِسے جانتے ہو…؟‘‘ ’’ہاں… یہی تو ہے وہ میرا دوست عبداللہ … جس کا ذکر میں نے تم سے کیا تھا۔ ہماری ملاقات یہاں تمہارے علاقے میں طے تھی۔ مَیں نے سوچا تھا کہ بارڈر پار کرنے سے پہلے مَیں ایک بار اپنے دوستوں سے یہیں مل لوں گا…‘‘ پھر ظہیر کو جیسے اچانک خیال آیا ’’مگر تم یہاں سکندر کی حویلی میں کیا کررہے ہو اس وقت…؟‘‘ ’’مَیں یہاں بھی ایک قیدی ہوں میرے دوست، جسے ایک بار پھر سزائے موت سُنا دی گئی ہے۔‘‘ ظہیر کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ تڑپ کر سکندر کی طرف پلٹا ’’کیا…یہ میں کیا سُن رہا ہوں سکندر…‘‘ سکندر ابھی تک گومگو کی کیفیت میں تھا۔ ’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ظہیر بھائی… یہ بندہ تو یہاں کے مزار پر ایک جوگی کابھیس بدلے بیٹھا ہوا تھا اور مجھے شک ہے کہ پچھلی رات اِسی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میرے گودام جلائے ہیں…‘‘ ظہیر نے اپنا سر پیٹ لیا۔ ’’اوہ میرے خدا… اگر مجھے یہاں آنے میں چند لمحے کی دیر ہو جاتی، تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ یہ میرا دوست عبداللہ ہے اور اِس نے کوئی بھیس نہیں بدلا۔ یہ میرے ساتھ جیل توڑنے سے پہلے بھی ایسا ہی تھا اور جیل سے بھاگ نکلنے کے بعد ہم سب نے یہیں ملنے کا پروگرام بنایا تھا۔‘‘ سکندر پر جیسے حیرت کے نئے پہاڑ ٹُوٹ رہے تھے۔ ’’کیا… تو کیا یہ بھی اُن سزائے موت کے قیدیوں میں شامل تھا۔ بھئی واہ، تم تو چُھپے رستم نکلے یار… سکندر تو جی داروں کا یار ہے۔ مگر پھر تم یہ حلیہ بنائے کیوں پِھر رہے ہو اور فقیروں کےساتھ اُس درگاہ میں کیوں پڑے ہوئے ہو… مجھے ذرا سا اشارہ تو کرتے کہ تم ظہیر کے ساتھیوں میں سے ہو۔ مَیں اپنا خاص مہمان خانہ تمہارے لیے حاضر کردیتا… اور تم نے تو مجھے میرے جگری یار کے سامنے شرمندہ کروادیا۔ اب ساری عُمر بھی جرمانہ بھروں تو کم ہوگا۔ ظہیر کے بڑے احسان ہیں مجھ پر…‘‘ مدثر صاحب حیرت سے منہ کھولے یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ سارنگا بھی پریشان سا کھڑا تھا۔ سکندر نے فوراً اپنا مہمان خانہ کُھلوانے کا حکم صادر کیا ’’اچھا چلو، اب اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔ اب ظہیر کی طرح تم بھی میرے خاص مہمان ہو۔ جب تک جی چاہے اِسی حویلی میں رہو۔ تمہاری خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی عبداللہ…‘‘ مَیں نے قدم بڑھانے سے پہلے سکندر سے درخواست کی ’’تم نے مدثر صاحب کو بھی بلاوجہ شک میں قید کر رکھا ہے۔ میری درخواست ہے کہ اِنہیں بھی رہا کر دیا جائے۔ اِن کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے، لہٰذا ڈاکٹر اور ضروری دوائوں اور خوراک کا بھی جلد از جلد انتظام کیا جائے۔ ورنہ میں بھی ان کے ساتھ اِسی قید میں رہنا پسند کروں گا۔‘‘ میری بات سُن کر ظہیر نےزوردار قہقہہ لگایا۔ ’’دیکھا تم نے سکندر… ایسا ہی ہے یہ میرا یار… اب یہ اپنے ساتھی کو لیے بغیر یہاں سے نہیں جائے گا۔ بولو، کیا کہتے ہو اب؟‘‘ سکندر نے بھی مُسکرا کر ہتھیار ڈال دیئے۔ ’’چلو تمہاری خاطر یہ بھی سہی، ویسے مجھے حیرت ہے، چوبیس گھنٹے میں تم دونوں کے درمیان اتنا مضبوط رشتہ بھی جُڑ گیا کہ تم تمام عُمر کی قید برداشت کرنے کو تیار ہوگئے۔‘‘ ’’رشتوں کی مضبوطی یا کم زوری کا تعلق وقت کی کمی یا زیادتی سے نہیں ہوتا۔ یہ تو دل سے دل کا دھاگا جُڑنے کی بات ہے۔ کبھی پَل بھر میں جُڑ جاتا ہے اور کبھی تمام عُمر ساتھ رہنے کے بعد بھی ٹوٹا رہتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات ظہیر بہتر جانتا ہے کہ قید اور زندان خانے کے رشتے بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔‘‘

سکندر نے مزید کوئی بحث نہیں کی اور ہم کچھ ہی دیر بعد اُس کےپُرتعیش مہمان خانے میں قیمتی آرام دہ صوفوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وقت کب کون سی کروٹ لے لے، کوئی نہیں جانتا۔ مدثر صاحب کو مَیں نے آرام کرنے کے لیے مہمان خانے کی خواب گاہ کے دروازے پر چھوڑا، تو انہوں نے پَل بھر کے لیے میرا ہاتھ پکڑلیا ’’مَیں نے زندگی میں بہت کم رشتے کمائے ہیں، پہلے ماں باپ اور پھر بیوی بچّوں کی تمام ذمّے داریوں سےمبّرا اور لاتعلق ہوکر مَیں تمام عُمر اِن ویرانوں ہی میں سُکون ڈھونڈتا رہا، مگر آج سے پہلے کبھی یہ طے نہیں کر پایا کہ اس سودے میں مجھے گھاٹا زیادہ ہوا یا منافع… مگر آج اس سوال کاجواب بھی مل گیاہےمجھے۔ میرا ہر خسارہ پورا کردیا ہے تمہاری دوستی کے اس ایک رشتے نے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اڑتالیس گھنٹے قبل میں تمہیں جانتا بھی نہیں تھا، مگر اب ایسا لگتا ہے، جیسےاڑتالیس صدیوں کاساتھ ہےمیرا اور تمہارا…‘‘ وہ جذباتی ہونے لگے۔ مَیں نے مُسکرا کر اِنہیں تسلّی دی ’’آپ تو ہم سب سےکہیں زیادہ ذہن کی سلطنت کے بارے میں جانتے ہیں۔ دل اور دماغ کے اپنے کلیے اور اپنے ہی قانون ہوتے ہیں صاحب، خاص طور پر گزرتے وقت اور نئے بنتے جُڑتے رشتوں کے بارے میں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہم نے اڑتالیس صدیاں ہی ساتھ گزاری ہیں، جو اڑتالیس گھنٹوں میں ہم پر بیت گئیں۔ ہر آنے والا لمحہ اپنے لیے گزرتے وقت کا پیمانہ خود طے کرتا ہے۔ ایک گھڑی ہمارے دل کے اندر بھی تو نصب ہوتی ہے، جو ہمار ے جذبوں کی مدّت کا تعین کرتی ہے۔ آپ اطمینان سے سوجائیں۔ شام کو ملاقات ہوگی…‘‘ مَیں مدثر صاحب کا ہاتھ تھپتھپا کر آگے بڑھ گیا۔

مہمان خانے کے ڈرائنگ روم میں ظہیر، سارنگا اور سکندر جانے کس بات پر قہقہے لگارہے تھے۔ سارنگا کی نظر مجھ پر پڑی ’’لو بھئی ظہیر! آگیا تمہارا جگری، عبداللہ…‘‘ سکندر نے بھی غور سے میری طرف دیکھا۔ ’’ایک بات کی داد تو دینی پڑے گی تمہارے دوست کو ظہیر بھائی۔ مَیں نے اِس کی آنکھوں میں خوف نہیں دیکھا۔ ہمیشہ اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی مجھ سے، ورنہ یہیں اِس صحن میں مَیں نے موت کے خوف سے لوگوں کو لرزتے کانپتے دیکھا ہے۔‘‘ ظہیر نے میری آنکھوں میں جھانکتی بےچینی پڑھ لی اور سکندر اور سارنگا سے معذرت کر کے مجھے لے کر باہر صحن میں آگیا۔ مَیں نے چُھوٹتے ہی کہا ’’بخت خان اب ہم میں نہیں رہا یار… تمہیں بگھے کی گرفتاری کی خبر بھی مل چُکی ہوگی۔ لیکن مجھے کندن کا کچھ پتا نہیں چلا۔ کیا اُس نے تم سے رابطہ کیا۔ وہ آیا کیوں نہیں، کہاں ہے وہ…‘‘ ظہیر بخت خان کے بارے میں سُن کر وہیں صدمے سے ڈھے سا گیا۔ مَیں نے مختصر لفظوں میں اُسے مہرو کی کہانی اور بخت خان کی موت کے بارے میں بتادیا۔ ظہیر بہت دیر خاموش رہا، پھر مَیں نے ہی خاموشی توڑی ’’اب جیل سے باہر صرف ہم تین باقی ہیں۔ مَیں تم اور کُندن… سنتوش اور بخت خان کا سفر ختم ہوچُکا اور بگھا دوبارہ گرفتار ہوکر کال کوٹھری پہنچ چُکا۔ جانے اب اس کہانی کا انجام کیا ہوگا… ہم تینوں کی ملاقات کبھی ہو پائے گی یا نہیں…؟‘‘ ظہیر نے ایک گہری سانس لی، ’’تین نہیں، دو… اب یہ ملاقات صرف دو افراد کے درمیان طے تھی۔‘‘ مَیں نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا ’’کیا مطلب…؟‘‘ ظہیر کی آواز مجھے کسی کنویں سے آتی محسوس ہوئی ’’میرے پاس تمہارےلیےدو خبریں ہیں۔ ایک اچھی اور ایک بُری۔ بولو، پہلے کون سی خبر سُننا پسند کروگے…؟‘‘ ’’یہ فیصلہ مَیں تم پر چھوڑتا ہوں۔ بُری پہلے سنائو گے، تو اچھی خبر کا اثر پہلے ہی زائل ہوجائے گا اور اچھی پہلے سنائو گے، تو بُری خبر اگلے لمحے ہی سب بُھلادے گی۔ غم، ہمیشہ خوشی پر حاوی رہتا ہے۔‘‘ ظہیر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد لب کھولے تو جیسے ماضی کی ایک فلم میری نظروں کے سامنے چلنے لگی۔

اندرون شہر کی تنگ گلیاں، جُڑی ہوئی چھتیں اور پُرپیچ گلی دَرگلی راستے، بھاگتے شور مچاتے بچّے، آسمان پر ڈولتی پتنگیں اور اُن میں سے کسی کٹی پتنگ کا بھگوان پُورے کی چھتوں پر پھڑپھڑاتے ہوئے کسی کُھلے آنگن کے اونچے درخت کی خشک ٹہنیوں میں اٹکنا، الجھی ڈور کا فضا میں لہرانا اور کسی بچّے کے کُنڈے میں پھنس جانا، کڑاہی میں اُبلتا دودھ اور بَل کھاتی گرم جلیبیاں، مونگ پھلی اور جلتی ریت کی خوشبو اور تندور سے گرم کُلچے لے جاتا وہ بچّہ … بگھے سنگھ کا سارا بچپن اس بستی کی انہی گلیوں میں یہ نیلی، پیلی، سُرخ اور آسمانی پتنگیں لُوٹنے میں گزرا تھا۔ پتنگ بازی ہی اس کا واحد جنون تھا، اور کیوں نہ ہوتا۔ بچپن سے وہ باپ کے ساتھ اُس کی چھوٹی سی پتنگوں کی دکان ہی پر تو بیٹھتا آیا تھا۔ گُڈّی، مانجھا، پِنا اور رِیل … یہی اُس کے بچپن کے کھلونے تھے۔ اسکول میں کبھی اس کا دل نہیں لگا۔ چُھٹّی کی گھنٹی بجتے ہی وہ تیر کی طرح اپنے باپ کی دکان کی طرف لپکتا۔ بسنت کے دنوں میں تو جیسے اُس کی عید ہوجاتی۔ دن بھر چھتیں ٹاپتے، پیچے لڑاتے اور گُڈیاں لوٹتے رات ہوجاتی۔ بگھے کے ہاتھ مانجھے کی وجہ سے ہمیشہ کٹے پَھٹے رہتے اور ماں اُسے مرہم لگاتے لگاتے رو پڑتی۔ باپ کی موت کے بعد بگھے نے دکان سنبھال لی اور پھر اُس کا اوڑھنا بچھونا ہی پتنگ بازی ہو کر رہ گئی۔ علاقے میں اُس جیسا گُڈی باز کوئی نہیں تھا اور بگھے کے مانجھے اور فضا میں میلوں دُور لگے لمبے پیچوں کی چاروں طرف دھوم مَچی رہتی تھی۔ ماں اُسے گھر بسانے کےمشورے دے دے کر تھک چُکی تھی، مگر بگھے نے تو جیسے اپنی رنگ برنگی پتنگوں سے اپنا لگن پڑھوا لیا تھا۔ کئی بار گُردوارے کے سنت نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنے لیے نہیں، تو ماں کی خدمت ہی کے لیےکسی بسنت کور یا کسی گرپریت کو بیاہ کر گھر بسالے۔ مگر بگھا ہر بار ہنس کر ٹال دیتا کہ ماں کی خدمت کے لیے وہ خود ہی کافی ہے اور پھر اُس کی ماں کی ضروریات تھیں ہی کتنی۔ دو وقت کی روٹی اور صبح شام اپنے پسندیدہ گُڑ کی چائے۔ وہ گُڑ جو بگھا ہرمہینے بوری دو بوری بخشو پرچون والے کی دکان سے خصوصی طور پر اٹھوا لاتا تھا۔ سرحد پار گائوں کا بنا ہوا خالص دیسی گُڑ، جو اس کی ماں کو اتنا پسند تھا کہ اُس کے بغیر گھر میں چائے ہی نہیں بنتی تھی۔ بگھے کو بس مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی فکر کھائے جاتی کہ کہیں نئی بوری گودام میں ڈلوانے سے پہلے یہ گُڑ ختم نہ ہو جائے۔

تبھی اُن دنوں علاقے میں ایک نئے پتنگ باز کے نام کاچرچاہونےلگا، جو کسی دوسرےعلاقے سے اندرون شہر کی اِس بستی میں آبسا تھا، جسے لوگ گُڈی پہلوان کے نام سے جاننے لگے تھے۔ اُسے پتنگ اور مانجھے کی بڑی پہچان تھی اور اس کا سُوتا ہوا مانجھا بھی بڑا سُچّا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ آس پاس گلیوں میں گُڈی پہلوان کےگھنٹوں طویل پیچوں اور طنابوں پر اس کی گرفت کے قصّے اتنے مشہور ہوئے کہ بگھے تک بھی اُس نئے پتنگ باز کی شہرت پہنچ گئی، مگر ایک کچھار میں دو شیر اور ایک میان میں دو تلواریں بھلا کب سماتی ہیں۔ بگھے نے گُڈی پہلوان کو پیچا لڑانے کا چیلنج دے دیا۔ ہر گلی محلّے میں تانگے پر بیٹھے ڈھول والے نے چیخ چیخ کر منادی کروا دی کہ آنے والی جمعرات بستی کے دو بڑے پتنگ بازوں میں سے کوئی ایک ہی پتنگ بازی کا سلطان بن کر اپنی چھت سے اُترے گا۔ مقابلے کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور دن رات دونوں طرف کے کارکن مانجھا سُوتنے، شیشہ کُوٹنے، رنگ ابالنے اور پِنے اور پِھرکیاں لپیٹنے میں مصروف دکھائی دینے لگے۔ دونوں طرف سے ڈھولچی سرِشام ہی ڈھول پِیٹ پِیٹ کر اپنے اپنے کھلاڑیوں کا جی بڑھانے پہنچ جاتے اور پورا ہفتہ ہی محلّے میں حلوہ پوری، حلیم اور زردے کی دیگیں چڑھی رہیں۔ بگھے اور گُڈی پہلوان نے جی کھول کر خرچہ کیا۔

آخر کار مقابلے کا دن آپہنچا۔ اُس روز آسمان پر اور کسی گُڈی باز کی گُڈی کو ہوا میں غوطے مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ ظہر کے بعد بگھے اور گُڈی پہلوان کی پہلی پتنگ نے اُڑان بھری، تو ڈھول، سیٹیوں اورتالیوں کی آواز نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ مقابلہ تین پیچوں کا تھا۔ پہلا پیچا دو گھنٹے بعد بگھے نےسات پنّےاور پِھرکیاں ختم ہونے کے بعد جیت لیا۔ عصر سے پہلے دوسرا پیچا گڈی پہلوان کی پتنگ نے ایک اُلٹا غوطہ کھا کر اور بگھے کی کَنیاں کاٹ کر اپنے نام کر لیا۔ دونوں طرف سے داد و تحسین اور نعروں کاایساشور اُٹھا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی۔ اب تیسرا اور آخری پیچا شروع ہوچُکا تھا، مگر پیچا تھا کہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا۔ دونوں کے دیوہیکل بڑے گڈے آسمان میں اب صرف چھوٹے نقطوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ ڈور کے پِنّے ختم ہونے کو آئے، پِھرکیاں خالی ہوگئیں، مگر پیچا تھا کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لےرہاتھا۔ مغرب کا اندھیرا چھانے لگا۔ بڑے بوڑھوں نے دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مقابلہ اگلے روز پر ٹال دیا جائے، مگر اب بات آر یا پار تک پہنچ چُکی تھی۔ جلتی پر تیل چِھڑکنے والے بھی تیزی سے اِدھر کی خبر اُدھر اور اُدھر کی بات اِدھر پہنچا رہے تھے۔ ’’گڈی پہلوان نے کہا ہے کہ بگھا ابھی بچّہ ہے اُس کے سامنے۔‘‘ ’’بگھے نے پیغام بھیجا ہے کہ گڈی پہلوان سے کہو چُوڑیاں پہن لے، گڈی بازی اس کے بس کا روگ نہیں۔‘‘ ’’گڈی کہہ رہا ہے کہ آج بگھے کی عزت کی ڈور بھی پتنگ کے ساتھ کاٹ دوں گا۔‘‘ ’’بگھا سنگھ تو کہہ رہا ہے کہ آج پہلوان کی رُسوائی کی رات ہے۔‘‘ مانجھے کی دھار سے زیادہ تیز اور نوکیلے پیغامات کا سلسلہ بڑھتا گیا اور دونوں کی پتنگیں آسمان میں کہیں کھوگئیں، پھر جانے تیز ہوا نے ڈور کاٹی یا ایک کی کنّی دوسری میں ایسی اُلجھی کہ دونوں پتنگ بازوں کے ہاتھ میں خالی ڈور لہرا گئی۔

چاروں طرف شور مچ گیا اور دونوں ہی گروپ فتح کے نعرے لگانے لگے۔ ہار تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہ ہوا اور رات تک بات اتنی بڑھ گئی کہ محلّے میں باقاعدہ فساد شروع ہوگیا۔ ایک دوسرے کے کارکنوں کو گھیر کر مارا پِیٹا جانے لگا۔ بگھا غصّے میں اپنا پستول لےکرگھر سےنکلا اور دوسری طرف گڈی پہلوان کےچمچوں نے اُس کے کان بھرنا شروع کردیئے۔ اچانک ایک اندھیری گلی میں دونوں کا آمنا سامنا ہوااوربگھے نےگڈی کو دیکھتے ہی سیدھا دل میں فائر اتار دیا۔ گڈی وہیں گر کر سرد ہو گیا۔ بگھے کو پولیس پکڑ کرلےگئی اور ماں دہائیاں دیتی رہ گئی۔ پھانسی کی سزا سُننے کے بعد بگھے کو بس ایک ہی فکر کھائے جارہی تھی کہ اُس کی ماں کا پیچھے کون خیال رکھے گا۔ باقی معاملات تو شاید بگھے کےجگری دوست اور محلّے دار مل جُل کر سنبھال ہی لیں، پر اُس کی لاڈلی ماں کے لیے اُس کا پسندیدہ گُڑ کون ہفتوں کی محنت کے بعد چُن کر لایا کرے گا۔ بگھے کا بس چلتا تو وہ اُڑ کر ماں کے پاس پہنچ جاتا اور اُس کی چائے کے لیے تمام عُمر کا گُڑ ایک ہی بار ذخیرہ کروا دیتا۔ تبھی جیل میں بگھے کی ملاقات ظہیر سے ہوئی اور فرار کا منصوبہ کام یاب ہوگیا۔ بگھا پہلے دو تین ہفتے کسی دوسرے علاقے میں دوست کے گھر چُھپا رہا، مگر پھر دل کے ہاتھوں تنگ ہو کر اُس نے ظہیر کی ہدایات کو نظرانداز کردیا اور اپنے گھر کی گلی میں پہنچ گیا۔ لیکن پولیس وہاں پہلےسےگھات لگائے بیٹھی تھی اور بگھا ماں کے پاس پہنچنے سے پہلے پولیس کی گرفت میں آگیا۔ جسے پھر سے سینٹرل جیل پہنچادیا گیا، جہاں اس کی پھانسی کی تاریخ بھی آپہنچی۔ بگھا ساری رات روتا رہا۔ علی الصباح اُسے پھانسی گھاٹ لے جانے کا حُکم سُنایا گیا۔ اُس کی ماں بھی پچھلی کئی راتوں سے تڑپ رہی تھی اور گزشتہ تین دن سے تو وہ باہر جیل کی دیوار سے لگی گریہ زاری کرتی رہی، مگر اس کی یہاں کون سُنتا۔ گڈی بادشاہ کے آگے پیچھے کوئی تھا نہیں، جس کے پیروں پر گرکر وہ اپنے بیٹے کے لیے معافی مانگ لاتی۔ پھانسی گھاٹ پر بگھے سے اُس کی آخری خواہش پوچھی گئی، تو اُس نے سرکار سے درخواست کی کہ اُس کی لاش اُس کی بوڑھی ماں کے سامنے نہ لائی جائے، ورنہ وہ بھی وہیں دَم توڑ دے گی۔ بگھے کے سر پر کالا کپڑا ڈال کر گلے میں پھندا ڈال دیا گیا۔ جلاّد نے تختہ کھینچنے کے لیے لیور پر ہاتھ رکھا اور اجازت طلب نظروں سے مجسٹریٹ کی طرف دیکھا۔ مجسٹریٹ نے گھڑی کی سوئیوں پر نظر ڈالی اور سر ہلادیا۔ بگھے کی زبان سے سرگوشی بلند ہوئی’’واہ گرو داخالصہ… واہ ِ گرو دی فتح…‘‘ (جاری ہے)

تازہ ترین