• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
آج کے تناظر میں یہ کالم لکھا جا رہا ہے کہ جب جدید پاکستانی صحافت کے معمار، رائے عامہ کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کے علمبردار، ادارہ جنگ کے چیئرمین میر جاوید الرحمٰن رحلت کرچکے ہیں۔ ادارے کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو نیب کی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ ملکی صحافت ایک نئے گرداب میں پھنستی ہوئی ہے تو ہم اس موقع پرسب سے پہلے تو میر جاوید رحمٰن کی رحلت پر میر فیملی اور ادارہ جنگ کے ساتھ دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہیں اور یہ کہنا چاہیں گے کہ صرف جنگ گروپ ہی نہیں پاکستانی صحافت آج ایک ایسی بلند پایہ شخصیت سے محروم ہو گئی ہے جنہوں نے جنگ اخبار کو ایک مشن سمجھا اور نامساعد حالات میں بھی روزنامہ جنگ کی اشاعت کا کٹھن کام جاری رکھا۔ چونکہ ادارہ جنگ اور اس سے کئی متعلقین کافی عرصہ سے تسلسل سے بعض حلقوں کی جانب سے نشانہ بنتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، اس لیے زیر نظر کالم میں آج اس بات کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی کہ ادارہ جنگ کیا دیگر کاروباری اداروں کی مانند فقط ایک کاروبار ہے یا یہ کسی مشنری جذبے کے تحت کام کر رہا ہے ؟۔ ملکی سیاست اور صحافت سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اس جائزہ سے یقینی طور پر ادارہ جنگ اور اس کے ساتھ وابستہ افراد کو ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں پیش آنے والے حالات اور واقعات کو اس پس منظر سے سمجھنے شاید مدد مل سکے اور جنگ گروپ کو درپیش موجودہ حالات کے تناظر میں یہ مطالعہ اہم ہو جاتا ہے کہ جنگ گروپ صحافت کے کون سے مراحل سے کس طرح گزرا، میر کارواں اور میر صحافت کی موجودہ حراست اور درپیش صورت حال کے پس پردہ مقاصد کو بھی کسی حد تک شائید سمجھنے میں مدد مل سکے۔ مزید برآں غیر جانبداری سے جنگ سے ہٹ کر بھی چند دیگر صحافتی مشاہیر کے کارہائے نمایاں بھی اس تجزیے سے واضح ہوں گے۔ یہ مطالعہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ جنگ کی جنگ، جدوجہد اور پر آشوب کٹھن سفر کوئی دو چار سال کا قصہ یا کسی کہانی نویس کی گھری سٹوری نہیں بلکہ اس کا صحافتی سفر تحریک پاکستان کے سنگ جاری رہا، قیام پاکستان کے بعد اس کا کردار مزید بڑھ گیا اور یہ سفر ابھی بھی جاری ہے۔ پاکستانی صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ڈاکٹر مسکین علی حجازی ایک معتبر حوالہ ہیں۔ ان کی ایک تصنیف“ پاکستان و ہند میں مسلم صحافت کی مختصر ترین تاریخ” صفحہ 54 “تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے اخبارات و جرائد‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔۔۔ کہ اگرچہ ہرایک دور میں بہت سے اخبارات و جرائد موجود ہوتے ہیں لیکن ان میں ایسے اخبارات اور جرائد کم ہوتے ہیں جو اپنے عہد پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں اور درپیش مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں جن اخبارات کا کردار موثر اور نتیجہ خیز رہا ان کے نام تاریخ صحافت میں ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مسکین علی حجازی نے خواجہ ظفر نظامی کے حوالے سے تحریک پاکستان میں کسی بھی طور حصہ لینے والے اخبارات کی تعداد ایک سو 31لکھی ہے اس فہرست میں جنگ اور اس کے بانی میر خلیل الرحمٰن شامل ہیں، آگے صفحات 60 اور 61 پر 9 مئی 1947 کو دہلی کے اینگلو عربیک کالج کے ہال میں آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایڈیٹرز کنونشن منعقد ہوا تو اس میں صرف 54 مسلم مدیران اخبارات و جرائد نے شرکت کی۔ اس لسٹ میں نمبر چھ پر میر خلیل الرحمٰن (جنگ ڈیلی دہلی) درج ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے چند دیگر ناموں میں الطاف حسین (ڈان دہلی)، حمید نظامی (نوائے وقت دہلی)، فیض احمد فیض (پاکستان ٹائمز ڈیلی لاہور )، وقار انبالوی (شہباز لاہور) اور مولانا اختر علی خان (زمیندار لاہور ) شامل ہیں۔ یہاں آج کی نوجوان پاکستانی نسل کو علم میں بھی یہ لایا جانا ضروری ہے کہ تحریک پاکستان میں مسلم صحافت نے کیا کردار نبھایا۔ ڈاکٹر مسکین علی حجازی کی تحقیق کی رو سے ’’غیر مسلموں کے اخبارات و جرائد تعداد میں بھی زیادہ تھے اور زیادہ وسائل سے بھی بہرہ ور تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے الگ وطن کا تصور پیش ہوا تو غیر مسلموں کے اخبارات و جرائد نے متعصبانہ رویہ اختیار کیا۔ الگ وطن کا زیادہ مطالبہ ہونے لگا تو ان اخبارات و جرائد کی مخالفت میں جارحیت آگئی‘‘ ان کی تحقیق کے مطابق ہندوؤں کے روزانہ اردو اخبارات ملاپ، نیو ملاپ، پر بھارت، ویر بھارت، جے ہند، بندے ماترم اور ہندوستان نے انڈین نیشنل کانگریس کی ترجمانی کی اور قیام پاکستان کے مطالبہ کی مخالفت بیک آواز کی۔ پرتاپ، ملاپ اور ویر بھارت کے متعلق یہ بھی بتایا ہے کہ یہ کثیر الاشاعت روزنامے تھے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ رنجیت اور اجیت جو سکھوں کے روزنامے تھے یہ بھی ’’مطالبہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے‘‘ اس تناظر میں مسلم اخبارات پر جو ذمہ داری عائد ہوئی اس کا اندازہ لگانا آج کے دور میں آسان نہیں۔ پھر ایک اور پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے کہ مخالف پریس نے ساتھ ہی اردو زبان کی بھی شدت سے مخالفت کی۔ تو آج جنگ اور نوائے وقت جیسے اخبارات جن کا سفر قیام پاکستان سے قبل شروع ہوا صرف یہی نہیں کہ تحریک پاکستان میں ان کا کردار موثر طور پر جاری رہا بلکہ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں بھی بے مثال کردار ادا کیا۔ اور میر خلیل الرحمٰن اور دیگر صحافتی اکابرین نے پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے آگاہی دینے کیلئے اپنے اپنے اخبارات کے ذریعے عظیم مساعی کی۔ چونکہ اس مختصر ریسرچ میں جنگ اور صحافت زیر غور ہے تو یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ جنگ کے مالکان اور صحافیوں نے ریاست کے چوتھے ستون کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی اور جس سے صحافت کے وقار میں اضافہ ہوا۔ ’’صحافت‘‘، بی اے، ایم اے اور مقابلہ کے امتحانات کیلئے موسیٰ خان جلال زئی کی ترتیب و تدوین ایک عمدہ تصنیف ہے جس میں ڈاکٹر مسکین علی حجازی اور پروفیسر احمد سعید جیسی شخصیات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ پاکستانی صحافت کا تعارف کے نام سے باب میں صفحہ 155پر روزنامہ جنگ کے متعلق لکھا ہے ’’میر خلیل الر حمٰن نے صحافتی زندگی کا آغاز دہلی میں روزنامہ جنگ سے کیا مرحوم نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان کے استحکام و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں روزنامہ جنگ پاکستان کے تمام اخبارات سے زیادہ مقبول ہے۔ پاکستان بننے کے بعد میر صاحب کراچی منتقل ہوگئے اور یہاں سے اخبار کی اشاعت جاری رکھی، میر خلیل الر حمٰن 1992کے اوائل میں فوت ہوئے“۔ محولہ بالا تبصرہ ادارہ جنگ سے متعلق کسی اخبار یا میگزین سے نہیں اس لیے اس کی اصابت پر شک و شائبہ کی گنجائش کم ہی رہتی ہے۔ صفحہ 290پر مشن یا کاروبار کے تحت لکھتے ہیں کہ اس دور کے صحافی مختلف صورت حال سے دوچار ہیں اب وہ زمانہ نہیں رہاجب مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد مشنری جذبے کے تحت قومی مقاصد کی تکمیل کیلئے اخبار نکالا کرتے تھے اور ہر طرح کی مشکلات و مصائب خاطر میں لائے بغیر ان مقاصد کی تکمیل میں مصروف رہتے تھے۔ صحافت کے میدان میں رفتہ رفتہ وہ دور آ چکا ہے کہ بہت کم لوگوں کے سامنے کوئی بلند مشن ہے یا کسی مشن کی خاطر ایثار و قربانی کا کوئی جذبہ ہے۔ لیکن میرا ذاتی قلمی تعلق جو کم و بیش تین دہائیوں پر محیط ہے جبکہ جنگ سمیت مختلف اخبارات و جرائد کے مطالعہ کی عادت بچپن سے چلی آرہی ہے جس بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلاشبہ ملک کے اندر اور برطانیہ میں بھی پاکستان سے متعلق کئی شخصیات اور متعدد ابلاغی اداروں نے صحافت کی عمومی ترقی کیلئے گراں قدر کام کیااور عوامی حقوق کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں وہاں میر خلیل الرحمٰن مرحوم نے پاکستان کے اندر اور بیرونی دنیا میں جنگ گروپ کو عصر حاضر کے ذرائع ابلاغ کا ہم پلہ بنانے کے لیے جو کاوشیں ادا کی ہیں اور ملک کے علاوہ دنیا بھر کی لمحہ بہ لمحہ سیاسی اور اقتصادی صورت سے باخبر رکھنے کیلئے خبروں اورجائزوں کےابلاغ کا ایک ایسا موثر ذریعہ قائم کیا جس نےصحافتی طور پر متوازن پالیسی اپنائے رکھی۔ اس گروپ کے اخبارات کا مقصد و مطمع نظر اعلیٰ صحافتی اصولوں پر کاربند رہ کر ملک اور قوم کو درپیش حالات و واقعات سے باخبر رکھنا ہی نہیں بلکہ ملکی تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس گروپ کے کئی اداریہ نویس اور کالم نگار مولانا محمد علی کے نظریہ صحافت کی منہ بولتی تصویر بھی دکھائی دیتے ہیں جس کی ایک مثال ارشاد احمد حقانی مرحوم تھے کہ جنہوں نے رائے عامہ کی ترجمانی ہی نہیں راہ نمائی کا فریضہ بھی انجام دیا۔ پھر جنگ لندن کا خارجی محاذپر مسئلہ کشمیر کو اٹھانے کیلئے جاندار کردار رہا ہے، ایک اور پہلو بھی ملک کے اندر سیاست میں نئے داخل ہونے والے ارباب اختیار کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ جنگ لندن نے برطانیہ اور یورپی ممالک کے پاکستانی کشمیری تارکین وطن کو مختلف معاشروں میں درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور مختلف قومیتوں کے درمیان تعلقات کار قائم رکھنے میں بھی مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اور تارکین وطن کمیونٹیز کو مقامی، قومی اور ای یو سیاست میں بھرپور حصہ لینے ، مختلف پالیسی ساز اداروں میں ان کی نمائندگی بڑھانے میں بھی اپنا حصہ ڈالا، مغربی معاشروں میں مذہبی سماجی ضروریات کا ادراک کرانے کیلئے بھی جنگ قلمکاروں کی قربانیوں اور مساعی کو آنے والا کوئی مورخ یقینی طور پر نظرا نداز نہیں کر سکے گا۔اردو صحافت تاریخ و فن ڈگری کلاسز ، مصنف خالد محمود عالی، مرتب عزیز احمد “پاکستان میں صحافت کا ارتقاء ؛ میں لکھا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل برصغیر پاک و ہند میں مطبوعہ صحافت کی کئی اقسام منظر عام پر آئیں، ان میں روزنامے، سہ روزہ، ہفت روزہ، پندرہ روزہ، علمی و ادبی ماہنامہ و سہ ماہی مجلے اور سرکاری اداروں و تعلیمی اداروں کے مجلے شامل ہیں. قیام پاکستان کا وجود بھی انہی کے دم سے ہوا۔ انہوں نے مل کر عوام کو سیاسی شعور بخشا اور ان کو بیدار کیا. یہی عمل آج بھی یعنی قیام پاکستان کے بعد سے جاری ہے۔ روزنامہ جنگ نے صحافتی زندگی کا آغاز دہلی سے 1940 میں کیا۔ ابتداءً میں شام کو اخبار نکلتا تھا۔ تین سال بعد شام کی بجائے صبح کو شائع ہونے لگا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اگست 1947 کو کراچی میں منتقل ہوگیا۔ کراچی میں دہلی کی نسبت اشاعت زیادہ ہوگئی بلکہ اشاعت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا اخبار بن گیا۔ اس کے بعد یکم اکتوبر 1981سے لاہور، پھر راولپنڈی اور کوئٹہ اور 1971 کو لندن سے جنگ انٹرنیشنل کے نام سے اخبار شائع ہوا۔اردو صحافت تاریخ و فن میں جنگ کے حوالے یہ بھی واضح کیا گیا کہ “اس کا ایڈیشن میک اپ اور لے آوٹ کے لحاظ سے تمام اخبارات سے منفرد اور اچھا ہے۔ روزنامہ جنگ نے ابتداء ہی سے صحافت کا معیار بلند رکھا۔ اسی لیے چھپائی اور تصاویر ہمیشہ جاذب نظر ہوتی ہیں۔جو مزید معلومات ادارہ کے متعلق مہیا کی گئی ہیں اور جو ہمارے نوجوان قارئین کے لیے بھی شاید دلچسپی کا باعث ہوں ،”روزنامہ جنگ کے چیف ایڈیٹر اور مالک میر خلیل الر حمٰن مرحوم تھے ، آج ان کی کاوشوں سے یہ ادارہ گروپ آف جنگ پبلشرز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین