• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب انگریزی کے لفظ’’چیرمین ‘‘اور اس کی غلط جمع یعنی ’’چیرمینز‘‘کا ذکر آیا تو اس کی تانیث کا تماشا بھی یاد آگیا۔ لڑکیوں کے بعض سرکاری کالجوں کے باہر بورڈ لگا ہوا دیکھا جس پر اردو حروف میں لکھا تھا’’گورنمنٹ کالج فار وومن‘‘ یا’’ گورنمنٹ وومن کالج ‘‘ ۔ بہت حیرت ہوئی کہ حکومت نے وومن (woman) یعنی صرف ایک لڑکی کے لیے پورا کالج کھول دیا۔ جب ہم نے ایک پروفیسر نما دوست یا دوست نما پروفیسر سے پوچھا کہ امیر ملکوں میں بھی ایک طالب علم کے لیے ایک کالج نہیں بنایا جاتا تو ہمارا ملک یہ عیاشی کیسے کرسکتا ہے۔ بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ آپ لفظوں کو دیکھتے ہیں اور واحد جمع کے چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ کالجوں میں پڑھانے والے بھی وومن اور ویمن کا فرق نہیں جانتے ۔تو ہم نے کہا کہ پھر سیدھا سیدھا اردو میں ’’سرکاری کالج براے خواتین ‘‘کیوں نہیں لکھتے ؟

انگریزی میں لفظ وومن (woman) (یعنی عورت ، لڑکی، خاتون) کی جمع بناتے وقت اس کے ہجے میں ’’اے‘‘ کی بجاے ’’ای‘‘ لکھا جاتا ہے یعنی women اور اس کا تلفظ ’’وی من‘‘ کیا جاتا ہے، مفہوم ہے عورتیں، لڑکیاں ، خواتین۔یعنی گورنمنٹ کالج فار ویمن یا گورنمنٹ ویمن کالج لکھنا اور بولنا چاہیے تاکہ جمع کا مفہوم پیدا ہو۔ وومن کالج لکھنا اور بولنا غلط ہے۔

٭…انگریزی الفاظ کی جمع اردو میں

اصول یہ ہے کہ انگریزی کے جو الفاظ اردو میں اتنے رائج ہیں کہ گھل مل کر اردو کا حصہ بن چکے ہیں ، مثلاً ڈاکٹر، نرس،کالج، اسکول، بس ، بورڈ، شفٹ وغیرہ، ا ن کی جمع بھی اردو کے قاعدے سے بنائی جائے گی۔ لیکن آج کل یہ عجیب روش چل پڑی ہے کہ ان الفاظ کی جمع اردو میں بھی انگریزی کے قاعدے سے بنائی جارہی ہے مثلاً ، ڈاکٹرز کا احتجاج، نرسز کی تنخواہیں، کالجز کی شفٹز ، بسز کی ہڑتا ل، دکانوں کے نئے بورڈز، وغیرہ۔ یہ درست نہیں ہے۔ ان الفاظ کی جمع اردو میں اردو کے قاعدے سے بنے گی جیسے ڈاکٹروں کا احتجاج، نرسوں کی تنخواہیں ، کالجوں کی شفٹیں، بسوں کی ہڑتال، دکانوں کے نئے بورڈ۔ 

اسی طرح جملے کی نحوی ترتیب اور قواعدی اصولوں کے لحاظ سے بسیں اور نرسیں وغیرہ لکھاجائے گا، بسز اور نرسز نہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے انگریزی کے لفظ ’’میم‘‘ کی جمع اردو میں ’’میمیں‘‘ اور جملے کی ساخت کے لحاظ سے ’’میموں‘‘ آتی ہے ، اسے ’’میمز‘‘کوئی نہیں لکھتا ۔ یہ طریقہ اردو میں بہت عرصے سے رائج ہے اور بڑے ادیبوں اور شاعروں کی تحریروںسے بھی اس کی سند ملتی ہے۔مثلاً انگریزی لفظ ’’مِس ‘‘ ((missبمعنی نوجوان خاتون، مرادی معنی : مغربی خاتون کی جمع کے لیے اکبر ا لہٰ آبادی کا یہ شعر دیکھیے:

بُوے وفا نہیں ہے مِسوں کے اصول میں

بس رنگ دیکھ لیجیے گملے کے پھول میں

گویا مس کی جمع اردو میں مسیں یا مسوں ہوگی۔ انگریزی لفظ ’’بس ‘‘ (bus)کی جمع اردو میں بسیں یا بسوں ہوگی اور اس کی سند کے طور پر سید محمد جعفری کی نظم ’’بس کا سفر‘‘ سے شعر حاضرہے:

پڑا ہوگا بسوں میں آپ کو ایسوں سے بھی پالا

اٹھی کھجلی تو اپنے ساتھ، ساتھی کو کھجا ڈالا

لیکن اب خدا جانے اچانک ایسی کیا افتاد پڑی ہے کہ اردو کے قدیم اصول انگریزی کی جدید قربان گاہ پر ذبح کیے جارہے ہیں ۔دراصل یہ ہمارا قومی احساسِ کم تری ہے کہ ہم انگریزی کو اعلیٰ و بالا زبان سمجھتے ہیں اور انگریزی بول کر سمجھتے ہیں کہ ہماری توقیر میں اضافہ ہوجائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں انگریزی آتی نہیں ہے بس جھاڑنے کا خبط ہے۔

بھلا بتائیے جن لوگوں کو انگریزی کے عام سے الفاط مثلاًفی، چیرمین اور وومن کے صحیح ہجے اور جمع کا علم نہیں ہے ان کو کتنی انگریزی آتی ہوگی اور ان کی توقیر میں کتنا اضافہ ہوتا ہوگا؟ اپنی قومی زبان چھوڑ کر غیروںکی نقالی کرنے والی قوم کی توقیر غیروں کی نظر میں بھی نہیں ہوتی۔ انگریزی ضرور سیکھیے ، ضرورت پڑے تو لکھیے اور بولیے بھی۔ لیکن جب ہم اردو بولیں اور لکھیں تو صرف اردو کے الفاظ استعمال ہونے چاہییں۔

تازہ ترین