پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12مارچ کو گردوں کے امراض کی آگہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں کراچی میں بھی سیمینارز، لیکچرز ، ورکشاپس، واکس اور دیگر پروگرام منعقد کیے جائیں گے، عوام کو اس مرض سےبچاؤ کی آگہی دی جائے گی جبکہ کیمپس بھی لگائے جائیں گے اور اس مرض کی تشخیصی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
جناح اسپتال کراچی کے شعبہ امراض گردہ کے تحت مریضوں کی اسکریننگ کی جائے گی اور خون کےٹیسٹ کیے جائیں گے جس کے بعد آگہی سیمینار منعقد ہوگا جبکہ سیمینار کے اختتام پر شعبہ سے نجم الدین آڈیٹوریم تک آگہی واک منعقد کی جائے گی۔
دوسری جانب سندھ انسٹیٹیو ٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں عالمی دن کی مناسبت سے عوام کو آگہی دی جائے گی، مفت ٹیسٹ کے ساتھ مریضوں کو مفید مشورے بھی دیئے جائیں گے ۔
عالمی دن کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے جناح اسپتال کے شعبہ امراض گردہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمنان جونیجو نے جنگ کو بتایا کہ گردے انسانی جسم کا ایک اہم عضو ہیں جن کا کام انسانی جسم میں پیشاب کے ذریعے زہریلے اور فاسد مادوں کا اخراج، بلڈپریشر، نمکیات، معدنیات اور کیمیائی توازن برقرار رکھنا، اس کے علاوہ ہارمونز جیسا کہ Erythropoietin/ Vitamin D کی مقدار کو کنٹرول کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گردے کی اہمیت کو مدنظررکھتے ہوئے دنیا بھر میں ہر سال مارچ کے مہینے میں انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فاؤنڈیشن کے باہمی اشتراک سے گردے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ ایک عالمی آگاہی مہم ہے جس کا مقصد ہر طبقہ فکر تک گردے کے متعلق شعور فراہم کرنا ہے۔ جس کے لیے مختلف تھیمز کا انتخاب کیا جاتا ہے اس سال کی تھیم’’ کڈنی ہیلتھ فار ایوری ون، ایوری ویئر،فرام پری وینشن ٹو ڈیٹیکشن اینڈ ایکویٹ ایبل ایکسس ٹو کیئر‘‘ ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تمام افراد کو صحت کی مساوی سہولیات تک رسائی ہو۔
انہوں نے کہا کہ گردے کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد دنیا بھر میں 850ملین تک پہنچ گئی ہے اور اس شرح میں بتدریج اضافہ ہوتاجارہا ہے گردے کے امراض کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ گردے کی بیماری کی 2 اقسام ہیں۔ گردے کا اچانک فیل ہوجانا اور گردے کے دائمی امراض، دنوں اور ہفتوں میں گردوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں سنجیدہ زخم کہلاتی ہیں۔ گردے کا مرض اگر 3 مہینے سے زیادہ تجاوز کرجائے تو دائمی مرض کہلاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گردے کے امراض کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ ذیابیطس(42فیصد)، بلندفشارخون(28فیصد)، گردے کی جھلی کی سوزش اور کمزوری(7فیصد)، گردے میں پتھری (6فیصد)، غیرضروری ادویات کا بے دریغ استعمال اور دوران حمل ہونے والی پیچیدگیاں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کی علامات میں تھکاوٹ، بوجھل پن، کمزوری، بھوک کا نہ لگنا، الٹی یا متلی، سانس میں دشواری، پیشاب کا کم یا زیادہ آنا، جلن، خون یا جھاگ کا آنا، جسم پر سوجن ظاہر ہونا شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گردے کے امراض کو تشخیص کرنے کے لیے مختلف ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں جس میں سب سے اہم سی بی سی، پیشاب کا ٹیسٹ، پروٹین کی جانچ، خون میں یوریا کریٹنین کی مقدار اور گردے کا الٹراساؤنڈ شامل ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ بعض صورت حال میں گردے کی بیماری کا علا ج ادویات اور پرہیز سے ہوجاتا ہے، اگر خیال نہ کیا جائے یا پھر گردے کا شدید مرض لاحق ہوجائے تو ڈائلیسز کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دائمی مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں گردے کی پیوندکاری کا آپشن بھی موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گردے کے ا مراض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کیا جائے۔ تمباکونوشی سے پرہیز کیا جائے، بازار کی تلی ہوئی چکنائی والی اشیاء سے پرہیز کیا جائے، ورزش کو معمول بنایا جائے، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض اپنی ادویات باقاعدگی سے استعمال کریں اور معمول کے مطابق اپنا طبی معائنہ کرواتے رہیں جبکہ غیرضروری ادویات بالخصوص درد کی دواؤں کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔
انہوں نے عوام کو ہدایت کی کہ اگر مندرجہ بالا ہدایات پر عمل کیا جائے تو گردے کے امراض سے بچاؤ ممکن ہے اور ایک بہتر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔