• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی کے شہر ہائیڈلبرگ کی خالی سڑکوں اورسنسان گلیوں میں حفاظتی لباسوں میں ملبوس گاڑیوں میںطبی عملہ کوکورونا ٹیکسی کا نام دیا گیا ہے۔ جو گھر میں رہنے والے کورونا کے مشتبہ مریضوںکو ان کےگھر پر جاکر چیک کرتا ہے جو پانچ یا چھہ دنوں سے بخار میں مبتلا ہوں۔ یہ ان کے خون کے نمونے لے کر اس کا تعین کرتا ہے کہ کیا یہ مریض مرض کی شدت میں مبتلا ہونے والاہے ۔ ایسے تمام افراد کو وہ ہسپتال میں داخل ہونے کامشورہ دیتے ہیں۔ان میں معمولی علامات کے مریض بھی ہوتے ہیں، کیوں کہ ہسپتال میں داخلے کے بعد شروع ہونے والے مرض سے ان کی صحت یابی کی توقعات زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔

ہائیڈلبرگ یونیورسٹی ہسپتال کے وائیرولاجی شعبہ کے انچارج پروفیسر ہانس جارج کرائوسلیچ کے مطابق اس کی ابتداپہلے ہفتہ کے آخر میں ہوتی ہے اور اگر آپ وہ شخص ہیں ،جس کے پھیپھڑے فیل ہوسکتے ہیں تو پھر آپ کی حالت بگڑ سکتی ہے۔

ہائیڈلبرگ کی کورونا ٹیکسی اگرچہ ایک شہر کی پہل ہے لیکن اس سے جرمنی کے ذمہ داروںکا اپنے عوام کی فلاح کے لیے پبلک فنڈ خرچ کرکے وبا سے جنگ عوام سے کئے ہوئے اپنے عہد کی پاسداری کرنا ہے۔ اس سے اس معمہ کا حل مل جاتاہے کہ اس عالمی وبا سے جنگ میں جرمنی میں مریضوں کی شرح اموات میں انتہائی کمی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

کورونا وائیرس اور اس سے پھیلنے والی بیماری کا حملہ جرمنی پر بھی اسی شدت سے ہواتھا ،جتنا اس کے پڑوسی دوسرے ملکوں پر ہواتھا۔

بون کے یونیورسٹی ہسپتال میں انسٹیٹیوٹ آف وائیرولاجی کے ڈائریکٹر ہینڈریک اسٹریک کاکہنا ہے کہ۔’ جرمنی کی شرح اموات کی اس باقاعدگی پر کافی گفتگو ہورہی ہے، کیوں کہ پروفیسر اسٹریک کو امریکااور دوسری جگہوں سے اس کی وجہ دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بات تو یہ کہ جرمنی میںمریضوں کی اوسط عمر دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کم ہے۔ وائرس سے متاثر ہونے والے شروع کے مریض جواٹلی اور آسٹریا کے اسکائی ریزورٹ میں تھے نسبتا ًجوان اور صحت مند تھے۔ اس طرح یہ اسکائرز کی وبا تھی۔ پروفیسر کرائوسلیچ کے مطابق اس وبا کے شروع میں جب یہ مرض پھیلا تو دو ہفتہ پہلے عمر رسیدہ افراد کی شرح اموات2 فی صد تھی جو بعد میں متاثر ہونے والے مریضوں کے بڑھنے کے بعد بھی نسبتاً کم تھی، کیوں کہ جرمنی کی اوسط عمر 49 سال تھی جو اٹلی کے مطابق اوسطا 62 سال اور فرانس کے مطابق62.5 سال تھی،جس کا اعلان دونوںکی حالیہ قومی رپورٹوںمیں کیا گیا تھا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جرمنی دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ افراد کاٹیسٹ کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ جرمنی میں چندعلامات کے ظاہر ہونے پر اوربغیر علامات کے بھی لوگوں کو ٹیسٹ کیاجاتا ہے، جس سے معلوم شدہ کیسوں کی تعداد میں تواضافہ ہوگیا تھا۔لیکن اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن وبائی اور وائیرل امراض کے ماہرین کے مطابق ان کے علاوہ بھی کچھ قابل ذکر طبی معاملات ہیں، جن کی وجہ سے جرمنی میں کورونا کے مریضوںکی شرح اموات کم رہی ہیں۔ان میں سب سے خاص ابتدائی تشخیص اور بڑے پیمانہ پر ٹیسٹ کرکے مرض کا علاج کرنےکے علاوہ نگہداشت کے بستروں کی وافر فراہمی بھی ممکن بنائی گئی تھی۔اس کے علاوہ حکومتی ذرائع سے عوام کو مجلسی فاصلہ رکھنے کی سفارش پر عوام کے اعتماد سے اس پربخوبی عمل درآمد کرنے سے بھی کافی مدد حاصل ہوئی تھی۔

جنوری کے وسط میں جب جرمن شہریوں کو کورونا وائرس کا زیادہ خیال بھی نہ تھا ۔برلن کے چیریٹی ہسپتال میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ تیار کرکے اس کا فارمولا آن لائن کردیا تھا۔ چناں چہ فروری میں کورونا کا پہلا کیس ہونے کے وقت تک جرمن لیباریٹریز نے بڑے پیمانہ پر اس کی ٹیسٹ کٹ تیار کرکے ذخیرہ کرلئے تھے۔اور جرمنی میں ابھی تک شرح اموات مریضوں کی تعدادکم ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لیباریٹریز میں بہت بڑے پیمانہ پر تشخیص کر رہے ہیںـ۔اس بات کا اظہارڈاکٹر کرسچین ڈروسٹن نے کیا تھا ، جو چیریٹی ہسپتال کی اس ٹیم میں شامل تھے جس نے کورونا ٹیسٹ تیار کیا تھا۔ اب جرمنی میں تقریبا ًہر ہفتہ350,000 کورونا کے ٹیسٹ کئے جارہے ہیں جو کسی بھی یوروپی ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ ابتدا ئی اور بڑے پیمانہ پر ٹیسٹ کرکے معلوم کردہ مریضوں کو علیحدہ رکھنے کی وجہ سے حکام کومرض کے پھیلائو کی رفتار کم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جس کے سبب بروقت علاج کرنا ممکن ہوگیا ہے۔

اس طرح مریض کی حالت بگڑنے سے پہلے اسے وینٹی لیٹر سے منسلک کیا جاسکتا ہے، جس سے مریضوں کی جان بچانے کی شرح زیادہ ہو جاتی ہے۔ پروفیسر کائوسلیچ کا کہنا ہے کہ میڈیکل اسٹاف کے وائرس سے متاثرہونے کے سبب مرض پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے ،اسی لیے ان کومسلسل ٹیسٹ کیا جانا چاہیے ۔ جرمنی کے کچھ ہسپتالوں میںاسٹاف کا بلاک ٹیسٹ کیا جاتا ہے ۔یعنی 10ملازمین کا سویب ٹیسٹ کیاجاتا ہے اور انفرادی ٹیسٹ جب ہی کیا جاتا ہے جب ان میں سے کوئی ٹیسٹ مثبت آجاتاہے۔

اپریل کے آخر میں محکمہ صحت کے ذمہ داران کا منصوبہ ہے کہ وہ پورے جرمنی میںصحت مند ہونے والے100,000 مریضوں کے ہر ہفتہ randomly اینٹی باڈی antibody))ٹیسٹ کریں گے،تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کورونا سے مزاحمت میں کس جگہ پر اضافہ ہورہا ہے۔

پروفیسراسٹریک کے مطابق بڑے پیمانہ پر ٹیسٹ کرنے کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ وہ بلامعاوضہ ہو۔ وبا کے ابتدا ئی ہفتوں میں یہ وہ قابل ذکرفرق تھا جوامریکا اور جرمنی میں رہا تھاجب کہ امریکا میں کورونا وائرس کا ریلیف بل پچھلے مہینہ کانگریس سے پاس ہوا تھا ،جس کے ذریعے سے اب لوگوںکامفت ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسراسٹریک کا کہنا ہے کہ ان کو فروری کے آخر میں معلوم ہوا کہ ان کے بون کے ہسپتال میں ایک 22 سالہ نوجوان کاپہلی مرتبہ کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا تھا ،جب کہ اس میں اس مرض کی کوئی علامت نہیں تھی ۔

لیکن جس اسکول میں یہ ملازمت کرتاتھا جب ان کو یہ بتا چلا کہ اس نے ایک ایسے کارنیوال میں شرکت کی تھی ،جس میں شرکت کرنے والے کسی شخص کا کورونا ٹیسٹ مثبت تھا ۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں، جن میں امریکابھی شامل ہے ز یادہ تر ٹیسٹ بیمار مریضوں تک محدود ہوتا ہے۔ چناں چہ اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ اس کا ٹیسٹ کرنے سے انکار کردیا جاتا۔ لیکن جرمنی میں ایسا نہیں ہوگا۔ یہ کیس آنےکے بعد جرمنی میں 235افراد کے ٹیسٹ لیے گئے تھے ۔

نشاندہی کرکے پیچھا کرنے کے بعدٹیسٹ کرنا وہ حکمت عملی تھی جو جنوبی کوریا میں بہت زیادہ کامیاب ہوئی تھی، جس کی ہمیں بھی سیکھنے کی ضرورت تھی۔ پروفیسر اسٹریک کے مطابق شروع میں غلط چل کر بعد میںجرمنی نے بھی اسی حکمت عملی کو اپنایا تھا ۔چناں چہ ا شگل سے جرمنی آنے والے تمام افراد کی نشان دہی کرکے ان کے ٹیسٹ کیے گئے تھے ،کیوں کہ اس اسٹریائی اسکائی ریزورٹ میں کورونا وائرس کا حملہ ہوا تھا ۔ 

پروفیسر نے مزید بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا جرمنی میں پھیلنے سے قبل گیسن کے یونیورسٹی ہسپتال میں 173وینٹی لیٹرموجود تھے ۔ہسپتال نے ان میں چالیس بستروں کا اضافہ کرکے نگہداشت کے اسٹاف میںا ضافہ کیا ،تا کہ بر وقت ان کو استعمال کیا جاسکے ۔جن میں نصف بستر انتہائی نگہداشت کے تھے ۔لہٰذاجرمنی انتہائی نگہداشت کے شعبے میں زیادہ مضبوط ہے ۔جنوری کے مہینے میں جرمنی کے پاس 28000وینٹی لیٹر موجود تھے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین