ہر زبان کی شعری و ادبی روایات میں ایسے استعارات، تلازمات، کنایات ، علامات اور تشبیہات ہوتی ہیں جنھیں مختلف ادوار کے اہلِ قلم استعمال کرتے ہیں اور بسا اوقات ان علامات و کنایات کی حیثیت اصطلاحات کی سی ہوجاتی ہے۔ مثلاً اردو شاعری میں گل، بلبل، بت، صنم، نرگس ، مے کدہ ، شمع ، پروانہ، ناصح وغیرہ لغوی معنی کے ساتھ ساتھ مخصوص علائم و رموز کے طور پر بھی برتے گئے ہیں۔
بعض اوقات بڑا شاعر ان علامات و استعارات کو نئے معنی میں استعمال کرتا ہے اور کبھی کبھی کوئی لفظ یا علامت کسی شاعر کے ہاں ایک خاص مفہوم میں استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً میر تقی میر کی شاعری کے بارے میں مشہور بات ہے کہ ان کے ہاں ’’دل‘‘ دراصل ’’دلّی‘‘ شہر کااور اس کی بربادی کا استعارہ ہے۔اسی طرح اکبر الہٰ آبادی کی شاعری میں شیخ، برہمن، اونٹ، گائے، مِس، کالج، سید ، مسٹر، مولانا اور لندن وغیرہ ایک خاص معنی میں اور علامت کے طور پر آتے ہیں۔
اقبال بھی ہمارے عظیم شعرا میں شامل ہیں اور ان کے ہاں بھی علامات و استعارات کا ایک سلسلہ ہے جس میں وہ بعض مخصوص الفاظ کو اس کے لفظی و لغوی معنی سے ہٹ کر ایک خاص مفہوم یا علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ہی الفاظ میں ایک لفظ ’’لالہ‘‘ ہے۔ لالہ ایک گہرے سرخ رنگ کا خوب صورت پھول ہے جس کے وسط میں ایک کالا داغ ہوتا ہے اوریہ روایتی طورپر اردو میں حسن ، سرخی ، عاشق کے دُکھے ہوئے دل اور دل کے داغ کے استعارے کے طور پر مستعمل رہا ہے۔
ابتدا میں اقبال نے لالہ کو عام پھول کے معنی میں بھی استعمال کیا اور کہیں سرخی کے معنوں میں بھی ۔ مثلاً بانگ ِ درا کی نظم ’’بزم ِ انجم ‘‘ میں کہتے ہیں :
سورج نے جاتے جاتے شام ِ سیہہ قبا کو
تشت ِ افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
یہاںلالے کے پھول کو غروبِ آفتاب کے وقت نمودار ہونے والی افق کی سرخی کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ اردو کی شعری روایت میں لالہ کی جو حیثیت تھی ان معنوں میں بھی اقبال نے اسے برتا یعنی حسن کی علامت کے طور پر ۔ اقبال کے کلام میں لالہ عاشق ، عاشق کے دل اوردُکھے ہوئے دل کے کنائے کے طور پربھی آتا ہے۔چونکہ لالے کے پھول کے قلب میں ایک سیاہ داغ ہوتا ہے اس لیے اسے دل جلنے کی علامت اور داغِ دل کا استعارہ بھی قرار دیا گیا ہے۔بانگ ِدرامیں شامل ۱۹۰۷ء کی ایک غزل میں کہتے ہیں:
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا
سید عابد علی عابد کے بقول ۱۹۰۸ء کے بعد اقبال نے اپنے آپ کو دریافت کیا اور انھوں نے غزل اورتصوف کی اصطلاحات اور تلمیحات کو از سرِ نو پرکھنا اور مختلف مفہوم میں برتنا شروع کیا ۔ اسی دور میں لفظ لالہ کو اقبال نے نئی معنویت دی اوراپنی شاعری اور فلسفیانہ پیغام کے ایک خاص مرحلے پر آکر اقبال نے’’ لالہ ‘‘کو مسلمان اور رسول اللہ ﷺکے اُمتّی کے استعارے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ بانگ ِ درا میں شامل ایک نظم ’’بلاد ِ اسلامیہ ‘‘ میںواضح طور پر اس کا اشارہ بھی موجود ہے۔
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب ِ حجاز
خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہم دوشِ ارم
جس نے دیکھے جانشینانِ پیمبر ﷺکے قدم
جس کے غنچے تھے چمن ساماں وہ گلشن ہے یہی
کانپتا تھا جن سے رُوما ان کا مدفن ہے یہی
یہ نظم ۱۹۰۸ء اور اس کے بعد کے دور میں کہے گئے کلام میں شامل ہے جب اقبال کے کلام میں ایک نیا جہانِ معنی نمودار ہورہا تھا۔ ’’بانگ ِ درا ‘‘ہی میں نظم جواب ِ شکوہ شامل ہے جس میں کہتے ہیں :
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گل لالۂ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا اللہ کا شیدائی تھا
کبھی محبوب تمھارا، یہی ہرجائی تھا
یہاں وہ قرونِ ا ولیٰ کے مسلمانوں کو لالۂ صحرائی کہہ رہے ہیں جو اللہ کی محبت میںصحرائوں میں گزر بسر کرتے تھے۔غلام رسول مہر نے اس بند کی تشریح میں لکھا ہے کہ اقبال مسلمانوں کو وہ دور یاد دلارہے ہیں جب ہر مسلمان اللہ کی راہ میں مر مٹنے کے لیے تیار رہتا تھا۔
بالِ جبریل کی ایک غزل میں بھی اقبال نے لفظ لالہ کی علامتی حیثیت کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمان کی تربیت قدرت کی طرف سے خود ہی ہوتی ہے ۔ کہتے ہیں :
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
لیکن لالہ اور لالۂ صحرائی کا اور بھی زیادہ واضح تصور ’’ بالِ جبریل‘‘(جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا تھا ) کی ایک نظم میں نظر آتا ہے جس کا عنوان ’’لالۂ صحرا ‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صدیق جاوید نے اپنی کتب ’’بال جبریل کا تنقیدی مطالعہ‘‘ میں لکھاہے کہ لالۂ صحرا انداز ِ بیاں اور اپنے دل کش اسلوب کے لحاظ سے اقبال کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے اور بقول ان کے اس نظم میں لالہ کی علامتی حیثیت بہت معنی خیز ہے۔
اس نظم کے ایک شعر میں اقبال کہتے ہیں :
بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری ، اے لالۂ صحرائی
غلام رسول مہر نے لکھا ہے کہ یہاں اقبال لالے کے پھول سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ یہاں تیرا داغ ِ جگر دیکھ کر تیری قدر کرنے والا ناپید ہے، تجھے تو کسی باغ کی بہار بن کر اس کے حسن و جمال کو چارچاند لگانا چاہیے تھا ۔ لیکن چونکہ لالہ اصل میں مسلمان کی علامت ہے اس لیے عابد علی عابد کے بقول یہاں اقبال مسلمانوں سے مخاطب ہیں۔ اس نظم کا آخری شعر ہے :
اے باد ِ بیانی ! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی ، سرمستی و رعنائی
نسیم امرہووی کے بقول اس نظم کے آخری شعر میں اقبال آرز وکرتے ہیں کہ اللہ کے نیک بندوں اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں جو صفات تھیں وہ ہم میں بھی پیدا ہوجائیں ۔ وہ صفات کیا ہیں ؟غورو فکر کی خاموشی، دوسروں کے لیے دلی ہم دردی اور اللہ کی محبت میں سرمستی، یہ تین صفات حاصل ہوں تو ان سے چوتھی صفت پیدا ہوتی ہے یعنی کشش اور محبوب ِ خلائق ہونا۔
اقبال کو احساس تھا کہ ان کی شاعری مسلمانوں میں بیداری کاسبب بن رہی ہے۔ ضربِ کلیم میں کہتے ہیں :
مری نوا سے گریبانِ لالہ چاک ہوا
نسیم ِ صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی
اس خیال کا اعادہ ضرب ِ کلیم کی نظم’’ ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ میںابلیس کی زبانی آخری شعر میں ہوتا ہے جس میں ابلیس اقبال کی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں پیدا ہونے والی بیداری کی طرف اشارہ کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اقبال کے کلام سے مسلمانوں میں آگ لگ رہی ہے لہٰذا ابلیس کے فرزند ، اقبال کی آواز کو دبانے کوشش کریں۔ لیکن اس نظم کے آخری شعر سے پہلے کے چند شعر بھی نہایت قابلِ توجہ ہیںجو آج کے دور میں زیادہ معنویت کے حامل ہوگئے ہیں ، ابلیس کہتا ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
ر وحِ محمد ﷺ اس کے بد ن سے نکال دو
فکر ِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت ِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکا ل دو
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہُو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
کیا یہ سب ہم آج کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ابلیس کے سیاسی فرزند اس ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں؟
اور آخری شعرمیں ابلیس کی زبانی اپنے پیغام اور لالہ یعنی مسلمانِ ہند کی طرف یوں اشارہ کیا :
اقبال کے نَفَس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
لیکن اقبال کا پیغام پھیل گیا اور مسلمانانِ ہند نے اپنے جذبے کی آگ سے ایک اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی،اب اس چمن کو سنوارنا اگلی نسلوں کے ذمے داری ہے۔
ایک دفعہ علامہ اقبال ایک محفل میں شریک تھے وہاں پر موجود کچھ شریر نو جوان جو کہ علامہ کی شہرت سے جلتے تھے ، انہوں نے منصوبہ بنایا کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے علامہ کی بھری محفل میں سبکی ہو جائے، لہٰذا انہوں نے ایک مصرعہ سوچا اور علامہ سے گرہ لگانے کا مطالبہ کیا مصرعہ یہ تھا:
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں، ہرن پانی میں
مصرعہ مکمل طور پر بانجھ تھا، نوجوانوں کا خیال تھا کہ جب علامہ اس پر طرح لگانے میں ناکام ہو جائینگے تو انکی شعر گوئی کی صلاحیت کی پول سب کے سامنے کھل جائیگی۔علامہ نے پہلے تو معذ رت کرلی کہ میں طرحیں لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتا لہٰذا مجھے معاف رکھیں، نوجوان سمجھے کہ علامہ راہ فرار اختیار کر رہے ہیں، لہٰذا انکا مطالبہ زور پکڑ گیا، جب اصرار زیادہ ہو گیا تو علامہ نے صرف چند ساعتوں کے لیے سر کو جھکایا اور مصرعہ پر لافانی طرح لگا کر یوں مکمل کیا:
اشک سے دشت بھریں، آہ سے سوکھیں دریا
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں، ہرن پانی میں
یہ بہترین گرہ سن کر پوری محفل عش عش کر اٹھی اور مخالفین کا منہ لٹک گیا۔